میڈیا ، اکیسویں صدی کا خوفناک ہتھیار

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : اکتوبر 2011

            کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ غریب اور مفلوک الحال ملکوں میں بھی جہاں لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہوں وہاں میڈیا کی چکا چوند ماند نہیں پڑتی۔ ان کے خوش رنگ پروگرام نہیں رکتے ، ان کے اینکر پرسن ایک چینل سے دوسرے چینل ، بہتر سے بہترین معاوضے کی دوڑ میں بھاگے پھرتے ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی اتنا زیادہ معاوضہ لیتے ہیں کہ صدر ، وزیر اعظم ، گورنر یا وزیر اعلی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔ 24 ارب روپے کے کل سالانہ اشتہارات پر یہ سارے اللے تللے سمجھ سے بالاتر نظر آتے ہیں لیکن اگر پوری دنیا کے تناظر میں اپنے ملک یا کسی بھی ملک کو دیکھیں تو میڈیا کی اس نہ دکھائی دینے والی حکومت کے بکھرے ہوئے تار پود اور وسائل کی کہانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ میڈیا اکیسویں صدی کا وہ واحد کار آمد ہتھیار ہے جس سے تہذیبیں تباہ کی جا سکتی ہیں ، اخلاق برباد ہو سکتے ہیں ، سیاست دان خریدے یا پھر ان کے منہ میں اپنی زبان ڈالی جا سکتی ہے ۔ جس کو چاہو ملزم ، بددیانت اور فرسودہ ثابت کرو، اور جسے چاہو بالغ نظر اور باصلاحیت۔

            آج سے 80 سال قبل اس کارپوریٹ میڈیا کی بنیاد رکھی گئی تھی جسے پیشہ وارانہ صحافت کے خوبصورت نام سے آزادی اظہار کے نعرے کے ساتھ نتھی کر کے پیش کیا گیا تھا۔ اسے اشتہارات کے خون سے پالا گیا اور پھر جب یہ لوگوں کے ذہنوں سے کھیلنے کے قابل ہوا تو اسے اپنے کنٹرول میں لے کر ایسے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح استعمال کیا گیا جو لوگوں کے گھروں میں بلا روک ٹوک گھس سکتے تھے۔ کنٹرول کی یہ کہانی اس تیز رفتاری سے آگے بڑھتی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ 1983 میں دنیا بھر کا میڈیا 50 کارپوریشنوں کی ملکیت تھا۔ صرف 19 سال کی خرید و فروخت کے بعد 2002 میں یہ 9 کارپوریشنوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ اگلے پانچ سال بعد یعنی 2007 میں صرف 5 کمپنیاں دنیا بھر کے میڈیا کی مالک ہو گئیں اور آج دنیا کا یہ سب سے خطرناک ہتھیار 3 بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہو چکا ہے۔ یہ کمپنیاں جس قسم کی سیاسی قیادت چاہتی ہیں ، جیسی اخلاقی اور معاشرتی اقدار مانگتی ہیں ، جس کو چاہے ذلت کے گڑھے میں پھینکتی ہیں اور جسے چاہے عزت کا تاج عطا کرتی ہیں ، سب ان کی دسترس میں ہے۔ ان تینوں کمپنیوں میں ایک روپرٹ مرڈوک کی نیوز کارپوریشن ہے۔

            یہ شخص گیارہ مارچ 1931 میں آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں ایک صحافی سرکیتھ مرڈوک کے گھر پیدا ہوا۔ صحافی والد کی اولاد ہونے کی وجہ سے وہی جراثیم لیے ہوئے تھا اسی لیے اپنے سکول کے میگزین کا ایڈیٹر بنا اور میلبرن ہیرلڈ میں پارٹ ٹائم صحافت بھی کرتا رہا۔ فلسفہ ، سیاست اور معاشیات میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈیلی ایکسپریس میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے لگا۔ صرف بائیس سال کی عمر میں اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی میڈیا کمپنی نیوز لیمیٹڈ کا مالک بن گیا،یہ 1953 تھا ۔ کارپوریٹ میڈیا کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ مرڈوک نے سب سے پہلے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے اخبارات کو خریدنا شروع کیا اور پھر 1964 میں برطانیہ کے اخبار The World of News اور Sun کو خرید لیا اور انہیں وہاں کا مقبول ترین اخبار بنا دیا ۔ 1974 میں وہ امریکہ چلا گیا اور اس سلطنت کی توسیع میں لگ گیا۔ 1981 میں وہ Time رسالے کا مالک بنا اور 1985 میں امریکی شہری بنا۔ اسی سال اس نے Twentieth Century Fox خریدا ، 1989 میں ہارپر کولنز اور 2007 میں وال سٹریٹ جنرل ۔ مرڈوک نے ا سکے ساتھ اپنا دائرہ جنوبی امریکہ میں پھیلایا اور پھر ایشیا کی جانب آیا اور 1993 میں سٹار ٹی وی نیٹ ورک خرید لیا۔ یہ وہی ٹی وی نیٹ ورک ہے جو سب سے پہلے پاکستان میں ڈش انٹینا کے ذریعے پہنچا اور انڈین ڈراموں کی بھرمار سے پاکستان کے تہذیب آشنا میڈیا کو یوں تباہ و برباد کیا کہ وہ واپسی کا راستہ تک بھول گیا۔

