مولانا عبدالغفورؒ

مصنف : محمد عارف علوی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : نومبر 2011

رواداری ، وسعت قلبی اور اتحاد کے عملی پیکر

            موت تو بلاشبہ کسی کی بھی ہو انسان کو مغموم کر جاتی ہے۔ لیکن کچھ اموات ایسی ہوتی ہیں جن کو بھلانا آسان نہیں ہوتا ۔ مولٰنا عبدالغفور ؒ کی موت میری زندگی کے ان حوادث میں سے ہے جن کے وقوع پذیرہونے کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی محبت و عقیدت کے نقوش شعور میں بہت ہی گہرے پیوست ہو چکے تھے۔

            خطیبِ مسجد کی حیثیت سے مولٰنا عبدالغفورؒ سے میرا تعارف تو گزشتہ سترہ برس سے تھا۔ جبکہ گزشتہ تیرہ برس سے میں ان کی شخصیت کے اس پہلو سے براہ راست شفقتیں سمیٹ رہا تھا جس کا پرتو میرے مشاہدے کی حد تک دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک عالمِ دین جو اپنا ایک فکری اور علمی نقطہ نظر رکھتاہو اس کے باو جود اس نے مسجد میں ایک دو نہیں چار پانچ مختلف بلکہ متضاد فکری پس منظر کی تنظیموں کو برسوں سے دعوت و تبلیغ کی اجازت اس طرح دے رکھی ہو کہ نہ کبھی احسان مندی کا شائبہ ظاہر ہونے دیا ہو اور نہ ہی کبھی نگرانی کرنے کی کوشش کی ہو ۔

            بلاشبہ مولٰنا عبدالغفور ؒ کو رحمت ربّانی نے فیاضی سے وسعت قلبی اور رواداری کی وہ دولت عطا فرما رکھی تھی جو امّت کے جلیل القدر اسلافؒ کی زریں روایت تو ہے لیکن دورِ حاضر میں اس کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔

            مولٰناؒ کی اس انفرادیت کا عملی مظھر ماڈل ٹاؤن ھمک اسلام آباد کی مسجد قباء میں ہفتہ کے ساتوں دن بہار دکھا رہا ہے۔ مولٰنا ؒ نے اس مسجد کی بنیاد ملازمت سے ریٹائر ہونے پر چند احباب کے تعاون سے 1989ء میں ایک چھوٹے سے کمرے کی صورت میں رکھی تھی۔ اور روزِ اول سے یہ طے کیا گیا تھا کہ یہ مسجد کسی مخصوص گروہ سے منسوب ہونے کے بجائے مسلمانوں کی مسجد رہے گی۔ جہاں ہر مسلمان اپنے طریقے کے مطابق پورے اطمینان سے نماز ادا کر سکے گا۔ البتہ اس مسجد کے منبر سے انہی عقائد، اعمال اور شعائر کو فروغ دیا جائے گا جو قرآن حکیم، سنتِ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور تعامل صحابہ ؓکرام کے مطابق ہوں گے۔

            بحمداللہ مولٰناؒ نے بائیس برس کی طویل مدّت تک انتہائی سادگی اور خاموشی کے ساتھ اپنے اخلاص سے ان اصولوں پر عمل کر کے ان کی صداقت کو نہ صرف ثابت کر دکھایا بلکہ زبان حال سے پیغام دیتے رہے کہ بندہ مؤمن اگر چاہے تو تعصب ، فرقہ واریت اور گروہ بندی کے پر گھٹن ماحول میں بھی اسلافؒ امّت کے مبارک نقش قدم پر چل سکتا ہے اور ہم آہنگی، رواداری اور اتحاد امت کی شعلہ فشاں تقریروں کے بجائے عمل کر کے تازہ ہوا کا جھونکا اور امید کی کرن بن سکتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں اتحاد امت کے موضوع پر بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے لیکن اس کے لئے درکار ایثار، ضبط نفس اور وسعت قلبی کا عملی ثبوت دینے کیلئے کوئی تیار نہیں۔مولٰنا عبدالغفورؒ کو کبھی روایتی جلسوں میں شرکت کرتے نہیں دیکھا گیابلکہ گوشۂ گمنامی میں رہنا انہیں پسند تھا۔وہ نہ تو کوئی شعلہ نوا مقرر تھے اور نہ ہی ان کی چال ڈھال سے عالمانہ وجاہت ٹپکتی تھی۔وہ سیدھے سادہ اور عام فہم جملوں میں دل کی بات کہہ جاتے تھے البتہ ان کی سادہ باتوں سے ان کے دردِ دل اور اخلاص کی خوشبو ہر دردِ دل رکھنے والے کو واضح طور پر محسوس ہوتی تھی۔مولٰنا ؒ کی استقامت اور سادگی ہر دیکھنے والے کو متاثر کرتی تھی انہیں 1996ء میں عارضہ قلب کا پہلا جبکہ 2001ء میں دوسرا شدید حملہ ہواتھا اور بعد ازاں انجائنا کی تکلیف میں مستقلاً مبتلا ہونے کی وجہ سے شدید نقاہت کا شکار تھے لیکن اس کے باوجود دو سال قبل تک تراویح کی نماز پوری دلجمعی اور وقار کے ساتھ کھڑے ہو کر ادا کیا کرتے تھے جبکہ قرآن مجید کے ساتھ ان کی وابستگی اس قدر گہری تھی کہ وفات سے چار دن قبل تک روزانہ عصر سے مغرب کے دوران اپنی معمول کی منزلِ تلاوت کیا کرتے تھے۔ حالانکہ تلاوت قرآن کے روزانہ کے معمول کے حوالے سے اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھئے تو آپ کو حفاظ سمیت تلاوت قرآن کو روزانہ کا وظیفہ بنانے والے بہت ہی قلیل افراد ملیں گے امّت اپنی پستی کی انتہا کو یونہی نہیں پہنچ گئی اقبالؒ نے ترکِ قرآن کا جو مرثیہ اسّی برس پہلے کہا تھا، وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے ہو تارک قرآں ہو کر ،وہ آج اپنی تکمیلی شکل میں چشم سر سے دکھائی دے رہا ہے۔

