ٹیکسلا کے آثار قدیمہ

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری 2010

            ‘‘اور یہ ان بستیوں کی بعض خبریں ہیں جن میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض نیست و نابود ہو گئی ہیں۔اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انھوں نے اپنی جانوں پرظلم کیا،سو اللہ کے سوا وہ جن بتوں کی پرستش کرتے تھے ،جب اللہ کا عذاب آگیا تو وہ اُن کے کسی کام نہ آ سکے، اور انھوں نے اُن کی ہلاکت کے سوا کوئی اضا فہ نہیں کیا۔اور آپ کے رب کی گرفت اسی طرح ہو تی ہے،جب وہ بستیوں پر اس حال میں گرفت کرتا ہے کہ وہ ظلم کر رہی ہوتی ہیں ،بے شک اُس کی گرفت دردناک شدید ہے۔’’(سورہ ھود،۱۰۰ تا ۱۰۲)

            وطن عزیزپاکستان ،اگرچہ اپنی عمر کے اعتبار سے محض ساٹھ سال کا ہے لیکن تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے وہ علاقہ جس پر یہ مشتمل ہے،بہت قدیم ہے۔اس سرزمین کو اللہ کریم نے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے جن میں، اس کی تہذیب کا قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہونا نہایت اہم ہے۔قدیم تہذیبوں کے جہاں جہاں آثار ملے ہیں ،اُن میں سے ایک جگہ ٹیکسلا بھی ہے۔ یہ قصبہ ضلع راولپنڈی میں ،جی ٹی روڈ پر ،راولپنڈی سے پشاور کی طرف جاتے ہوئے تقریباً ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ علاقہ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کے سنگم پرواقع ہے اس لیے تہذیبی ،معاشرتی اور سماجی اعتبار سے دونوں صوبوں کی تہذیب کا بھی سنگم ہے۔سرسبز پہاڑی علاقہ ہے جس میں نہایت خوبصورت لینڈ سکیپ ہیں۔موجودہ قصبہ ایک اہم تعلیمی مرکز ہے۔اس چھوٹے سے قصبے میں جہاں گورنمنٹ سیکٹر میں ایک انجنیرنگ یونیورسٹی قائم ہے وہاں ہیوی انڈسٹریزٹیکنیکل یونیورسٹی بھی کام کر رہی ہے۔ٹیکسلا کے جڑواں شہر واہ کینٹ میں بھی ایک یونیورسٹی اور میڈیکل کالج (پرائیویٹ سیکٹر میں ) قائم ہے اس کے علاوہ ہیوی مکینیکل انڈسٹری،واہ آرڈینینس فیکٹری اور کئی دیگر فیکٹریاں بھی ،علاقے کی اہمیت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ٹیکسلا کی شہرت کی ایک اور وجہ ،یہاں پر آنکھوں کا ایک ہسپتال بھی ہے جو قریباً ایک صدی سے اس علاقے میں خاص طور پر اور ملک بھر میں عام طور پر نور پھیلا رہا ہے۔جدید تعلیمی اورتکنیکی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ،ٹیکسلا قدیم تہذیبوں کا بھی مرکز ہے۔یہاں سے قریباً سو سال قبل ملنے والے آثار ِ قدیمہ سے ثا بت ہو تا ہے کہ یہ شہر صدیوں قبل گندھارا تہذیب اور بدھ مذہب کے سیاسی عروج کا مرکز رہا ہے۔

            ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وطن عزیز کے اس خوبصورت قصبے میں موجود ان آثار ِ قدیمہ کی سیر کی جائے اور چند لمحات اُن کھنڈرات میں گزارے جائیں جو کبھی علم و فن کے جیتے جاگتے مراکز تھے۔یہ خواہش ۱۶۔ اکتوبر۰۹ بروز جمعہ، اُس وقت پوری ہوئی جب بندہ اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ یہاں پہنچا۔اس پروگرام کے اصل محرک برادرم میاں محمدیوسف تھے جودوستوں کے دوست اور یاروں کے یار ہیں۔ان کے علاوہ برادرم محمد فاروق بھی تھے جو علم و فن سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان اور سیر و سیاحت کے دِل دادہ ہیں۔جمعے کے دِن کا انتخاب ،اس خاکسار کی مجبوری کی بنا پر کیا گیا تھاکیونکہ بندہ اس کے علاوہ کسی دِن کلینک بند کرنے کوaffordنہیں کر سکتا ۔میاں صاحب تو سرکاری ملازمت میں ہیں ،اُن کے لیے چھٹی مسئلہ نہ تھا جب کہ فاروق صاحب ایک کاروباری آدمی ہیں ،انھوں نے بھی آسانی سے اس دِن کو manageکر لیا۔ایک ٹیکسی کروائی گئی اور قریباً چار گھنٹوں کے سفر کے بعد،ہم ٹیکسلامیوزیم تک پہنچے۔ موسم بڑا معتدل تھا۔جی ٹی روڈ پر ،کھاریاں سے پنڈی اور اُس سے آگے کا سفر اپنے قدرتی مناظر کے اعتبار سے ،خاکسار کے لیے ہمیشہ فرحت انگیز اور خوش کن ہو تا ہے۔

ٹیکسلا میوزیم:

            ہماری پہلی منزل ٹیکسلا میوزیم تھا۔اس میوزیم میں ،ان آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران میں ملنے والی اشیا رکھی گئی ہیں۔اس کی سیر کے لیے دس روپے فی آدمی ٹکٹ مقرر کی گئی ہے۔پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ہم نے استقبالیہ سے ٹکٹ خریدے اور ہال کی طرف بڑھ گئے۔یہ ایک بڑا اور شاندار ہال ہے جس میں بڑی خو بصورتی سے ان چیزوں کو سجایا گیا ہے۔اس ہال کی عمارت کی بناوٹ اور اس کے اندر اور باہر کے ماحول کی سجاوٹ،اپنی جگہ، ایک، دیکھنے کی چیز ہے۔ان آثار ِ قدیمہ سے ملنے والی سب سے زیادہ قابل بیان چیز بدھ مذہب کے بانی مہاتما بدھ کی مورتیاں ہیں۔جب ان علاقوں میں اس مذہب کا دور دورہ ہوگا،اس وقت کے ماہر کاریگروں کی بنائی ہوئی یہ مورتیاں اس دور کے فن کاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ہمارے لیے یہ چیز کئی پہلوؤں سے عجیب تھی ۔ایک تو اس لحا ظ سے کہ مہاتما بدھ کی شخصیت کے بارے میں ہماری واقفیت صرف نام کی حد تک تھی،یہاں آ کر معلوم ہو ا کہ تاریخ کے ایک دورمیں، یہ شخصیت بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی تھی،اس حد تک کہ اُس کے مرنے کے بعد کاریگروں نے اُس کی اتنی خوبصورت مورتیاں بنائی تھیں ۔آج بھی مشرق بعید کے کئی ممالک میں مہاتما بدھ کے پیروکار بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

            تاریخی اعتبار سے اس میوزیم کے مجسمے قبل از مسیح کے تھے۔اس دور کے ماہرین فن کی مہارت نے مبہوت کر کے رکھ دیا جہازی سائز کے مجسموں سے لے کر نگینے تک کے مجسموں میں سب میں مہاتما کی شباہت میں ذرہ برابر فرق نہ تھا۔عجائب گھر کے اندر ،بدھا کے ان مجسمات کو اس ترتیب سے رکھا گیا تھا کہ مجسموں کے مختلف پوز،بدھا کی زندگی کے مختلف ادوار کی نمائندگی اور وضا حت کرتے تھے۔جب ان کی والدہ نے خواب میں مہاتما کی پیدائش کو دیکھا تھا،وہاں سے لے کر ،مہاتما بدھ کی وفات تک کے دور کویہاں مجسماتی صورت میں بیان کیا گیا تھا۔اُن کی عبادت اور مراقبے کی حالت کے مجسمے بھی رکھے تھے۔کہیں وہ وعظ کر رہے ہیں اور کہیں وہ مراقبے کی حا لت میں ہیں اور غور و فکر کر رہے ہیں۔کسی مجسمے میں انھیں جنگلوں کی خا ک چھانتے دکھایا گیا ہے اور کسی میں انھیں بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم بیٹھا دکھا یا گیا ہے۔یہ سب چیزیں ہمارے لیے واقعی عجوبہ تھیں۔ماضی بعید کی کسی شخصیت کے حالات کو یوں محفوظ دیکھنابڑا ہی حیران کن اور عجیب تھا۔

