آخری پتہ

مصنف : قیصر نذیر خاور

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : اکتوبر 2020

یہ 1890کی دہائی کی بات ہے کہ نیو یارک کے علاقے ' گرین وچ ویلیج '' میں بہت سے مصور رہا کرتے تھے۔ سُو اور جونسی بھی مصور تھیں۔ یہ دونوں لڑکیاں مئی کے مہینے میں ایک دوسرے سے گرین وچ ویلج کے ایک ریستوران میں ملی تھیں۔'' میں میآن ریاست سے ہوں''، سُو نے جونسی سے کہا۔۔ '' میں رسالوں میں کہانیوں کے لئے تصاویر بناتی ہوں۔ '''' میں کیلیفورنیا سے ہوں ''، جونسی نے سُو کو جواب دیا۔ ‘‘لیکن میں اٹلی جانا چاہتی ہوں۔ میں نیپلز کی خلیج کی تصویر بنانا چاہتی ہوں! ''
دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ آرٹ، کپڑوں اور کھانوں کے بارے میں کوئی گھنٹہ بھر بات کی۔اس پہلی ملاقات کے کچھ ہی دنوں بعد دونوں نے ایک سٹوڈیو اپارٹمنٹ میں اکھٹے رہنا شروع کر دیا۔ ان کے کمرے گرین وچ ویلج کے ایک پرانے اینٹوں کے بنے گھر میں سب سے اوپروالی منزل پر تھے۔
دسمبر کے مہینے میں نیویارک میں بہت سردی پڑی، برف باری ہوئی تو ہر طرف برف ہی برف نظر آنے لگی۔ شہر میں کئی لوگ بیمار ہو گئے۔ اس بیماری کا نام نمونیہ تھا۔ ڈاکٹروں نے مریضوں کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن ان میں سے بہت سے مر گئے۔اسی مہینے جونسی کو بھی نمونیہ ہو گیا۔ وہ بہت بیمار ہو گئی اور ہر وقت بستر پر ہی پڑی رہتی کہ وہ تو ہل بھی نہ سکتی تھی۔ ایک ڈاکٹر روز اسے دیکھنے کے لئے آتا لیکن جونسی کی حالت بہتر نہیں ہو رہی تھی۔ایک صبح ڈاکٹر نے جونسی کے کمرے کے باہر سُو سے خاموشی سے کہا:'' میں اب اس کی مزید کوئی مدد نہیں کر سکتا، وہ بہت اداس ہے، اور اب مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ کسی کو اسے پھر سے خوش کرنا ہو گا کہ اس میں زندگی کی امنگ پھر سے جاگے، اس کو کس بات میں دلچسپی ہے؟ '''' وہ ایک مصورہ ہے۔ ''، سُو نے جواب دیا۔ '' وہ نیپلز کی خلیج کو مصور کرنا چاہتی ہے۔'' پینٹنگ! '' ڈاکٹر نے کہا، '' یہ تو شاید اس کے لئے کچھ کارآمد نہ ہو۔ ''
ڈاکٹر تو یہ کہہ کر چلا گیا، سُو اپنے کمرے میں آئی اور کچھ دیر کے لئے خاموشی سے روتی رہی۔ پھر اس نے اپنا ڈرائنگ بورڈ اور کچھ پنسلیں اٹھائیں اور خوشی سے گاتی ہوئی جونسی کے کمرے میں داخل ہوئی۔جونسی اپنے بستر میں خاموشی سے لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کا چہرہ پتلا اور بیماری سے سفید ہو گیا تھا۔ وہ کھڑکی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
'' جونسی شاید سو رہی ہے۔''، سُو نے سوچا۔