            مولٰناؒ 1960ء سے مسجد و محراب سے وابستہ تھے اور لگ بھگ اسی زمانے میں ان کی فکری وابستگی سیّد مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے ہوئی اور بلاشبہ مولٰناؒ کے خمیر میں موجود خام صلاحیتوں کو اس فکر نے بہت جِلا بخشی۔زندگی کے آخری آٹھ دس سال انکا قلبی و ذہنی میلان جہادی افکار کی طرف بہت واضح طور پر دکھائی دیتا تھا۔ مولٰنا ؒ اپنی فکری وابستگی کو نہ تو کبھی چھپاتے اور نہ مصلحت کو شی کا رویہ اختیار کرتے لیکن ان کی صلاحیتوں کا جو پہلو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کے نقوش کو گہرا کرتا جائے گا وہ ان کی وسعت قلبی ہے کہ وہ اپنی ممدوح فکر کی حمایت کھلے انداز میں کرنے کے باو جود اس سے الگ افکار کی حیثیت کو نہ صرف گوارا کرتے بلکہ ان کا احترام کرتے تھے اور سب سے بڑھکر یہ کہ خطیب مسجد کی حیثیت سے مسجد کو اپنی فکر کے فروغ کیلئے ہی استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ دوسرے افکار کیلئے دعوت و تبلیغ کے مواقع بھی کھلے دل سے فراہم کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی شخص نے مسجد کے اساسی اصولوں اور ہم آہنگی و رواداری کا احترام کرتے ہوئے مسجد میں درس و تدریس کیلئے اجازت طلب کی تو ان کی مسرت و شادمانی دیدنی ہوتی تھی۔اور اگر کوئی کبھی شکریہ کے کلمات کہنا چاہتا تو نہایت سادگی سے فرماتے کہ مسجدیں تو اسی لئے ہوتی ہیں کہ وہاں قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ بلا مبالغہ کہنا پڑتا ہے کہ مولٰنا ؒ کی اس طرح کی حوصلہ افزاء باتیں سن کر مخاطب ورطہء حیرت میں مبتلا ہو جاتا تھا کیونکہ کھلی حقیقت ہونے کے باو جود ہمارا آج کا زمانہ ان اوصاف سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔

            مولٰنا نے 29ستمبر 2011ء کو خالق حقیقی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے جب اس جہانِ فانی کو چھوڑا تو توفیق الٰہی سے اپنی قائم کردہ مسجد کو گلشن محمدیؐ کے ایسے خوشبو بکھیرتے چمنستا ں کی صورت میں چھوڑ کر گئے ہیں ۔ جس میں ہفتے کے ساتوں دن تعلیم و تربیت کے پرو گرام جاری و ساری ہیں۔ تبلیغی جماعت کے احباب روزانہ اپنے معمول کی ترتیب کے پرو گرام کرتے ہیں ۔راقم کے زیر اہتمام روزانہ مغرب کے بعد ترجمہ قرآن کی کلاسز ہوتی ہیں جو کہ گیارہ برس سے مسلسل جاری رہتے ہوئے مولٰنا ؒ کی محبت قرآن و دین کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مزید براں اضافی طور پر راقم کے جمعہ اور اتوار کو دروس بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح تنظیمِ اسلامی کے زیر اہتمام ہفتے میں دو دروس جبکہ جماعتِ اسلامی اور جماعت الدعوۃ کے زیرِ اہتمام ایک ایک درس ہوتا ہے۔ مزید برآں جماعتِ اسلامی اور تنظیمِ اسلامی کے تربیتی اجتماعات بھی ماہانہ بنیادوں پر منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران مسجد میں عجیب بہار کا سماں ہوتا ہے۔ معمول کی تراویح کے علاوہ مسجد سے ملحقہ مدرسہ کی عمارت میں تنظیمِ اسلامی کے زیرِ اہتمام دورۂ ترجمہ قرآن کے ساتھ تراویح کی الگ جماعت ہوتی ہے جو کہ رات ایک دو بجے تک جاری رہتی ہے۔جبکہ تراویح کی عمومی جماعت کے اختتام پر روزانہ خلاصہ قرآن کا پروگرام جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ہوتا ہے۔ اسی طرح نماز عصر کے بعد روزانہ ترجمہ کلاسز کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک کی خصوصی مناسبت سے راقم کے ادارہ تدبر قرآن و حدیث کے زیر اہتمام تصحیح تلفظ قرآن کی کلاس بھی ہوا کرتی ہے۔ راقم کے مشاہدہ کی حد تک ایسا ہمہ رنگ پُر بہار منظر کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بلاشبہ ربّ ذوالجلال کی خصوصی تو فیق سے مولٰنا عبدالغفور کو یہ منفرد سعادت حاصل ہوئی ہے۔