            ان کھنڈرات سے ملنے والی اہم ترین چیزوں میں سے ایک اہم چیزاسٹوپے (stupas)بھی ہیں۔یہ خاص قسم کی تعمیرات ہیں،انھیں آپ آسانی کے لیے بدھ مت کے پارسا اور نیک لوگوں کی قبریں بھی کہہ سکتے ہیں۔ویسے تو وہ اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے لیکن اس کی راکھ کو ،ہندووں کی طرح دریا برد کرنے کی بجائے،ان اسٹوپاز میں محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ٹیکسلا کے ان کھنڈراتی شہروں سے جو اسٹوپے ملے ہیں اپنے تعمیراتی حسن کے اعتبار سے بے مثال ہیں ۔ان کے اندر سے کئی قسم کی قیمتی دھاتیں ،سونا اورچاندی کے سکے بھی ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے مردوں کی راکھ کے ساتھ اس قسم کی قیمتی اشیاء بھی دفن کیا کرتے تھے۔ ان پر جو تحریریں کندہ ہیں اور جس قسم کی تصویریں ان پر بنائی گئی ہیں ،اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسٹوپے (stupaas)بطور عبادت گاہ بھی استعمال ہوتے تھے۔ویسے تو یہ اسٹوپے،ان کھنڈراتی شہروں میں ہیں لیکن کچھ کو وہاں سے نکال کر یہاں عجائب گھر میں بھی رکھا گیا تھا۔ان اسٹوپاز کی تعمیری نزاکت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ہم سوچتے رہے کہ ان اسٹوپاز کی تعمیر میں ،اُس دور میں،جب نہ سیمنٹ تھا اور نہ سریا،تو کونسا میٹریل استعمال کیا گیا ہو گا ،کہ ابھی تک ،نہ صرف وہ قائم تھے بلکہ اُن پر کندہ کی جانے والی تحریریں اور تصویریں بھی ،اپنے تمام تر باریک خدو خال سمیت ،محفوظ تھیں ،جب کہ پنے ہاں کی انجیئنرنگ کا یہ کمال ہے کہ پل (bridge)بنتا بعد میں ہے اور ٹوٹ پہلے جاتا ہے۔سڑک پر ابھی ٹریفک رواں نہیں ہوئی ہوتی اوروہ پہلے ہی ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔(ویسے کہا یہ جاتا ہے کہ یہ انجنیرنگ کا نقص نہیں بلکہ بدعنوانی کا کما ل ہے)اس کے علاوہ میوزیم میں کئی اور چیزیں بھی سجی تھیں۔مٹی کے برتنوں کی ایک پوری لائن تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظروف سازی کا فن بھی ،اُس دور میں اپنے عروج پر تھا۔صدیوں قبل کی بنی مٹی کی پلیٹیں،جگ ،گلاس ،دیگچیاں ،ہانڈیاں ،مٹکے اور پانی پینے کے برتن اور صراحیاں موجود تھیں۔یہ آج بھی اپنی اصلی رنگت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔اُن کی نزاکت اور ان میں موجود فنی مہارت سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ان کے علاوہ ،پیتل اورلوہے کے آلات، جیسے چھریاں،چاقوکانٹے،چمچے،دیگیں،تلواریں ،درانتیاں،کلہاڑے،ہتھوڑے اورآلات جراحی قابل ذکر ہیں۔عمل کشید میں استعمال کرنے کے لیے سائنسی آلہ بھی رکھا تھا جس سے ان لوگوں کی سائنس اور طب میں دلچسپی ثابت ہو تی ہے۔سنار اور زیور سازی میں بھی وہ قوم کسی سے پیچھے نہ تھی۔سونے چاندی سے بنے خوبصورت ڈیزائن کے زیور،ہاتھی دانت سے بنے زیورات اور مختلف قیمتی پتھروں سے تراشیدہ زیورات بھی نمایش کے لیے موجود تھے۔

