فراڈیوں سے بچئے

مصنف : ایک خط

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : نومبر 2011

            میں نے ایک کریم خریدی تھی۔ جو لوگ گھر گھر جاکر دیتے ہیں اور بھول گیا۔پانچ ماہ بعد مجھے فون آیا کہ تمہاری گاڑی نکلی ہے، میں بہت خوش ہوا کہ میں نے حق حلال کے پیسوں سے خریدی تھی خدا نے مجھے یہ انعام دیا مگر وہ خوشی میرے لیے ایک دن کی تھی۔ انہوں نے کہا ہم کراچی سے گاڑی لوڈ کررہے ہیں 25 ہزار کرایہ بھیج دو ہم نے جیسے تیسے کرکے 25ہزار بھیج دئیے۔ انہوں نے کہا جمعہ کے روز تمہیں گاڑی مل جائے گی۔ پھر انہوں نے تین روز کے بعد کہا کہ کسٹم والوں نے گاڑی پکڑلی ہے وہ کہتے ہیں کہ انعام کی گاڑی پر کسٹم ہوتا ہے ہمارے پاس کچھ پیسے تھے کچھ کہیں سے لیے 85 ہزار ان کو دیے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب فراڈ تھا۔ہمارے پاس اکاؤنٹ نمبر بھی موجود ہیں، میں نے بڑی بھاگ دوڑ کی لیکن میرے پاس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کسی نے بھی میری کوئی مدد نہ کی۔ پھر کسی نے مجھے ایک عامل کا نمبر دیا جو پنڈی میں ہیں میں نے ان سے رابطہ کیا وہ مجھے پڑھنے کیلئے بتاتے رہے۔ وہ کہنے لگے واقعی آپ کی گاڑی نکلی ہے اور چھ لوگ اس میں شامل ہیں۔ وہ مجھے کچھ پڑھنے کیلئے بتاتے رہے کچھ دن کے بعد انہوں نے بھی بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ اور کہا کہ اب میں نے موکل کو کچھ کھانے کیلئے دینا ہوتا ہے جب ہم حاضر کرتے ہیں اس طرح اس نے مجھ سے 35 ہزار لیے وہ مجھے معلوم ہے، وہ میں نے پیسے کیسے ادا کیے۔میں نے اسے اپنے حالات بتائے کہ میں ایک کمرے میں رہتا ہوں میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اگر ہوتے تو میں کمرہ نہ بنالیتا۔ پھر اس نے کہا تین تولے سونا بھی دو اور تصویر بھی جن سامنے رکھ کر پڑھائی کریں گے۔ میں نے کہا میرے پاس سونا نہیں ہے، میں کہاں سے لاؤں؟ آپ میرا کام نہ کریں، لیکن اس نے مجھے ڈرانا شروع کردیا، تمہارے بیوی، بچے اور تم مصیبت میں آجاؤ گے اگر سونا نہ دیا تو تمہارے دروازے پر موکل کا پہرہ ہے۔ چاہے کسی سے لے کر دو یہ امانت ہے جسے پڑھائی ختم ہوتے ہی واپس کردیا جائے گا۔ ہم کروڑوں کا کام کرتے ہیں ہم تین تولے پر اپنا ایمان خراب کریں گے؟اتنا ڈرایا اتنا ڈرایا کہ میں نے اپنی بیوی کی شادی کی چوریاں جو بچی کیلئے رکھی ہوئی تھیں اسے دے دیں۔ اس کے بعد اس نے اپنا فون نمبر بند کردیا۔ میں نے اپنی بیوی کو اور بچوں کو بھی نہیں بتایا کہ کیا ہوا ہے؟ میرے بیوی پہلے ہی ڈیپریشن کی مریضہ ہے اب تو میں مقروض بھی ہوچکا ہوں ، ہاتھ میرا بہت تنگ ہے بس اندر ہی اندر گھلتا رہتاہوں۔