            ایک دوسرے پہلو سے دیکھیں تو جو چا رپانچ مختلف افکار کی حامل تنظیمیں کئی برس سے مولٰناؒ کی زیر پرستی خدمتِ دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں اس کے نتیجہ میں مولٰنا کی شخصیت کا عکس ان کے کام میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ کہ ہر تنظیم فکری طور پر دوسری تنظیموں سے الگ بنیادیں اور لائحہ عمل رکھنے کے باو جود مسجد کے ماحول کی برکت سے اس قدر ہم آہنگی اور رواداری سے کام کرتی ہیں کہ کبھی کسی ایک موقع پر بھی ایک تنظیم کے درس کے دوران کسی دوسری تنظیم پر اشارۃً بھی تنقید نہیں کی گئی بلکہ جب کبھی کسی تنظیم کا کوئی اہم پروگرام ہو تو تمام تنظیموں کے مقامی اکابرین پورے اہتمام سے اس میں شرکت کرتے ہیں بلاشبہ مولٰناؒ نے طویل محنت کے نتیجے میں ایک ایسا دلکش ماحول پیدا کر دیا ہے جو اسلافؒ امّت کی اس طرزِ عمل کی جیتی جاگتی تصویر ہے کہ اختلاف کے باوجود دوسرے کی مبنی بر دلیل رائے کا احترام کیا جائے اور اپنی رائے کو دلیل کی بنیاد پر درست سمجھنے کے باو جود اس میں عند اللہ غلطی کے امکان جبکہ دوسرے کی رائے کو دلیل کی بنیاد پر غلط ماننے کے باو جود عند اللہ صائب ہونے کے امکان کو تسلیم کیا جائے۔ بلاشبہ ہمارے جلیل القدر اسلافؒ کے اس طرزِ عمل کی مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

             میں ذاتی طور پر مولٰنا عبدالغفورؒ کو اپنا محسن، مربی اور روحانی باپ سمجھتے ہوئے ان سے محبت و عقیدت رکھتا ہوں لیکن اس تحریر کا واحد مقصد یہ ہے کہ رواداری، محبت اور اتحاد و امّت کی اس عملی دعوت کو اطراف و اکناف میں ہر صاحبِ درد تک پہنچایا جائے کہ جو کام مولٰنا عبدالغفورؒ اسلام آباد کی ایک مضافاتی آبادی کی مسجد میں بائیس سال تک انجام دیتے رہے کاش ملک کے ہر شہر میں اس جیسی دو چار مساجد وجود میں آجائیں تو انشا ء اللہ بہت جلد ہماری اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی پستی ختم ہو سکتی ہے چونکہ تعصّب کی گھٹن بڑے سے بڑے کام کو بے اثر کر کے رکھ دیتی ہے جبکہ وسعت قلب و نظر علم کے دریچے کھولتی ہے اور علم سے آشنا قوم کبھی پستی میں ڈوبی نہیں رہ سکتی ۔

            ربّ ذوالجلا ل کے حضور تہہ دل سے دعا ہے کہ اس کریم ذات نے جس طرح اپنے باسعادت بندے حافظ عبدالغفورؒ کے ذریعہ رواداری، محبت اور علم و عمل کا قابل تقلید ماحول ایک مسجد میں پیدا فرما دیا۔ اپنی رحمت و کرم سے اپنے اس صاحب عزیمت بندے کے عمل کو قابلِ تقلید مثال بنا کر اپنے مزید بندوں کو اس راہ محبت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور مولٰنا ؒ نے جتنے بھی کارِ خیر مسجد قباء میں جاری کئے اپنی رحمت و کرم سے ان کی ضوفشانی میں اضافہ فرمائے اور مولٰنا ؒ کے صلبی اور روحانی وارثوں کو اس ماحول کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ یہ کار ِ خیر قیامت تک مولٰنا عبدالغفورؒ کے نامہء اعمال میں مسلسل اضافے کا ذریعہ بنے رہیں ان کا ر ہائے خیر کو اپنی زندگی کے بعد بھی جاری و ساری رکھنے کے لئے مولٰنا کی خواہش کو کسی شاعر کے یہ الفاظ بہت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں۔

پھلا پھولا رہے یا ربّ چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں

٭٭٭