آثار ِ قدیمہ:

            ٹیکسلا کے کھنڈرات ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلے ہو ئے ہیں۔یہ سارا علاقہ سطح مرتفع پوٹھوہار ہے جہاں چھوٹی بڑی کئی پہاڑیوں کا سلسلہ ہے،زمین اونچی نیچی ہے ، چاروں طرف سبزہ ،پھلوں کے باغات سے بھرااور خوشگوار منظر والا علاقہ ہے۔ٹیکسلا کے ارد گرد قریباً ۳۰ کلو میٹر کے علاقے میں ان آثارِقدیمہ کے یہ کھنڈرات پھیلے ہوئے ہیں۔مشہوربرطانوی آرکیالوجسٹ،سر جان مارشل نے ((1878_1958 ان شہروں کی کھدائی کی نگرانی کی تھی اور بڑی محنت سے برآمد ہونے والی اشیا کے گہرے مطالعے سے نتائج اخذ کیے تھے۔ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے آثار اور پوری وادی سندھ کی قدیم تہذیب کو آشکار کرنے کا سہرا بھی انھی سر جان مارشل کے سر ہے۔بیسویں صدی کے آغاز میں ، قریباً ۲۰ سال تک وہ ،اپنے وطن سے دور ،ان کھنڈرات کی خاک چھانتے رہے اور کئی تاریخی موتی برآمد کرتے رہے اور آنے والی نسلوں کے لیے علم کے ہزاروں خفیہ گوشے بے نقاب کر گئے۔ٹیکسلا کے ارد گرد پھیلے ان آثار ِقدیمہ میں سے ۴ جگہیں خاص طور پر قابل دید ہیں۔

۱۔ سرکپ (200 B.C.--600A.D.)

۲۔ جولیاں (200 B.C.--600A.D.)

۳۔ موہڑا مرادو ۔۴سر سکھ

            ان میں موہڑا مرادو اور جولیاں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اس دور میں بدھ مذہب کے تعلیمی ادارے تھے۔یہ سکونتی یونیورسٹیاں تھیں جہاں پر دور دور سے شہزادے اور امیر لوگ اپنے مذہب کی تعلیم حا صل کرنے آتے تھے۔

سر کپ:

            میوزیم سے باہر نکلے تو کچھ دیر کے لیے میوزیم کے ارد گرد بنے خو بصورت باغ کا نظا رہ کیا ۔برادرم فاروق صاحب نے کچھ لمحات کی فلم بھی تیار کی۔میوزیم کے اندر اگر چہ تصویریں لینا منع تھا،فاروق صاحب نے اپنی مہارت استعمال کر کے ان عجائبات کی بھی کچھ فلم تیار کر ہی لی جس سے یہ مضمون لکھنے میں مجھے بے پناہ مدد ملی۔ اس باغ میں ایک خاص بات ،ایک درخت تھا جس کے بارے میں یہ لکھا ہوا تھا کہ پیپل کا یہ درخت اُس پیپل کی قلم shoot) (سے لگایا گیا ہے جس کے نیچے سینکڑوں سال قبل مہا تما بدھ نے اپنی مخصوص عبادت کی تھی۔یہاں پر یہ قلم سری لنکا سے لا ئی گئی تھی اورصدر جنرل ایوب خان کے زمانہ میں یہاں لگائی گئی تھی۔

