سوال ، جواب

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2011

ج-85 ‘‘جہیز’’ ان تحائف اور سامان کا نام ہے جو والدین اپنی بچی کو رْخصت کرتے ہوئے دیتے ہیں، یہ رحمت و محبت کی علامت ہے، بشرطیکہ نمود و نمائش سے پاک ہو اور والدین کے لئے کسی پریشانی و اذیت کا باعث نہ بنتا ہو، لیکن مسلمانوں کی شامتِ اعمال نے اس رحمت کو زحمت بنادیا ہے۔ اب لڑکے والے بڑی ڈھٹائی سے یہ دیکھتے ہی نہیں بلکہ پوچھتے بھی ہیں کہ جہیز کتنا ملے گا؟ ورنہ ہم رشتہ نہیں لیں گے۔ اسی معاشرتی بگاڑ کا نتیجہ ہے کہ غریب والدین کے لئے بچیوں کا عقد کرنا وبالِ جان بن گیا ہے۔ فرمائیے! کیا اس جہیز کی لعنت کو ‘‘کافرانہ رسم’’ اور ‘‘رَسمِ بد’’ سے بھی زیادہ سخت الفاظ کے ساتھ یاد نہ کیا جائے۔

آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت فرمایا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادیوں کو جہیز دیا تھا؟ جی ہاں! دیا تھا، لیکن کسی سیرت کی کتاب میں یہ پڑھ لیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو کیا جہیز دیا تھا؟ دو چکیاں، پانی کے لئے دو مشکیزے، چمڑے کا گدا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اور ایک چادر۔ کیا آپ کے یہاں بھی بیٹیوں کو یہی جہیز دیا جاتا ہے؟ کاش! ہم سیرتِ نبوی کے آئینے میں اپنی سیرت کا چہرہ سنوارنے کی کوشش کریں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جہیز کی جو چیزیں جس حالت میں ہیں وہ عورت کا حق ہے، لیکن استعمال سے جو نقصان ہو، وہ شوہر سے وصول نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ استعمال عورت کی اجازت سے ہوا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ہر وہ چیز جو لڑکی کو والدین اور شوہر والوں کی طرف سے ملی ہے وہ اس کی ملکیت ہے، شوہر کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- والدین کا جہیز کی واپسی کا مطالبہ غلط ہے۔ مرحومہ کی ملکیت میں جو چیزیں تھیں ان کو شرعی وارثوں پر تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ مرحومہ کا ترکہ ۲۷ حصوں پر تقسیم ہوگا، ان میں سے ۲۱ - ۲۱ حصے مرحومہ کے والدین کے ہیں، اَٹھارہ حصے شوہر کے، دس دس حصے دونوں لڑکوں، اور پانچ پانچ دونوں لڑکیوں کے، نقشہ حسب ذیل ہے:

۲۷ = والد۲۱، والدہ ۲۱، شوہر ۸۱، بیٹا۰۱، بیٹا۰۱، بیٹی۵، بیٹی۵

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جو سامان آپ نے شادی کے موقع پر بہو کو دیا تھا اگر اس کی ملکیت کردیا تھا تو وہ سامان اسی کا ہے، اور آپ کو اس کا رکھنا جائز نہیں، اور اگر اس کی ملکیت نہیں کیا تھا بلکہ اس کو صرف استعمال کی اجازت دی تھی تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سامان آپ کے مرحوم بیٹے کی ملکیت تھا، اس صورت میں اس کا آٹھواں حصہ اس کی بیوہ کا ہے، نصف اس کی بیٹی کا اور باقی آپ کا، اور اگر مرحوم کی والدہ بھی زندہ ہے تو چھٹا حصہ اس کا، گویا کل ۴۲ حصے کئے جائیں گے ان میں تین بیوہ کے، ۲۱ لڑکی کے، ۴ماں کے اور ۵ والد کے۔اور اگر سامان خود آپ کی اپنی ملکیت ہے، آپ کا بیٹا بھی اس کا مالک نہیں تھا تو بیوہ کا اس میں کوئی حصہ نہیں، آپ اس کا جو چاہیں کریں۔ آپ کی جائیداد آپ کے انتقال کے بعد دو تہائی آپ کی تینوں لڑکیوں کو ملے گی (آپ کی اہلیہ زندہ ہیں تو آٹھواں حصہ ان کو ملے گا) اور باقی آپ کے جدی وارثوں کو دی جائے گی۔ آپ کی پوتی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر آپ پوتی کو بھی کچھ دینا چاہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ آپ اپنی زندگی میں مناسب حصہ اس کے نام کردیں۔ دْوسری صورت یہ کہ آپ وصیت کرجائیں کہ آپ کی پوتی کو اتنا حصہ دیا جائے (تہائی مال کے اندر اندر وصیت کرسکتے ہیں)، اور اس پر گواہ بھی مقرّر کرلیں۔ اگر آپ نے ایسی وصیت کردی تو جائیداد کی تقسیم سے پہلے آپ کی پوتی کو وہ حصہ دیا جائے گا، وارثوں کو بعد میں دیا جائے گا۔بچی کے لئے حکم تو یہ ہے کہ بالغ ہونے تک اپنی والدہ کے پاس رہے، لیکن اگر والدہ کا مطالبہ نہ ہو یا اس نے کسی ‘‘غیرجگہ’’ نکاح کرلیا ہو تو آپ رکھ سکتے ہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمے میں نمود و نمائش کرنا، قرض لے کر زیر بار ہونا اور اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا منع ہے، نیز اس موقع پر فقراء و مساکین کو بھی کھلایا جائے، حدیث میں ارشاد ہے کہ:

