ٹین ڈبے والا

مصنف : رضوان

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2020

‘‘میں لاہور میں سعودی عرب کے تعلیمی اتاشی کے سامنے بیٹھا تھا، میرے کاغذات اور جدہ یونیورسٹی کا ویزا اسکے ہاتھ میں تھا۔ وہ کافی دیر تک کاغذات کو دیکھتا رہا پھر بولا لیکن میں اس ویزے کو نہیں مانتا۔میں نے پوچھا وجہ؟ اس نے کہا تعلیم تو ٹھیک ہے مگر تمھارا تجربہ انڈسٹری کا ہے تدریس کا تجربہ تو صفر ہے، جسکو پڑھانے کا کوئی تجربہ ہی نہ ہو وہ کیا پڑھائے گا۔ میں نے کہا سر لیکن جدہ میں رئیس القسم نے میرا ٹیسٹ اور پڑھائی کا طریقہ دیکھ کر میری سفارش کی، پھر میرا ڈین سے انٹرویو ہوا اسکے بعد یہ ویزا دیا گیا ہے۔ اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی بولا ضروری نہیں کہ اگر انھوں نے غلطی کی ہو تو میں بھی غلطی کروں۔ میں نے کہا سر یہ ویزا وائس چانسلر نے جاری کیا ہے جسکی پوسٹ وزیر کے برابر ہوتی ہے، وہ پھر مسکرایا اور بولا اور مجھکو ایسے 15 وزیروں کے کاموں کو چیک کرنے کے لیئے بٹھایا گیا ہے اگرآپ چاہیں تو میں آپ کے کاغذات پر لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آپ کو ویزا نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے اس سے مزید حجت کی تو اس نے کہا جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے ۔
میرے ذہن میں اپنی پرانی کمپنی کے مسٹر فریڈرک کے الفاظ گونجے '' مسٹر رضوان! تم نوکری چھوڑ کر بڑی غلطی کررہے ہو، میں نے ان لوگوں کے ساتھ 20 سال کام کیا ہے، انکا ہر وعدہ غلط ہوتا ہے'' اور میں نے غصہ میں جواب دیا تھا '' یہ لوگ ہمارے لئیے بڑے مقدس ہیں تم انکی توہین کررہے ہو''
 اس نے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا ایک وقت آئے گا تم میرے الفاظ کو یاد کروگے۔شاید وہ وقت آگیا تھا۔ پھر اس کے بعد میں نے دو اور چکر لگائے ہوائی جہاز سے اور ہر بار اتاشی کا وہی جواب تھا '' کہ جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے'' میرے لئیے یہ بڑا سخت وقت تھا نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
دو مہینے بیروزگاری کے ہوچکے تھے میں سخت ٹینشن میں بیٹھا تھا کہ بیل بجی دروازے پر ٹین ڈبے والا تھا۔ کوئی ستر سال کا ہوگا بالکل ہڈیوں کا ڈھانچا، میلا کچیلا پیوند لگے کپڑے، پسینے میں نہایا ہوا کہنے لگا صاحب دس سال ہوگئے ہیں ان گلیوں میں چکر لگاتے آج پہلی بار کسی کے گھر کی بیل بجائی ہے۔ میں نے حیرت سے کہا ہاں بولو؟ کہنے لگا یہاں نہیں وہاں نیم کے پیڑ کے نیچے چبوترے پر بیٹھ کر آرام سے بات کرنی ہے۔میں تذبذب کے عالم میں اس کے ساتھ چل پڑا۔ کہنے لگا صاحب میری اکلوتی بچی کی شادی ہونے والی ہے شادی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے مگر میرے پاس ایک پیسہ نہیں ہے آج کل کام بھی بہت مندا ہے کئی لوگوں سے ادھار مانگا سب نے انکار کر دیا، کل رات بہت دیر تک مسجد میں رویا اور دعا مانگی تو رات میں خواب میں آپ کی گلی اور گھر نظر آیا اور آواز آئی ان سے جا کر مانگ لے اس لیے صرف آپکا دروازہ کھٹکھایا ہے۔
مجھے اس کی کہانی پر یقین نہیں آیا اور ہنسی بھی آئی کہ لوگ کیسی کیسی چار سو بیسی کرنے لگے ہیں۔ میں نے ازراہِ مذاق پوچھا کتنے پیسے کی ضرورت ہے’ بولا صاحب سادگی سے رخصتی کرنی ہے، زیور تو میں اپنے بیوی کا چڑھا دوں گا، مگر پانچ چھ جوڑے اور شادی کا کھانا تو کرنا ہوگا، کوئی تیس ہزار کا خرچہ ہوگا-میں نے سوچا 50000 تو آج کل صرف دلہن کے بیوٹی پارلرمیں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔یہ رقم میرے لئیے بہت معمولی تھی اگر میں باہر کام کررہا ہوتا، مگر اب اس بے روزگاری میں یہ میرے لئیے بہت بڑی رقم تھی۔ میں خاموش سا ہوگیا وہ بولا صاحب آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیں اور میرے محلے والوں سے پوچھ لیں یہ جھوٹی کہانی نہیں ہے، میں غریب ضرور ہوں مگر ایماندار ہوں قسطوں میں آپ کی رقم لوٹا دوں گا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے اور چہرے پر بیچارگی اور لجاجت۔ وہ پھر بولا میں کبھی بیل نہ بجاتا اگر یہ خواب نہ دیکھتا۔میں عجیب شش و پنج میں تھا پھر مجھے یاد آیا کہیں پڑھا تھا کہ جب تنگی ہو تو خدا سے تجارت کیا کرو وہ کبھی نا امید نہیں کرتا۔ تیس ہزار دینے کا مطلب یہ تھا کہ اب واپسی کی کوئی امید نہیں ۔ خیر میں گیا اور تیس ہزار لا کر اس کے ہاتھ پہ رکھ دئیے۔ اس نے میرے ہاتھ چوم لئیے اور رونے لگا۔کوئی پندرہ دن بعد پھر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے غصہ سے پوچھا اب کیا مسئلہ ہے کیا پھر کوئی خواب دیکھا ہے بولا ہاں مگر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ میں نے جنجھلاکر کہا ظاہر ہے پہلے خواب دیکھا تھا تو بیل بجائی اب پھر خواب دیکھا ہوگا جو بیل بجائی ہے۔ جلدی بتاؤ مجھے بہت کام ہیں۔ کہنے لگا صاحب کل عشاء کی نماز پڑھ کر بڑی دعا کی کہ مولا قرض تو دلا دیا ہے اب ادائیگی میں بھی مدد کردے اور سوگیا تو پھر آپ کا گھر نظر آیا آواز آئی کہ تیرا قرض ادا کر دیا گیا ہے جاکر بتادے کہ اسکا بھی کام کر دیا گیا ہے۔ میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔میں نے کہا ٹھیک ہے جاؤ میں نے تم سے کون سا قرض وصول کرنا تھا۔ لیکن کمرہ میں آکر میں کافی دیر تک سوچتا رہا پھر والدہ سے مشورہ کیا تو وہ بولی تم کل ہی لاہور جاؤ ہوسکتا ہے قدرت کوئی راستہ نکالے میں نے تنک کر کہا تین بار تو جا چکا ہوں وہ تو بس ایک ہی بات کہتا ہے ''جب تک میں اس سیٹ پر ہوں دیکھتا ہوں تم کو ویزا کون دیتا ہے'' اب تو اس کو میرا چہرا بھی زبانی یاد ہوگیا ہوگا۔ والدہ نے کہا میں پیسے دیتی ہوں تم اللہ کا نام لے کر جاؤ تو سہی، کچھ لوگ خدا کے بہت قریب ہوتے ہیں یہ بات عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔
خیر میں اگلے دن لاہور پہنچا موسلا دھار بارش ہورہی تھی، ڈرتے ڈرتے اتاشی کے کمرہ میں داخل ہوا۔ دیکھا کرسی پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہے۔ میں نے کہا یہاں تو ایک اور صاحب ہوتے تھے بولا ہاں انکو ایک ہفتہ ہوا واپس وزارت خارجہ میں بلا لیا گیا ہے اور میں نے چارج سنبھال لیا ہے میں نے کاغذات اسکو دیئے۔ وہ بولا آپ بہت لیٹ آئے اب تو یونیورسٹی کھلنے میں چند دن رہ گئے ہیں۔ پھر اس نے سکریٹری کو بلایا کہا کہ پرسوں سے یونیورسٹی شروع ہو رہی ہے یہ پہلے ہی لیٹ ہوچکے ہیں فوراً ٹکٹ بناؤ پاسپورٹ پر ویزا لگاؤ اورسالانہ ہاؤس رینٹ، ایک ماہ کی سیلری کا چیک بنا کر لے آؤ اور سنو چائے بھجوا دینا۔ میں ایک لمحہ کے لئیے گم سم سا ہوگیا، قدرت اس طرح بھی مہرباں ہوسکتی ہے؟ پرانے اتاشی کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے اوپر والے نے اس مغرور شخص کی کرسی چھین لی تھی کیا صرف میرا کام کروانے کے لیے؟ پھر موسم پر میں نے گفتگو شروع کی بتایا کہ بہت موسلادھار بارش ہورہی تھی بڑی مشکل ہوئی آنے میں تو اس نے بڑی شائستہ اردو میں جواب دیا کہ آپ لوگ
 بڑے خوش قسمت ہیں ہم تو ایسے موسم کو ترستے ہیں، مجھ پر تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے اس کی اردو سن کر۔ میرا حیران چہرہ دیکھ کر وہ ہنسا بولا میں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی ہے پاکستانی ایک ذہین، محنتی اور بڑی مہمان نواز قوم ہے میں ان سے محبت کرتا ہوں خاص طور پر استادوں سے۔ چائے ختم ہوگئی تھی۔ پاسپورٹ، ٹکٹ اور چیک میرے ہاتھ میں تھا۔ مجھے ٹین ڈبے والے کے خواب کے الفاظ یاد آئے کہ تمھارا قرض ادا کردیا گیا ہے۔ لیکن ایسی ادائیگی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
٭٭٭