            باغ کی سر کرنے کے بعد ہم اس کھنڈراتی شہر کی طرف گئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی پرانا ٹیکسلا تھا،جو صدیوں قبل یہاں آباد تھا۔میوزیم سے آگے ،ہری پور ہزارہ جانے والی سڑک پر یہ آثار ہیں۔معلوم نہیں کس طرح سر جان مارشل کو پتا چلا کہ ان پہاڑیوں اور ٹوٹی پھوٹی زمینوں میں کوئی شہر مد فن ہے۔بہرحال اُس نے بڑی مہارت اور بڑی محنت سے یہاں کھدوائیاں کروائیں اور اس شہر گم گشتہ کو دریافت کیا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے،بڑی ذمہ داری سے ،مین روڈ سے آثار تک اپروچ روڈز بنائی ہوئی ہیں اوران کی نشان دہی کے لیے سڑک پر مناسب بورڈز بھی لگائے ہوئے ہیں۔ہم ان بورڈز اور نشانات کو دیکھتے اور ہری پور روڈ کے دونوں طرف کے خو بصورت منظر سے لطف اندوز ہوتے،سرکپ پہنچ گئے۔وہاں محکمہ کا مختصر سا عملہ موجود تھا ،جن سے ہم نے آثار کی سیر کرنے کے لیے ٹکٹ خریدے اور اس شہر کی طرف چل پڑے۔سب سے پہلے جس چیز نے ہمارے قدم روکے وہ پتھروں سے بنی شہر پناہ تھی۔عملے میں سے ہی ایک نوجوان خود بخود ہمارا گائیڈ بن گیا اور اس نوجوان کے بقول یہ شہرمکمل طورپرایک walled cityتھا جس کی چار دیواری کا چھوٹا سا حصہexcavate کیا گیا تھا جو کہ ہمارے سامنے تھا۔یہ فصیل واقع شہر پناہ تھی کیونکہ اس کی موٹائی ،اونچائی اور تعمیراتی مضبوطی اس سطح کی تھی کہ دشمن کے لیے اس فصیل کو توڑ کر اندر آجانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔اُس گائیڈ کے بقول ،یہ شہر تین دفعہ تباہ ہوا اور تین دفعہ تعمیر ہوا۔اس بات کا ثبوت وہاں کھدائی کیے گئے ایک نمونے sampleسے بخوبی ہو جاتا ہے۔یہ شہر قریباً ۵ مربع کلو میٹر کے رقبہ پر پھیلا ہوا تھاجس میں سے محض ڈیڑھ مربع کلو میٹر کھودا جا سکا ،باقی کا شہر ابھی تہہ زمیں چھپا ہوا ہے۔جو حصہ کھود کر باہر نکالا گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے لوگ فن تعمیر کی باریکیوں اور حفظان صحت کے اصولوں پرشہروں کی آباد کاری کے ضوابط سے آگاہ تھے۔کشادہ گلیاں،سیدھے راستے اورمکانات کی تعمیر میں روشنی اور ہوا کے دخول و خروج کا لحاظ رکھنا جیسے اہم اصولوں سے وہ لوگ واقف تھے۔فرنٹ پر دکانیں اور مارکیٹیں اور بیک پر رہائشی مکانات تعمیر کیے گئے تھے۔بنیادیں پتھر کی بنائی گئی تھیں اور دیواریں اور چھت لکڑی کے ہوتے تھے۔دیواروں کی تعمیراتی انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زلزلہ پروف تعمیرات تھیں۔شہر کی دوسری تباہی کے بعد جو شہر تعمیر کیا گیا تھا ،اُس کے کمرشل ایریا کی بنیادیں ہمارے سامنے تھیں۔مکانات اور دکانوں کے درمیان ان لوگوں نے اپنی عبادت گاہیں بھی تعمیر کی تھیں جن کے واضح آثار وہاں موجود ہیں۔ ایک جگہ پر پتھر کی ایک ایسی سل بھی ملی ہے جس کو دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کو سناراپنے زیورات بنانے کے لیے استعمال کرتے ہونگے۔ایک جگہ پر ایسے آثار ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اُن لوگوں کی گھڑی تھی جو سورج کے سایہ سے دِن کے پہروں کا اندازہ بتاتی ہوگی ،گو یا یہ شمسی گھڑی تھی۔کم و بیش آدھ پون گھنٹہ میں ہم نے اس شہر ماضی کو دیکھ لیااور اس نوجوان نے بڑی عمدگی سے ہمیں معلومات فراہم کیں۔جس روانی سے وہ انگریزی ملی اردو میں تاریخ بیان کر رہا تھا اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ پیشہ ور گائیڈ ہے اور عرصہ دراز سے وہ یہ کام کر رہا ہے۔بعد میں ہمارے اس اندازے کی تصدیق ہو گئی جب اس نے بتا یا کہ وہ نہ صرف خا ندانی طور پر پیشہ ور گائیڈ ہے بلکہ ہزارہ یونیورسٹی میں آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا سٹوڈنٹ بھی ہے۔