‘‘عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: شر الطعام طعام الولیمۃ یدعٰی لھاا اللاغنیاء ویترک الفقراء۔’’ (مشکوٰۃ ص:۸۷۲) بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس میں اغنیاء کی دعوت کی جائے اور فقرا کو چھوڑ دیاجائے (صحیح بخاری و مسلم)

آج کل جس انداز سے ولیمے کئے جاتے ہیں ان میں فخر و مباہات اور نام و نمود کا پہلو غالب ہے، سنت کی حیثیت بہت ہی مغلوب نظر آتی ہے، حدیث میں ہے کہ:

‘‘عن عکرمۃ عن ابن عباس رضی اللہ عنھما: عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن طعام المتبارئین یوکل۔ رواہ ابو داود۔’’ (مشکوٰۃ ص:۹۷۲)

 ‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر و مباہات والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے۔’’

 اس لئے ایسے ولیمے کی دعوت کا قبول کرنا بھی مکروہ ہے جس میں نمود و نمایش اور فخر و مباہات ہو ۔علاوہ ازیں آج کل ولیمے کی دعوتوں میں مردوں اور عورتوں کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے، یہ بھی جائز نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمہ صحیح ہے، میاں بیوی کی یکجائی کے بعد ولیمہ کیا جاسکتا ہے، ہم بستری شرط نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- ولیمہ سنتِ نبوی ہے، اور بقدر سنت ادائیگی اب بھی ہوسکتی ہے۔ البتہ ولیمے کے نام سے جو نام و نمود اور فضول خرچی ہوتی ہے وہ حرام ہے، حکومت نے اس کو بند کیا ہے تو کچھ بْرا نہیں کیا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- شادی کی یہ ہندوانہ رسمیں جائز نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہیں۔ اور ‘‘خوشی میں سب کچھ جائز ہے’’ کا نظریہ تو بہت ہی جاہلانہ ہے، قطعی حرام کو حلال اور جائز کہنے سے کفر کا اندیشہ ہے۔ گویا شیطان صرف ہماری گنہگاری پر راضی نہیں بلکہ اس کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان، گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھیں، دِین کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام نہ جانیں، تاکہ صرف گنہگار نہیں بلکہ کافر ہوکر مریں۔ مرد کو سونا پہننا اور مہندی لگانا نہ خوشی میں جائز ہے نہ غمی میں۔ ہم لوگ شادی بیاہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے اَحکام کو بڑی جرات سے توڑتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایسی شادی آخرکار خانہ بربادی بن جاتی ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- آج کل اس اسلامی معاشرے میں چند نہایت ہی غلط اور ہندوانہ رسمیں موجود ہیں، افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کسی رسم کو اَجر و ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ مثلاً: لڑکی کی رْخصتی کے وقت اس کے سر پر قرآن کا سایہ کیا جاتا ہے، حالانکہ اس قرآن کے نیچے ہی لڑکی (دْلہن) ایسی حالت میں ہوتی ہے جو قرآنی آیات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور پامالی کرتی ہے۔ یعنی بناو سنگھار کرکے غیرمحرَموں کی نظر کی زینت بن کر کیمرے کی تصویر بن رہی ہوتی ہے۔ اگر لڑکی کہتی ہے کہ یوں دْرست نہیں بلکہ باپردہ ہونا لازم ہے جو کہ اسی قرآن میں تحریر ہے جس کا سایہ کیا جاتا ہے، تو اسے قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ اور اگر کہا جاتا ہے کہ پھر قرآن کا سایہ نہ کرو، تو اسے گمراہ کہا جاتا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں تحریر فرمائیں کہ دْلہنوں کا یوں قرآن کے سایہ میں رْخصت ہونا، غیرمحرَموں کے سامنے کیسا ہے؟ قرآن کیا اسی لئے صرف نازل ہوا تھا کہ اس کا سایہ کریں، چاہے اپنے اعمال سے ان آیات کو اپنے قدموں تلے روندیں؟

