میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

مصنف : عبد الحلیم/ نرمل کمار (بیگو سرائے، بہار)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : نومبر 2011

میں ضلع بیگو سرائے، بہار کے ایک راج پوت خاندان میں ۲۳ سال پہلے پیدا ہوا۔ میرا نام میرے گھر والوں نے نرمل کمار رکھا تھا۔ میرے پتا جی کا نام گنگا پرساد تھا۔وہ فارمیسسٹ تھے۔ میرے چھ بہنیں اور تین بھائی مجھ سے الگ ہیں۔ میری والدہ بھی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ایل ایچ وی ہیں۔ ابتدائی تعلیم شاہ پورہ میں ہوئی، اور سمستی پور میں آچاریہ نریندر دیو مہاو دیالیہ سے بی اے کیا۔ میرے والد صاحب فطرتاً مسلمان تھے۔ مورتی پوجا کو حد درجہ احمقانہ بات سمجھ کر بڑی نفرت کرتے تھے۔ مجھے بچپن سے اسلام سے بہت لگاؤ تھا۔ لوگ جب مندر میں پوجا کے لیے جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کہ ان پتھروں میں کیا رکھا ہے! سائنس کے اس یگ (دور ) میں آپ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مورتوں کی پوجا کرتے ہو۔ پانچ سال پہلے کام کے لیے پانی پت آیا۔ میرے ایک دوست نے مجھے بلایا تھا۔ پانی پت انٹرنیشنل پانی پت میں انھوں نے مجھے ڈرائنگ آپریٹر کے طور پر ملازم رکھوا دیا او رمجھے ملازمت کے دوران کام سکھایا، بعد میں وہ فیکٹری چھوڑ گئے تو میں نے بھی پانی پت چھوڑ دیا۔ تب ہما چل گیا اور کالا آمب میں سرسوتی اسپننگ مل میں ڈرائنگ آپریٹر کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔

سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ دنیا کو سچائی عطا کرنے والے نبی کی بات میں کس کو شک ہو سکتا ہے، مگر مجھے اس سچائی کا کچھ زیادہ ہی احساس رہا۔ مجھے بچپن سے ہی اسلام پسند تھا، جبکہ میں نے ابھی بتایا کہ مورتی پوجا کرنے والوں پر مجھے ہنسی آتی تھی اور کبھی ترس بھی آتا تھا۔ کبھی کبھی میں ان لوگوں کو روکتا بھی تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ میں دیکھتا کہ کتا مندر میں پرساد کھا رہا ہے۔ شیو جی یا دوسرے دیوتاؤں کی مورتی کو چاٹ رہا ہے، اور ٹانگ اٹھا کر پیشاب بھی مورتی کے منہ پر کر رہا ہے۔ تو زور زور سے لوگوں کو بلاتا: دیکھو، لوگو! تمھارے بھگوان پر کتا موت رہا ہے۔ اپنے بھگوان کو بچاؤ۔ میں جب قرآن میں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ پڑھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میرا حال بھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح تھا۔ وہ تو اللہ کے نبی تھے، میں تو ان کے پاؤں کی دھول بھی نہیں، مگر بائی نیچر (فطرتاً) میں بالکل ابراہیمی تھا۔ اذان کی آواز آتی تھی تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے مالک کی طرف سے مجھے آواز لگوائی جا رہی ہے۔ ہمارے قریب ایک مسجد میں ایک قاری صاحب بالکل عربی انداز میں اذان دیتے تھے۔ میں بہت توجہ سے اذان سنتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ میں کھانا کھا رہا ہوتا تھا تو کھانے سے رک جاتا اور اذان سنتا، پھر کھانا شروع کرتا۔پانی ہاتھ میں ہوتا، اذان کی آواز آجاتی تو میں پانی ہاتھ میں لیے ہوئے اذان سنتا رہتا اور ختم ہو جانے کے بعد پانی پیتا۔ کبھی کبھی اذان ختم ہوتی تو دل ہی دل میں اور کبھی زبان سے بھی کہا کرتا کہ کبھی تو میں بھی میرے مالک! آپ کی آواز سن کر آؤں گااور آپ کے گھر میں صرف آپ کے سامنے ماتھا ٹیکوں گا۔ میری خوش قسمتی اور ایک طرح سے بدقسمتی بھی کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اللہ نے ایسا باپ دیا تھا، جو فطرتاً مسلمان تھا۔ اس نے مجھے بالکل بت پرست نہیں بننے دیا، مگر افسوس کہ وہ کلمہ کے بغیر خود اس دنیا سے چلا گیا۔ میرا اندرون مجھے اسلام کی پیاس سے بے چین رکھتا تھا۔ میرے اللہ نے میری رہنمائی فرمائی۔ کالا آمب فیکٹری میں ایک نوجوان ملا، جو توحید نام سے کام کرتا تھا۔ بہت خوب صورت، پوری داڑھی، گول ٹوپی اور شرعی لباس! یہ میری اسلامی فطرت کے زندہ ہونے کی بات ہی تھی کہ پوری فیکٹری میں وہ نوجوان مسلمان ہی مجھے سب سے خوب صورت لگتا تھا۔ میرے دل میں آیا کہ میرے مالک نے مجھے ہندوؤں میں پیدا کیا ہے۔ میرا اندرون تو جیسا بھی ہو، میں اپنے لباس اور صورت کو خوب صورت انداز میں رکھ سکتا ہوں۔ میں نے موقع پا کر ایک روز اس نوجوان توحید سے کہا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمھارے جیسا لباس پہنوں اور داڑھی رکھوں۔ آپ مجھے دو جوڑی کپڑے اور ٹوپی بنوا دیں۔ انھوں نے مجھ سے کہا: صرف لباس سے ہی کیا ہوتا ہے؟ پورے مسلمان بن جاؤ، میں نے ان سے کہا: مجھے مالک نے ہندو گھرانے میں پیدا کیا ہے۔ میں اندر سے مسلمان کیسے بن سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: جس طرح میں مسلمان بنا ہوں۔ میں نے کہا: کیا تم مسلمان گھر میں نہیں پیدا ہوئے ہو؟ انھوں نے بتایا: نہیں، بلکہ میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوا ہوں۔ جوانی میں شیو سینا کا بہت سرگرم رکن تھا۔ مگر اللہ نے مجھے ہدایت دی اور میں نے کلمہ پڑھا۔ میں نے پوچھا: تم نے کلمہ کہاں سے پڑھا؟ انھوں نے بتایا: دلی میں ہمارے ابی جی ہیں، مولوی کلیم صدیقی صاحب۔ ان کے پاس جا کر آپ مسلمان ہو سکتے ہیں۔ ہم نے مشورے سے پروگرام طے کیا اور سنیچر کے روز دہلی کا سفر کیا۔ مولوی صاحب نے مجھے مسجد خلیل ، جامعہ نگر، نئی دہلی ، ۲۵ میں کلمہ پڑھایا اور میرے پرانے نام کی مناسبت سے میرا نام عبد الحلیم رکھا۔ ا س کے بعد میں نے ملازمت سے استعفا دے دیا او رجماعت میں چلا گیا۔ راجستھان میں میرا وقت لگا۔ الحمد للہ، امیر صاحب بڑے شفیق آدمی تھے۔ انھوں نے میرے ساتھ بہت محبت کا برتاؤ کیا او رمجھے چالیس روز میں مکمل نماز سکھائی۔ اسلام کے بارے میں میں ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کرنے لگا۔

مجھے کفر و شرک کے ماحول میں بہت گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ ایمان قبول کرنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرے دل کو کسی نے قید سے نکال دیا ہو۔ مجھے بالکل ایسا لگا، جیسے آدمی بے گانہ ماحول سے اپنے ماحول میں آ جاتا ہے۔ مجھے بہت سکون محسوس ہوا۔ مولوی صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ اسلام کا حقیقی مزہ حاصل کرنے کے لیے اسلام کو گہرائی سے جاننا چاہیے۔ اس کے لیے مجھے پھلت میں جونیر ہائی اسکول میں پڑھانے کے لیے لگا دیا۔ الحمد للہ، میں بہت دلچسپی سے اسلام کو پڑھنے میں وقت لگا رہا ہوں۔

