مصاحب کی حکمت

مصنف : جاوید چودھری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2018

 

اصلاح و دعوت
مصائب کی حکمت
جاوید چودھری

آپ اگر زندگی بھر اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان رکھنا چاہتے ہیں ‘آپ اللہ تعالیٰ کے کرم‘ مہربانی اور رحم کو محسوس کرنا چاہتے ہیں اور آپ اس کی مصلحتوں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو میرا مشورہ ہے آپ اس واقعے کو اپنے پرس میں رکھ لیں اور اسے دن میں کم از کم ایک بار ضرور پڑھیں‘ آپ کو زندگی کی کوئی تکلیف‘ تکلیف نہیں دے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ انسانوں کو بڑی مصیبت سے بچانے کے لیے عموماًان پر چھوٹی مصیبت بھیج دیتا ہے‘ یہ چھوٹی مصیبت بڑی مصیبت کے راستے میں اسپیڈ بریکر ثابت ہوتی ہے اور یوں انسان بڑے ڈیزاسٹر سے بچ جاتا ہے۔ کلارک فیملی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ مسٹر اور مسز کلارک دونوں کام کرتے تھے‘ ان کے نو بچے تھے‘ ان کی آمدنی کم تھی‘ اخراجات زیادہ تھے اور ظاہر ہے ان حالات میں زندگی کچھ زیادہ خوبصورت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ بھی تنگی ترشی میں دن گزار رہے تھے۔ مسٹر کلارک کو پتہ چلا امریکا پوری دنیا کے لیے ’’گولڈ مائن‘‘ ہے۔یورپ کے غریب‘ مسکین اور مفلس لوگ امریکا پہنچتے ہیں ‘ وہاں دنوں میں بڑی بڑی کانوں‘ فارمز ہاؤسز‘ کارخانوں اور جانوروں کے باڑوں کے مالک بنتے ہیں اور شاہی خاندانوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ مسٹر اور مسز کلارک نے بھی امریکا جا کر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا ‘ فیصلہ تو ہو گیا لیکن زادِ راہ کا بندوبست نہیں تھا‘ نو بچے اور دو میاں بیوی کے لیے ٹھیک ٹھاک سرمایہ درکارتھا اور یہ لوگ بارہ گھنٹے کی محنت کے بعد جو کچھ کماتے تھے وہ مہینے کے آخر میں خرچ ہو جاتا تھا۔ یہ بحری جہازوں کا زمانہ تھا‘ یورپ کی آٹھ بڑی بندرگاہوں سے شپ چلتے تھے اور تین سے چھ ماہ میں امریکا پہنچتے تھے۔ مسٹر اینڈ مسز کلارک نے ہر صورت میں امریکا جانے کا فیصلہ کر لیا‘ انھوں نے رقم کا تخمینہ لگایا‘ اوور ٹائم شروع کیا‘ خوراک میں کمی کر دی ‘سردیوں کے کپڑے خریدنا بند کر دیے‘ دوست احباب اور رشتے داروں سے قرض لیا ‘ آبائی زمین کا واحد ٹکڑا بیچا‘ گھر رہن رکھا اور یوں دو سال کی مسلسل کوشش کے بعد اتنی رقم جمع کر لی جس سے یہ لوگ لاس اینجلس پہنچ سکتے تھے ۔وہ مسٹر کلارک کی زندگی کا شاندار دن تھا جب وہ پورٹ گیا‘ اس نے رقم کاؤنٹر پر رکھی اور بحری جہاز کے تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں گیارہ لوگوں کے سفر کا ٹکٹ خرید لیا۔ یہ ٹکٹ دیکھ کر پورا خاندان خوش ہو گیا۔ دوستوں نے ان کی الوداعی دعوتیں شروع کر دیں‘ کلارک فیملی نے اپنا سامان بھی باندھ لیا اور نوکریوں سے استعفیٰ بھی دے دیا لیکن روانگی سے تین دن پہلے کلارک فیملی ایک چھوٹے سے مسئلے کا شکار ہو گئی اور یہ حادثہ اگلے دن ان کی زندگی کا خوفناک ترین مسئلہ بن گیا۔