ج- دْلہن پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا محض ایک رسم ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دْلہن کو سجاکر نامحرَموں کو دِکھانا حرام ہے، اور نامحرَموں کی محفل میں اس پر قرآنِ کریم کا سایہ کرنا قرآنِ کریم کے اَحکام کو پامال کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

س- میری شادی کو تقریباً تین سال ہونے کو ہیں، شادی کی پہلی رات مجھ سے دو ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جس کی چبھن میں آج تک دِل میں محسوس کرتا ہو۔ پہلی غلطی یہ ہوئی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ دو رکعت نماز شکرانہ جو کہ بیوی کا آنچل بچھاکر ادا کی جاتی ہے، نہ پڑھ سکا۔ یہ ہماری لاعلمی تھی اور نہ ہی میرے دوستوں اور عزیزوں نے بتایا تھا۔ بہرحال تقریباً شادی کے دو سال بعد مجھے اس بات کا علم ہوا تو ہم دونوں میاں بیوی نے اس نماز کی ادائیگی بالکل اسی طرح سے کی۔ نماز کے بعد اپنے رَبّ العزّت سے خوب گڑگڑاکر معافی مانگی مگر دِل کی خلش دْور نہ ہوسکی۔ دوسری غلطی بھی لاعلمی کے باعث ہوئی، ہماری ایک دْور کی ممانی ہیں، جنھوں نے ہمیں اس کا مشورہ دیا تھا کہ تم دونوں ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ ضرور پینا، ہم (میاں بیوی) نے ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ بھی پیا مگر جب میں نے اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو پتا چلا کہ جو لوگ ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ پیتے ہیں بھائی بھائی یا بھائی بہن کہلاتے ہیں۔ جب سے یہ بات معلوم ہوئی ہے دِل میں عجیب عجیب خیالات آتے ہیں، للہ قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ ہمارے ان افعال کا کفارہ کس طرح ادا ہوسکے گا؟ جناب کی مہربانی ہوگی۔

ج- آپ سے دو غلطیاں نہیں ہوئیں بلکہ آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں، پہلی رات بیوی کا آنچل بچھاکر نماز پڑھنا نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت، نہ مستحب، یہ محض لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی بات ہے، لہٰذا آپ کی پریشانی بے وجہ ہے۔ آپ کے دوست کا یہ کہنا بھی غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کہ میاں بیوی ایک دْوسرے کا جھوٹا کھاپی لینے سے بھائی بہن بن جاتے ہیں، یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں، لہٰذا آپ پر کوئی کفارہ نہیں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

ج- جھوٹی بات پر محض قرآن اْٹھانے اور ایک دْوسرے کا جھوٹا دْودھ پینے سے بہن بھائی نہیں بنا کرتے، اس لئے ان کی شادی صحیح ہے۔ جھوٹی بات پر قرآن اْٹھانا گناہِ کبیرہ ہے، اور یہ ایسی قسم ہے جو آدمی کے دِین و دْنیا کو تباہ کردیتی ہے، مسلمانوں کو ایسی جرات نہیں کرنی چاہئے۔بہن بھائی کا مفہوم واضح ہے، یعنی جن کا باپ ایک ہو، یا ماں ایک ہو، یا والدین ایک ہوں۔ یہ ‘‘نسبی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں۔ اور جس لڑکے اور لڑکی نے اپنی شیرخوارگی کے زمانے میں ایک عورت کا دْودھ پیا ہو وہ ‘‘رضاعی بہن بھائی’’ کہلاتے ہیں، یہ دونوں قسم کے بہن بھائی ایک دْوسرے کے لئے حرام ہیں۔ ان کے علاوہ جو لوگ منہ بولے ‘‘بھائی بہن’’ بن جاتے ہیں یہ شرعاً جھوٹ ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)