قربانی

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : نومبر 2011

وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا، لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الأَْنْعَامِ، فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ، فَلَہٗ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.(الحج۲۲: ۳۴)

‘‘ اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کی عبادت مقرر کی ہے تاکہ وہ اُن چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں، اس لیے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اپنے آپ کو اسی کے حوالے کر دو۔ (لیکن یہ وہی کریں گے جن کے دل اپنے پروردگار کے آگے جھکے ہوئے ہیں) اور ( اے پیغمبر) اِن جھکنے والوں کو (اُن کے پروردگار کی طرف سے)خوش خبری دو۔’’

دنیا کے تمام قدیم مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔ اس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جو اس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرنا ہے، لیکن غور کیجیے تو یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْواتٌ، بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّتَشْعُرُوْنَ، (اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انھیں مردہ نہ کہو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ زندہ ہیں، لیکن تم اس زندگی کی حقیقت نہیں سمجھتے)۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے کہ نماز جس طرح اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اسی طرح قربانی اس کی راہ میں ہماری موت ہے:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِْی لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.( الانعام ۶: ۱۶۲)

‘‘کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العٰلمین کے لیے ہے۔’’

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ ایک مینڈھے کی قربانی دیں اور آیندہ نسلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک عظیم قربانی کو اس کی یادگار بنا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘ وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ’ ( اور ہم نے اسمٰعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیا)۔ اس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب نسلاً بعد نسلٍ لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔

اس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہائے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ‘بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ’ کہہ کر ، ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اس کی نذر کر رہے ہیں۔

 یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سر اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اسی حقیقت کی تصویر ہے۔ سیدنا ابراہیم اور ان کے جلیل القدر فرزند نے جب اپنے آپ کو اس کے لیے پیش کیا تو قرآن نے اسے اسلام ہی سے تعبیر کیا ہے: ‘ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ’، ( پھر جب ان دونوں نے اپنے آپ کو حوالے کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا)۔ سورۂ حج کی جو آیت اوپر نقل ہوئی ہے، اس میں بھی دیکھ لیجیے ‘ فلہ اسلموا وبشر المخبتین’ کے الفاظ میں قرآن نے کس خوبی کے ساتھ اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی تمھارے دل اگر اپنے معبود کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تو اپنے آپ کو اسی کے حوالے کر دو، اس لیے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ قربانی کی روح یہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ عبادت خاص اپنی شکر گزاری کے لیے مشروع فرمائی ہے، لہٰذا اس میں کسی دوسرے کو اس کا شریک نہ بناؤ۔

قربانی کی تاریخ

قربانی کی تاریخ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی: ‘إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ’، بائیبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔ پیدایش میں ہے: ‘‘ اور آدم اپنی بیوی حوا کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی اور اس کے قائین پیدا ہوا۔ تب اُس نے کہا: مجھے خداوند سے ایک مرد ملا۔ پھر قائین کا بھائی ہابل پیدا ہوا۔ اور ہابل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور قائین کسان تھا۔ چند روز کے بعد یوں ہوا کہ قائین اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ ان کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل اور اس کے ہدیے کو منظور کر لیا۔ پر قائین کو اور اُس کے ہدیے کو منظور نہ کیا۔’’ (۴: ۱۔۵)

یہ طریقہ بعد میں بھی، ظاہر ہے کہ قائم رہا ہو گا۔ چنانچہ اس کے آثار ہم کو تمام قدیم مذاہب میں ملتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اس عبادت کو حاصل ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے، یقینا حاصل نہیں تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو کرہجرت کی تو اس کے ساتھ ہی دعا فرمائی کہ پروردگار، تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک فرزند کی ولادت کی خوش خبری دی۔ یہ فرزند اسمٰعیل تھے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہو رہی ہے کہ اس بیٹے کو اپنے پروردگار کی خاطر قربان کر دیں۔ یہ ہدایت اگرچہ خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی باتیں تاویل و تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں،لیکن خدا کے اس صداقت شعار بندے نے کوئی تعبیر نکالنے کے بجائے من وعن اس کی تعمیل کا فیصلہ کر لیا اور اس راہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے اپنا خواب اسے بتایا۔ سیدنا اسمٰعیل نے اس خواب کو خدا کا حکم سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ ابا جان، آپ بے دریغ اس کی تعمیل کریں۔ ان شاء اللہ، آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔ بچے کے جواب سے مطمئن ہو کر ابراہیم اس کو مروہ کی پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی: ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یہ ایک بڑی آزمایش تھی، تم اس میں کامیا ب ہوئے، لہٰذا اب مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی چنانچہ ابراہیم کے اس فرزند جلیل کو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھے کی قربانی کے عوض چھڑا لیا اور اس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال اسی تاریخ کو قربانی کی ایک عظیم روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج وعمرہ کے موقع پر اور عید الاضحی کے دن ہم پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:

قَالُوا: ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا، فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ، فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ. وَقَالَ: اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَْہدِیْنَ. رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ، فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ. فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ، قَالَ: یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ، فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ؟ قَالَ: یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ، اِنْ شَآءَ اللّٰہُ، مِنَ الصّٰبِرِیْنَ. فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ، وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰاِبْرٰہِیْمُ، قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیاَ، اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ، اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤْا الْمُبِیْنُ، وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ. (الصافات ۳۷ : ۹۷۔ ۱۰۷)

 ‘‘ انھوں نے کہا: اس کے لیے ایک چنائی چنو اور اسے آگ میں جھونک دو۔ اس طرح انھوں نے اس کے خلاف ایک چال کرنی چاہی تو ہم نے انھی کو نیچا دکھا دیا۔ اور (ابراہیم نے یہ دیکھا تو)کہا: میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں، وہ میری رہنمائی فرمائے گا۔ پروردگار ، مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ (اُس نے یہ دعا کی) تو ہم نے اسے ایک بردبار فرزند کی بشارت دی۔ پھر جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک دن) اُس نے کہا: بیٹا ، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب بتاؤ، تمھاری کیا رائے ہے؟ اُس نے جواب دیا: ابا جان، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے ، اس کی تعمیل کیجیے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ آخر کو جب دونوں نے اپنے آپ کو حوالے کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم، تو نے خواب کوسچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی۔ (ابراہیم اس میں کامیاب ہوا) اور (اِس کے نتیجے میں) اسمٰعیل کو ہم نے ایک بڑی قربانی کے عوض چھڑا لیا۔’’

قربانی کا مقصد

قربانی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔ اس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اسی مقصد سے ادا کیے جاتے ہیں۔ قرآن نے یہ مقصد اس طرح واضح فرمایا ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَُّقْوٰی مِنْکُمْ، کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ، وَبَشِّرِالْمُحْسِنِیْنَ. (الحج ۲۲: ۳۷)

‘‘اللہ کو نہ (تمھاری) اِن (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے ، نہ خون، بلکہ صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اُس نے اِسی طرح اِن کو تمھاری خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے، اُس پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ ( یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں) اور (اے پیغمبر) اِن خوب کاروں کو بشارت دو۔’’

قربانی کا قانون

قربانی کا جو قانون مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے، وہ یہ ہے:قربانی‘ انعام’ کی قسم کے تمام چوپایوں کی ہو سکتی ہے،اس کا جانور بے عیب اور اچھی عمر کا ہونا چاہیے،قربانی کا وقت یوم النحر۱۰ ؍ذو الحجہ کو عید الاضحی کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے،اس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ سورۂ حج کی آیات میں ‘أَیَّامٍ مَعْلُومَاتٍ’ سے یہی مراد ہیں۔ اصطلاح میں انھیں ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ قربانی کے علاوہ ان ایام میں یہ بھی مشروع ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔ نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے، اس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کیے گئے۔

قربانی کا گوشت لوگ خود بھی بغیر کسی تردد کے کھا سکتے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔ ‘ فَکُلُوْا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ’کے الفاظ میں قرآن نے اس کی صراحت کر دی ہے۔

قربانی کا قانون یہی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البتہ، اس کے بارے میں چند باتوں کی وضاحت فرمائی ہے:

اول یہ کہ قربانی ہر حال میں عید کی نماز کے بعد کی جائے گی۔ یہ اگر پہلے کر لی گئی ہے تو محض ذبیحہ ہے، اسے عید الاضحی کی قربانی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔دوم یہ کہ قربانی کے لیے اچھی عمر یہ ہے کہ بھیڑ یا بکری کا بچہ کم سے کم ایک سال، گائے بیل دوسال اور اونٹ یا اونٹنی کم سے کم پانچ سال کی ہونی چاہیے۔ یہ میسر نہ ہوں تو مینڈھا ذبح کر لیا جائے۔ یہ اگر چھ ماہ کا بھی ہو تو کفایت کرے گا۔ سوم یہ کہ گائے بیل اور اونٹ یا اونٹنی کی قربانی میں ایک سے زیادہ لوگ شریک ہو سکتے ہیں۔ یہ شرکا اگر سات بھی ہوں تو مضایقہ نہیں ہے، بلکہ روایتوں میں آیا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک موقع پر دس افراد شریک ہوئے توآپ نے منع نہیں فرمایا ۔ چہارم یہ کہ قربانی ایک نفل عبادت کے طور پر عید الاضحی کے علاوہ بھی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ لوگوں نے جب عقیقے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : تم میں سے جو بچے کی پیدایش پر قربانی کرنا چاہے، کرلے۔

(بحولہ ماہنامہ اشراق، لاہور، جنوری 2005ء)

٭٭٭