 ابھی تک میں گھر نہیں گیا ہوں۔ ہاں! میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو فون سے بتا دیا اور ماں کو بھی۔ چھوٹے بھائی جو الیکٹریکل انجینئر ہیں، ان کو میں نے اسلام کی دعوت دی۔ چار پانچ دفعہ کی بات کے بعد انھوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ میں نے والدہ سے بھی کہا۔ انھوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا: سچے راستے پر چلو، ہمیں خوشی ہے۔ ہمارا تمھارا رشتہ تو کچا ہی ہے۔ کب موت آ جائے، اور ٹوٹ جائے۔ اصل اور پکا رشتہ تومالک سے ہے، جو سات جنم ٹوٹنے والا نہیں۔ تم نے اچھا کیا کہ اپنا رشتہ مالک سے پکا کر لیا۔

میرے والد جو بائی نیچر مسلمان تھے، وہ مورتی کی پوجا کے سخت مخالف تھے۔ ہندوؤں کو چھوڑ کر وہ مسلمانوں سے دوستی رکھتے تھے۔ ہندو راج پوت تھے۔ حلال گوشت کھاتے تھے اور گوشت کے شوقین تھے۔ ہندو تہواروں خصوصاً ہولی اور دسہرہ کا مذاق اڑاتے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ عید مناتے تھے، مگر کسی مسلمان نے ان سے کلمہ پڑھنے کے لیے نہیں کہا۔ کسی کا دل دکھانا، ان کے یہاں بڑا جرم تھا۔ کسی مصیبت زدہ پریشان حال کی مدد کو وہ سب سے بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ اچانک ایک دو گھنٹوں کی بیماری کے بعد ان کا انتقال ہو گیا اور وہ دنیا سے رخصت ہو گئے او رایمان و کلمہ کے بغیر کوئی نیکی اللہ کے یہاں قبول نہیں ہوتی۔ میرے اپنے پیارے باپ دوزخ میں جل رہے ہوں گے۔ ذرا تصور کیجیے، اس بیٹے کے غم کا ، جس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے والد کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ ہے۔ کبھی مجھے سب مسلمانوں سے بدلہ لینے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی کبھی ساری رات میں اللہ سے شکوہ کرتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی میری چیخیں نکل جاتی ہیں: میرے اللہ! میرے باپ اور یہ ظالم مسلمان! کسی نے پھوٹے منہ سے ان کو کلمہ پڑھنے کو نہیں کہا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی جھوٹے سے بھی ان سے مسلمان ہونے کو کہتا تو وہ سچ میں کلمہ پڑھ لیتے۔ کاش میرے باپ مولوی کلیم صاحب سے مل لیتے۔ کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔ میرے باپ کے دوزخ میں جلنے کا غم ایسا غم ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور اس غم میں میرا کوئی شریک بھی نہیں۔

کلمہ کے بغیر والد کی موت سے بے حال ہو کر میں مسلمانوں پر اپنا غصہ اتارتا ہوں۔ مگر اپنے مسلمان ہونے کا اللہ کا احسان پھر اپنے آپ ہی مجھے شرمندہ کر دیتا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ غم میرا ایسا غم ہے جس کو شاید میرے علاوہ یا میری طرح کے انسان کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

میرا کہنا تو صرف یہ ہی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی اور نبوت ختم کر کے اللہ نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے۔ یہ زمانہ جوعلم او رعقل کا دور ہے اور نہ جانے مجھ جیسے اور میرے والد جیسے کتنے لوگ ایسے ہیں، جو غیر ایمان والے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود اپنی اسلامی فطرت پر ہوتے ہیں۔ ان کی فکر کریں، اور میرے لیے بھی دعا کریں: اللہ تعالیٰ مجھے مثالی مسلمان اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا امتی بنائے، تاکہ جنت میں ہم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کرنے کے لائق ہو جائیں۔

نہ جانے موت کا پیغام کب آ جائے
زندگی کی آخری شام کب آ جائے

ہم تو کرتے ہیں اس وقت کا انتظار دوست ہماری زندگی اسلام کے کچھ کام آ جائے

٭٭٭