رشتے کی تلاش

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2011

 

                   مدینے کی تاریک رات تھی اور خلیفہ وقت حسب معمول گشت پر تھے تا کہ وہ بذات خود جان سکیں کہ ان کی رعایا کس حال میں ہے ۔اسی اثنا میں ایک گھر سے آواز آئی کہ بیٹی دودھ میں پانی ملا دو۔ خلیفہ کے قدم رک گئے۔بیٹی نے کہا ، اماں ، تمہیں معلوم نہیں کہ خلیفہ نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے۔ماں نے کہا ، بیٹی، اس وقت خلیفہ کہاں دیکھ رہاہے ؟ تم پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا ، اماں ، خلیفہ تو نہیں دیکھ رہامگر اللہ تو دیکھ رہاہے ۔سیدناعمر ؓیہ سن کر بہت خوش ہوئے ۔اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس ہوئے کہ ان کی سلطنت میں خدا کا خوف رکھنے والی ایسی لڑکیاں بھی موجود ہیں۔ صبح ہوئی ، عمر نے اس بوڑھی عورت کے گھر اپنے بیٹے عاصم کے لیے پیغام بھیج دیا۔ رشتہ طے ہوا ، شادی ہو گئی ۔ اللہ نے برکت دی اور اسی بچی کے بطن سے وہ بچی پیدا ہوئی جس نے عمر بن عبدالعزیز کو کو جنم دیا ، وہ عمر جنہیں بعض علما خلیفہ راشد بھی کہتے ہیں۔
                   نوجوان نہر کے کنارے کنارے جا رہاتھا اس نے دیکھا کہ نہر میں ایک سیب بہتا آرہا ہے ۔ نوجوان نے ہاتھ بڑھایا ، سیب پکڑا اور کھا لیا۔ کھانے کے بعد خیال آیا کہ یہ سیب تومیرا نہ تھا۔ میں نے مالک کی اجازت کے بغیر کھا لیا۔ فکر پیدا ہوئی چنانچہ وہ پانی کے بہاؤ کے مخالف چل دیا تا کہ دیکھے کہ یہ سیب کہاں سے آیا ہے ۔ تھوڑی دور پہنچا تو نہر کے کنارے ایک باغ نظر آیا جس کی شاخیں اس نہر پہ جھکی ہوئی تھیں اور ان شاخوں سے ایک آدھ سیب پانی میں گر رہا تھا ۔ نوجوان نے سوچا ضرور یہ اسی باغ کا سیب ہے ۔ اس نے باغ کے مالک سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ کے باغ کا ایک سیب نہر میں جا رہا تھا میں نے بلا اجازت کھا لیا ۔ براہ کرم مجھے معاف کردیں۔ مالک نے کہا ایسے تو معاف نہیں ہو گا اس کے لیے تمہیں اتناعرصہ میرے باغ کی خدمت کرنا ہوگی۔ نوجوان اس کے لیے تیار ہو گیا۔ اصل میں باغ کا مالک وہ ‘‘جوہر ی’’ تھا جواصل ‘‘ہیرے’’ کی پہچان رکھتا تھا ۔ اس نے سوچا کہ ایسا‘‘ ہیرا’’ پھر کہاں ملے گا۔ نوجوان باغ میں کام کرنے لگا اورادھر باغ کا مالک اپنی بچی کو اس سے بیاہنے کا انتظام کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ شادی ہو گئی ، اللہ نے برکت دی اور اس صالح جوڑے نے عبدالقادر جیلانی کو جنم دیا۔ 
                   رشتہ طے کرتے وقت اگرتقوے اورپرہیز گاری کومعیار بنایا جائے توپھر عمربن عبدالعزیز اور شیخ عبدالقادر جیلانی پیدا ہوتے ہیں ورنہ‘ ماجے’ ،‘ گامے ’اور‘ ساجے’ توہوتے ہی ہیں۔
                   مناسب رشتے کی تلاش آج کا نہیں، ہر زمانے کا مسئلہ رہا ہے ۔لیکن قرون اولی میں رشتے کا معیار تقوی او رعلم و عمل تھے جبکہ آج مال و دولت ، حسن اور ذات پات ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔مال و دولت ، حسن اور ذات پات ہمیشہ فتنے اور فساد کاباعث رہے ہیں اس لیے اس معیار کو سامنے رکھنے والے اکثر فتنے اور فساد کا ہی شکار ہوتے ہیں جبکہ تقوی اور علم وعمل ہمیشہ عافیت اور امن و آشتی کا باعث بنے ہیں اس لیے اس معیار کے چاہنے والے ان نعمتوں کو پاتے ہیں اور خوب پاتے ہیں۔ مال و دولت کے پجار ی یاد رکھیں کہ مال و دولت ڈھلتی چھاؤں ہے ۔ یہ کسی کے ساتھ ہمیشہ نہیں چلتی جبکہ دوسری طرف اللہ کا وعدہ ہے کہ ومن یتق اللہ یجعل اللہ مخرجاویرزقہ من حیث لا یحتسب جو تقوی اختیار کریں گے اللہ انہیں ایسی راہوں سے رزق عطاکرے گا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو گا۔ حسن کے بیوپاری مت بھولیں کہ حسن بہت جلد فنا ہوجانے والی شے ہے اوراس کی دوستی بھی فنا کے گھاٹ اتار کے رکھ دیتی ہے ۔ذات پات کے پرچارک حضور کا یہ فرمان کیوں بھول گئے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے بنو ہاشم ایسا نہ ہو کہ آخرت میں لوگ اعمال لے کر آ جائیں اور تم اپنا نسب لے کر آ جاؤ ۔وہاں تمہارا نسب کسی کام نہ آئے گا اور یہ کہ جس کو ا س کے عمل نے پیچھے کر دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا۔ 
                   ٹوٹتے رشتے ، ناکام شادیاں ، طلاقوں کی بھر مار، بکھرتے خاندان، اور دم توڑتی خاندانی اقدار کے باوجود بھی اگر ہم نے اپنے رشتوں کے معیار اور رویے نہ بدلے تو پھر ہمارے معاشرے کو مغربی انداز کی تباہی سے کوئی نہ بچا سکے گا۔