اس نے گانا بند کر دیا اور کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ پھر اس نے ایک رسالے کے لئے تصویر بنانا شروع کر دی۔ اچانک اسے ایک ہلکی سی آواز سنائی دی۔ وہ جلدی سے بستر کے پاس گئی۔ جونسی کی آنکھیں کھلی تھیں۔۔ وہ کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھی اور آہستگی سے بول رہی تھی:'' بارہ '' جونسی نے کہا، کچھ دیر بعد اس نے کہا،'' گیارہ ''، پھر وہ بولی، '' دس ''، پھر '' نو ''۔ پھر وہ ایک ساتھ بولی '' آٹھ '' اور '' سات ''۔۔ وہ الٹی گنتی گن رہی تھی۔جونسی کی نظریں کس پر جمی ہیں؟ اور وہ الٹی گنتی کیوں گن رہی ہے؟ سُو نے کھڑکی کے باہر دیکھنا چاہا۔کھڑکی کے باہر اسے ساتھ والے گھر کی انیٹوں کی دیوار نظر آئی جس پر ایک پرانی بیل پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی شاخوں پر بہت کم پتے موجود تھے۔'' چھ ''، جونسی نے کہا، '' یہ اتنی تیزی سے گر رہے ہیں، تین دن پہلے یہ سو کے لگ بھگ تھے۔۔ '' آہ! ایک اور گیا، اب یہ پانچ رہ گئے ہیں۔'''' پانچ؟ جونسی تم کیا کہہ رہی ہو؟، سُو نے پوچھا، '' مہربانی کرو اور مجھے بتاؤ۔ '''' اب بیل پر صرف پانچ پتے رہ گئے ہیں، '' جونسی بولی، '' اس کا آخری پتا بھی جلد ہی گر جائے گا اور پھر میں مر جاؤں گی۔ کیا تمہیں ڈاکٹر نے ان پتوں کے بارے میں نہیں بتایا تھا؟ ''
'' ایسا مت کہو! تم نہیں مرتیں! ''، سُو نے کہا، تم بہتر ہو جاؤ گی۔۔ ڈاکٹر نے مجھے آج صبح یہی کہا تھا۔ میں تمہارے لئے '' سوپ '' لاتی ہوں اور پھر میں اپنی تصویر بناؤں گی۔ رسالے والے مجھے جلد ہی پیسے دے دیں گے۔ پھر میں تمہارے لئے کھانے کی کوئی اچھی سی چیز لاؤں گی۔جونسی ابھی بھی بیل کو تک رہی تھی۔ '' اس وقت وہاں صرف چار پتے رہ گئے ہیں۔ '' اس نے کہا، '' میں کوئی سوپ ووپ نہیں پینا چاہتی، آخری پتہ بھی جلد ہی گرنے والا ہے۔ '''' جونسی، ڈیئر، '' سُو نے کہا۔ مہربانی ہو گی اگر تم آنکھیں موند لو اور کچھ دیر کے لئے سو جاؤ۔ مجھے کل تک یہ ڈرائنگ کو مکمل کرنا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ تم ان پتوں پر مزید دھیان دو۔''جونسی نے آنکھیں بند تو کر لیں لیکن بولی: '' لیکن میں آخری پتے کو گرتا دیکھنا چاہتی ہوں ''، اس نے پھر سے کہا:'' یہ جلد ہی گر جائے گا۔ پتے تھک چکے ہیں اور میں بھی، میں مرنا چاہتی ہوں۔ '''' مہربانی کرو اور سونے کی کوشش کرو۔'' سُو نے کہا:'' میں '' بہرمین '' سے ایک منٹ کے لئے بات کرنے جا رہی ہوں۔ مجھے اپنی ڈرائنگ کے لئے ایک '' ماڈل '' کی ضرورت ہے۔ مجھے اسے کہنا ہے کہ وہ میرے لئے'' ماڈل '' بنے۔بوڑھا بہرمین نچلی منزل میں رہتا تھا۔ وہ بھی مصور تھا لیکن اس نے کبھی کوئی اچھی تصویر نہیں بنائی تھی۔ وہ اس بات پر ناخوش ہونے کے ساتھ ساتھ اداس بھی رہتا تھا۔'' میں ایک دن ایک لاجواب تصویر بناؤں گا۔ '' بہرمین اکثر کہا کرتا تھا۔لیکن وہ کبھی بھی کوئی لاجواب تصویر نہیں بنا پایا حالانکہ اس کی عمر ساٹھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ سُو منحنی سے بوڑھے آدمی کے پاس اس کے چھوٹے سے کمرے میں گئی اور اسے جونسی اور بیل کے پتوں کے بارے میں بتایا۔اوہ، کیا بیوقوف لڑکی ہے، '' بہرمین چلایا، '' ایک بوڑھی بیل بھی بھلا لوگوں کو مار سکتی ہے! ''