            مرڈوک کے بارے میں گورڈن ڈف نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ آسٹریلیا میں پیدا ہوا ہے لیکن اسے اسرائیلی شہریت بھی حاصل ہے اور یہ ایک کٹر یہودی ہے۔ یہ شخص گزشتہ بیس سال سے برطانوی اور امریکی سیاست پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے اور اس بات کا اعتراف اس نے خود بھی کیا ہے۔ اس کے بارے میں امریکہ کی ایف آئی اے اور برطانوی ایجنسیاں اس الزام کی تحقیق کر رہی ہیں کہ یہ عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے سیاستدانوں تک کے ٹیلی فون ٹیپ کرتا ہے ۔ اہم لوگوں کو رشوت دینا اور انہیں بلیک میل کرنا اس کا ہنر ہے۔ مرڈوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسرائیل میں نیتن یاہو سے بھی زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ فوکس نیوز کے مالک کی حیثیت سے اس نے اسرائیل کو اپنے جاسوسی نیٹ ورک پھیلانے میں مدد دی۔ اپنی میڈیا سلطنت کے ذریعے اس نے یہودی لابی کوامریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے کا موقع فراہم کیا۔

            میڈیا کے تین بڑے ستونوں کا یہ اہم ستون جس پالیسی پر میڈیا چلاتا ہے اس کے مطابق اسلام اور مسلمانوں سے نفرت سرفہرست ہے ۔ اس کے نزدیک تمام مسلمان برے ہیں ۔ اس کے تمام میڈیا پر مسلمان، دہشت گرد، نکمے ، عیاش اور عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے صحافیوں کو کہتا ہے کہ ذہین اور باصلاحیت لوگوں سے نفرت کرو خصوصاََ مسلمانوں میں سے اگر کوئی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ہو تو اس کی کردار کشی کرو۔ اس کے نزدیک نسل پرستی اس وقت تک نہیں پھل پھول سکتی جب تک لوگوں کا اعتماد پیدائشی با صلاحیت لیڈروں پر سے ختم نہ ہو جائے۔ اس کی پالیسی کا حصہ ہے کہ کلچر اور ثقافت کو تباہ چار چیزوں سے کیا جا سکتا ہے۔

1 ۔ میکانکی میوزک

2 ۔ سکینڈلز

3 ۔ غلیظ جنسی ترغیبات

4 ۔ مستقل طور پر پھیلائی جانے والی Conspiracies یعنی افواہ سازی ۔

            یہی افواہ سازی پاکستان کے حوالے سے ہر دوسرے روز منظر عام پر آتی ہے۔ یہ ٹوٹ جائے گا ، یہ دہشت گردوں کی آماجگاہ ہے ، اس کا ایٹمی پروگرام دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اور پھر اسی افواہ سازی پر میرے ملک کا میڈیا ٹاک شو کرتا ہے۔ آٹھ بلین ڈالر کی ذاتی جائیداد کا مالک مرڈوک تین بار ٹائمز کے سو اہم ترین افراد کے طور پر دکھایا جا چکا ہے۔ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں 117 نمبر پر آنے والا یہ شخص سکائی نیوز کے مالک کی حیثیت سے مارگریٹ تھیچر کو برسر اقتدار لانے اور فوکس نیوز کے ذریعے باراک اوباما کی صدارت کا حصے دار رہا ہے۔ گیارہ ستمبر کے واقعے سے لے کر عراق اور افغانستان کی جنگ میں پوری دنیا کو جھونکنے اور اس جنگ کو پوری دنیا کے لائف سٹائل کے بقا کی جنگ بنا کر پیش کر نے میں یہ کامیاب رہا ہے ۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ پارٹیوں کی حمایت بھی بدلتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرے کو جتوا کر اس سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرواتا ہے۔

            اس ایک شخص کی کہانی اس قدر خوفناک اور طویل ہے کہ اس کے لیے کئی کتابوں کی ضخامت چاہیے۔ کارپوریٹ کلچر کا پروردہ میڈیا کہاں سے سرمایہ حاصل کرتا ہے ، کیوں کرتا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ، یہ سب اس کی کہانی سے واضح ہوتے ہیں ۔ یہ بڑے میڈیا ہاؤس اور کارپوریٹ دنیا کے آقا اپنے کمزور ترین میڈیا کو بھی کسی غریب ترین ملک میں بھی گرنے نہیں دیتے۔ اس کی چکا چوند ماند نہیں ہونے دیتے۔ اسے سرمائے کا نیا خون فراہم کرتے ہیں ۔ یہ اکیسویں صدی کے اس ایٹمی ہتھیار کو تازہ دم رکھتے ہیں لیکن حیرت ہے ان ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر جو اس سارے میڈیا کا ہدف ہیں ، جن میں لکھ پتی بھی ہیں اور ارب پتی بھی ، جن کے گھروں پر روز یہ ہتھیار خاموشی سے وار کرتا چلا جاتا ہے اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی طاقت بن جانے سے دفاع مضبوط ہو جاتا ہے۔ جب گھر ہی تباہ ہو جائیں اور وہاں سے اقدار ، روایات ، مذہب اور اخلاق کا جنازہ نکل جائے تو ایسے تباہ حال گھر ، ملک یا امت کو بچانے کا فائدہ۔ کل روز حشر وہ اپنے اس سرمائے کا حساب دے سکیں گے جب یہ سوال پوچھا جائے گا کہ پوری دنیا تمہارے وجود پر میڈیا کا ہتھیار لیکر اعلان جنگ کر چکی تھی ، وار پر وار کر رہی تھی اور تم نے اس کے خلاف جہاد میں ایک پائی بھی خرچ نہ کی اور اپنے ملکوں ، شہروں ، گھروں اور خاندانوں کو ان کے حوالے کر دیا۔ تم نے ایسا ایک بھی ہتھیار اپنی قوم یا امت کو نہ دیا۔ جواب ہو گا کسی کے پاس ؟

 (بحوالہ روزنامہ ایکسپریس لاہور)