جولیاں:

            سر کپ سے واپس مین روڈ(ہری پور روڈ) پرآئے ا ورجولیاں کی طرف چل پڑے ۔راستے میں ٹیکسلا انجینئرنگ یونیورسٹی کا مین گیٹ آیا ،اُس کے قریباً سامنے سے ہی جولیاں کے لیے سڑک نکلتی ہے۔جولیاں میں اُس دور کی ایک بڑی یونیورسٹی تھی،غالباً،اسی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ،حکومت نے اس علاقے میں یو۔ای۔ٹی ٹیکسلا قائم کی ہے جو مادر وطن کی ایک مایہء ناز فنی یونیورسٹی ہے۔بہرحال ہم قدیمی آثار کی طرف بڑھتے چلے گئے۔یہ آثار ایک پہاڑی پر قائم ہیں۔گاڑی نیچے ،پارکنگ میں کھڑی کر کے ،پہاڑی پرچڑھنا شروع ہوئے۔خاصی طویل چڑھائی ہے۔حکومت نے لوگوں کی سہولت کے لیے سڑھیاں بنا ئی ہوئی ہیں۔راستے میں چھوٹی سی نہر ہے جس کے کنارے سیمنٹ سے پختہ کیے گئے ہیں۔خان پور ڈیم سے یہ نہر نکلتی ہے اور اسلام آباد سٹی کو پانی فراہم کرتی ہے۔اس کا پانی بہت شفاف اور ٹھنڈا تھا۔پہاڑی کے ساتھ ساتھ بل کھاتی ہوئی یہ نہر ، جولیاں کے راستے میں ایک بہت خوش کن نظارہ پیش کرتی ہے۔یہ آثار قدیمہ،اس دور کی ایک مذہبی یونیورسٹی کی یادگاریں ہیں جب اس علاقے میں بدھ مذہب کو سیاسی عروج حا صل تھا۔یہ آثار بھی سر جان مارشل کی کاوشوں سے ظاہر ہوئے۔بڑے عمدہ طریقے سے یہاں بھی کھدائی کی گئی اور نشانات کو محفوظ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔یہاں بہت زیادہ اسٹوپاز ہیں جن کا طرز تعمیر وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔یہاں لیکچرہال،،مراقبہ ہال اور عبادت خانے اور اسمبلی ہال کے آثار ہیں۔ایک طرف ہاسٹل بھی ہے جس میں باورچی خانہ،گودام،لڑکوں کی رہائش کے لیے ہوا دار کمرے،نہانے کے لیے تالاب،کھانے کے لیے ایک بڑا سا ہال اور اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی تھی۔غالباًیہ دو منزلہ عمارت تھی۔

موہڑہ مرادو:

            یہ بھی ایک تعلیمی ادارہ اور عبادت خانہ تھا۔جولیاں سے واپس آتے ہوئے ،یہ راستے میں ہے۔اس کے پاس آکر ،مذکورہ بالا نہر،ایک بار پھر نظر نواز ہوتی ہے اور اب کی دفعہ یہ پہاڑ کے اندر ایک سرنگ میں چلی جاتی ہے۔موہڑہ مرادو کے آثار کا طرزِ تعمیر وہی ہے جو ہم سرکپ اور جولیاں میں ملاحظہ کر چکے تھے۔یہاں بھی اسٹوپاز ،ہاسٹل ،باورچی خانہ،عبادت خانے ،مراقبہ ہال،کامن روم اور گودام وغیرہ موجود تھے۔

            سڑک پر چلتے ہوئے ،خان پور ڈیم کے بورڈز پڑھے تو اس تک جانے کا فیصلہ کیا وہاں تک گئے۔پہاڑوں کے درمیان گھری بڑی سی جھیل اور اس کا نیلگوں پانی نہایت خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔زیادہ دیر ہم وہاں نہیں رکے بس ایک طائرانہ نظر ڈال کر ہم نے واپسی کا سفراختیار کر لیا۔

حاصل مطالعہ:

            ہمارا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔راستے میں ہم نے کھانا کھایا ،نماز جمعہ ادا کی اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔میں سوچتا رہا کہ یہ کھنڈرات ہمیں کیا سبق دے رہے تھے۔مہاتما بدھ کے اتنے سارے بت اس بات کو تو یقینی بنا رہے تھے کہ یہ قوم شرک میں مبتلا ہو گئی تھی۔اہل مکہ کے ہاں بھی یہی شرک پایا جاتا تھا اور ان سے قبل بھی جو قومیں تباہ و برباد کی گئیں ،اُن کا بھی یہی جرم تھا۔ اور غالباً مہاتما کی ماننے والی یہ قوم یا قومیں بھی اسی جرم کی پاداش میں روبہ زوال ہوئیں۔

            یہ سوال بھی ذہن میں پیدا ہوا کہ مہاتما بدھ کی کیا حیثیت تھی؟ کیا وہ محض ایک مصلح اور واعظ تھے یا وہ اللہ کریم کی طرف سے مبعوث کردہ کوئی پیغمبرتھے ،ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ موضو ع کسی بڑے محقق کے قلم کا منتظر ہے ۔ البتہ ہم اتنا بتا سکتے ہیں کہ مہاتما بدھ نیپال میں پیدا ہوئے،وہیں پلے بڑھے اور وہیں انھوں نے شاہانہ زندگی تج کر ،جنگلوں اور بیابانوں کی راہ لی اور حقیقت کی تلاش کرتے رہے۔اور جب انھیں حقیقت تک رسائی ہوئی تو اس کی تبلیغ بھی وہیں کرتے رہے اور آخر کار ادھر ہی وہ فوت ہوئے۔ٹیکسلا کے یہ کھنڈرات ظاہر کرتے ہیں کہ بدھ مت کو اس علاقے میں سیاسی غلبہ حاصل تھا۔خاص طور پر اشوک اعظم کے دور میں۔یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ یہ مذہب کس تیزی سے پھیلا کہ نیپال سے یہاں آکر کس طرح غا لب ہو گیا۔ظاہر ہے یہ بڑا ہی جان جوکھم کا کام ہے اور مہا تما کے پیروکاروں نے یہ کام کر دکھایاتھا۔نہ جانے ،اس قوم میں شرک کیسے پیدا ہوا اور لگتا ہے یہ شرک ہی انھیں لے ڈوبا۔

            ‘‘اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں،یہ ہیں اُن کے محلات و عیش خانے،جو ان کے بعد کم ہی آباد کیے گئے ، اور،ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث۔تیرا رب کسی ایک بستی کوبھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا ،جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے،جو انھیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے ،اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں۔’’(القصص،۵۸،۵۹)