کلارک فیملی کا ایک بچہ اس شام اپنے دوست کو الوداع کہنے کے لیے اس کے گھر گیا‘ وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں آوارہ کتے نے کاٹ لیا۔ مسٹر کلارک اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے‘ ڈاکٹر نے بچے کا بازو سی دیا لیکن ساتھ ہی اسے ’’ کتے کے کاٹے‘‘ کا مریض قرار دے دیا۔ اس وقت اسکاٹ لینڈ میں روایت تھی کہ ڈاکٹر خطرناک مریضوں کے گھر کے مرکزی دروازے پر پیلے رنگ کی چٹ لگا دیتا تھا، اس چٹ کا مطلب ہوتا تھا کہ مریض ابھی زیر معائنہ ہے اور جب تک ڈاکٹر اجازت نہیں دے گا یہ اس وقت تک گھر سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ ڈاکٹر نے کلارک خاندان کے دروازے پر بھی پیلی چٹ لگا دی۔ اس چٹ کے بعد کلارک فیملی امریکا نہیں جا سکتی تھی۔ یہ کلارک خاندان کے لیے جان لیوا صدمہ تھا‘ انھیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آسمان جلتی ہوئی موم بتی کی طرح آہستہ آہستہ پگھل کر ان کے زخموں پر گر رہا ہو۔ مسٹر اور مسز کلارک نے اپنے بیٹے کو اس بحران کا ذمے دار قرار دے دیا ‘ وہ اسے بری طرح ڈانٹنے لگے۔ اگلے دن مسٹر کلارک ٹکٹ واپس کرنے گیا توپتہ چلا ٹکٹ کی واپسی کا وقت گزر چکا ہے ، یوں ان کی رقم بھی ڈوب گئی۔ مسٹر کلارک بری طرح ٹوٹ کر رہ گیا‘ جس دن جہاز پورٹ سے روانہ ہونا تھا اس دن مسٹر کلارک ان کی بیگم اور ان کے آٹھ بچے بندرگاہ پر پہنچے اور جہاز کو گہرے پانیوں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر دیر تک روتے رہے ۔آنے والے دن فیملی کے لیے زیادہ خوفناک ثابت ہوئے‘ مکان رہن تھا ‘ زمین بک چکی تھی‘ نوکری ختم ہو چکی تھی اور عزیز رشتے دار اور دوست ’’تم امریکا کب جا رہے ہو‘‘ کہہ کر انھیں چھیڑ رہے تھے۔ ان حالات نے مسٹر کلارک کی پوری فیملی کو شدید ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔ یہ لوگ سارا سارا دن گھر میں چھپے رہتے تھے اور اپنے اس بچے کو کوستے رہتے تھے جس کا زخم عین وقت پر ان کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔
کئی دن گزر گئے‘ ایک دن کلارک خاندان گھر میں ناشتہ کر رہا تھا کہ ان کے دروازے پر دستک ہوئی ‘ دروازے پر ان کا ہمسایہ کھڑا تھا‘ ہمسائے کے ہاتھ میں اخبار تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے تمتما رہا تھا۔ ہمسائے نے انھیں بتایا کہ دنیا کا سب سے بڑا اور جدید بحری جہاز ٹائی ٹینک بحراوقیانوس میں ڈوب گیا ہے اور اس میں 15 سو17 لوگ مارے گئے ہیں۔مسٹر کلارک نے اخبار کھول کر خبر دیکھی تو اس کے منہ سے بے اختیار تھینک گاڈ نکلا اور اس نے خوشی سے ناچنا شروع کر دیا۔ جی ہاں کلارک فیملی بھی ٹائی ٹینک ہی کے ذریعے امریکا جا رہی تھی لیکن یہ لوگ عین وقت پر کتے کے کاٹنے کی وجہ سے سفر پر نہ جا سکے اور یوں موت سے بچ گئے۔ کلارک اخبار لہراتا ہوا گھر کے اندر آیا‘ اس نے اپنے بیمار بیٹے کو گلے لگایا اور دیر تک اس کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ مسز کلارک اور اس کے باقی آٹھ بچے بھی اس بچے کے گرد کھڑے ہو گئے اور وہ بھی اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے رہے۔
آپ اب اس خبر کے بعد کی صورتحال بھی ملاحظہ کیجیے‘ وہ بچہ جو صبح تک اپنے آپ کو اپنے خاندان کی خوشیوں کا قاتل سمجھ رہا تھا وہ چند لمحوں میں خاندان کا مسیحا بن گیا۔ وہ خاندان جو اس بچے کو اپنا مجرم سمجھ رہا تھا وہی خاندان اسے اپنا محسن سمجھنے لگا‘ وہ لوگ جو کل تک ان لوگوں کو’’امریکا نہیں گئے ‘‘ کا طعنہ دے کر تنگ کر رہے تھے وہ خوش قسمتی اور خوش بختی پر انھیں مبارک باد دینے لگے۔ مسٹر کلارک جو کل تک خود کو دنیا کا بدقسمت ترین شخص سمجھ رہا تھا اسے اچانک محسوس ہوا کہ وہ سب دنیا کے خوش قسمت ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس احساس نے اس کے اعتماد میں اضافہ کر دیا۔ اس نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا ‘ مسٹر کلارک کا خاندان بعدازاں جوتاسازی کے کاروبار سے منسلک ہوا اور آج ان کے بنائے ہوئے
جوتے پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ آپ ذرا غور کیجیے اگر اس دن کلارک کے بیٹے کو کتا نہ کاٹتا‘ اگر ڈاکٹر ان کے دروازے پر پیلے رنگ کی چٹ نہ لگاتا تو کیا ہوتا؟ کلارک خاندان جہاز میں سوار ہو جاتا اور یہ لوگ بھی جہاز کے دوسرے بدنصیب مسافروں کے ساتھ پانی میں ڈوب جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹی سی مصیبت نازل کر کے انھیں بڑی مصیبت سے بچالیا۔ ان کو موت کے چنگل سے نکال لیا۔ 
ہم سب لوگ روزانہ بے شمار ایسی چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں ‘ ہماری گاڑی کا پہیہ ’’فلیٹ ‘‘ہو جاتا ہے ‘ ہماری نئی شرٹ پر چائے گر جاتی ہے ‘ ہم بڑی اہم میٹنگ کے لیے نکلنے لگتے ہیں لیکن اچانک ہمارے بچے کے ہاتھ پر چوٹ لگ جاتی ہے ‘ ہمیں ہماری مرضی کی نوکری نہیں ملتی ‘ ہم اچھے پرچے دینے کے باوجود امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں‘ ہماری رقم ڈوب جاتی ہے ‘ ہمارا قریب ترین دوست ہمیں دھوکا دے جاتا ہے‘ ہمارا کتا ہمارا قیمتی جوتا چبا جاتا ہے ‘ ہمارے سر پر پنکھا گر جاتا ہے‘ ہمارے دودھ سے چھپکلی نکل آتی ہے ‘ ہماری فلائٹ مس ہو جاتی ہے یا ہماری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے اور ہم دیر تک خود کو بدنصیب قرار دیتے رہتے ہیں ‘ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شکوے کرتے رہتے ہیں ’’یہ صرف میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ‘‘ ہم اللہ تعالیٰ سے پوچھتے رہتے ہیں ’’کیا صرف ہم ہی تمہارے امتحان کے لیے رہ گئے ہیں ‘‘ ہم مہینوں تک خود کو کوستے رہتے ہیں لیکن ہم کبھی ان چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کے پیندے میں چھپی خوش قسمتی پر توجہ نہیں دیتے ‘ہم کبھی ان مصیبتوں کے پیچھے موجود اللہ تعالیٰ کی’’ بلیسنگ‘‘ نہیں دیکھتے‘ ہم نے کبھی غور نہیں کیا‘ اللہ تعالیٰ عموماً چھوٹے کانٹے کے ذریعے بڑا کانٹا نکالتا ہے ‘ یہ آپ کو ٹھڈا مروا کر ائیر کریش سے بچاتا ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے عدالتی فیصلوں کے ذریعے حکمرانوں کو اقتدار کی اوقات سمجھاتا ہے۔ چنانچہ آج سے آپ جب بھی کسی چھوٹی مصیبت کا شکار ہوں تو اپنے دل پر نگاہ ڈالیں‘ لمبا سانس لیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر عرض کریں ’’ یا میرے پروردگار تیرا شکر ہے ‘ میں تیری مصلحت کو نہیں سمجھ رہا لیکن مجھے یقین ہے میرے بارے میں تیرا فیصلہ غلط نہیں ہو گا‘ تو یقیناًمجھے کسی بڑی مصیبت سے بچا رہا ہے ‘ شکریہ باری تعالیٰ ‘ تھینک گاڈ۔‘‘(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)