‘‘لیکن یہ بیل اسے مار رہی ہے۔ ''، سُو نے کہا، '' وہ بہت بیمار ہے اور انتہائی لاغر ہو گئی ہے۔ وہ مرتی ہوئی بیل کو دیکھتی ہے اور اب وہ خود بھی مرنا چاہتی ہے۔''بہرمین کو یہ سن کر غصہ تو آیا لیکن وہ ان دونوں نوجوان مصوروں سے بہت محبت کرتا تھا۔‘‘آہ، بیچاری مس جونسی،’’ اس نے آہستگی سے کہا،
'' وہ تو یہاں رہتے ہوئے بہت بھلی لگتی ہے۔ ایک دن میں ایک لاجواب تصویر بناؤں گا، پھر ہم سب اٹلی جائیں گے اور نیپلز بھی۔ ہاں، لیکن چلو آج تو میں تمہارے لئے '' ماڈل '' بن جاتا ہوں۔ دونوں اوپر جاتے ہیں۔ جونسی سو رہی تھی سُو نے اپنی دوست کے کمرے کی کھڑکی کا پردہ گرا دیا، پھر وہ بہرمین کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ دونوں پرانی بیل کو دیکھنے لگے۔۔ باہر برفیلی بارش ہو رہی تھی۔
'' لگتا ہے جلد ہی برفباری ہونے والی ہے۔ '' سُونے سوچا۔بہرمین بیٹھ گیا اور سُو اس کی تصویر بنانے لگی۔اس رات، طوفان آیا۔ موسلادھار بارش کے علاوہ ہوا بھی بہت تیز تھی۔ جونسی اگلی صبح جلدی جاگ گئی۔ '' پردہ ہٹاؤ۔ '' اس نے سُو سے کہا۔اس نے پردہ ہٹا دیا۔ بیل پر ابھی بھی ایک پتا باقی تھا۔ یہ پتا زردی مائل گہرا سبز تھا اور یہ زمین سے کوئی بیس فٹ کی اونچائی پر ایک شاخ سے لٹک رہا تھا۔''یہ آخری پتا رہ گیا ہے۔ ''، جونسی بولی، '' اور یہ آج گر جائے گا اور ساتھ ہی میں بھی مر جاؤں گی۔ ''سُو نے اپنا منہ جونسی کے منہ کے قریب لائی اور آہستگی سے کہا:'' ایسا نہیں کہتے، جونسی، میں نہیں چاہتی کہ تم مرو۔ ''جونسی آگے سے کچھ نہ بولی۔
پتا سارا دن بیل کی شاخ پر لٹکا رہا۔ اس رات پھر بارش ہوئی اور تیز ہوا بھی چلی۔صبح جونسی پھر سے جلد اٹھ گئی۔۔ '' پردہ ہٹاؤ، '' وہ بولی۔پتا ابھی بھی بیل پر موجود تھا۔ جونسی بستر میں لیٹی دیر تک اسے دیکھتی رہی پھر اس نے سُو کو بلایا۔'' میں بھی کتنی پاگل لڑکی ہوں، سُو، وہ بولی، میں مرنا چاہتی تھی جبکہ یہ آخری پتا بیل پر موجود رہنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھے زندگی کا سبق دیا ہے۔مہربانی کرو اور اب مجھے ایک پیالہ '' سوپ '' کا لا دو۔ ایک گھنٹے بعد جونسی پھر سے بولی:‘‘سُو، میری پیاری،’’ وہ بولی، '' میں ایک دن ضرور خلیج نیپلز کی تصویر بناؤں گی۔''دوپہر میں ڈاکٹر لڑکیوں سے ملنے آیا۔ اس نے جونسی کا تفصیل سے معائنہ کیا اور پھر سُو کے دبلے پتلے ہاتھ کو پکڑ کر کہنے لگا:'' اپنی دوست کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال کرو، یہ اب جلد ٹھیک ہو جائے گی۔ اب مجھے نچلی منزل پر جانا ہے۔ میں نے مسٹر بہرمین کو بھی دیکھنا ہے۔ انہیں بھی نمونیا ہو گیا ہے۔ انہیں تو مجھے ہسپتال بھیجنا ہو گا۔
اگلے دن ڈاکٹر نے سُو سے پھر بات کی۔'' تمہاری دوست اب بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی ۔ '' پھر اس نے اسے کچھ اور خبر بھی دی۔اس دوپہر سُو جونسی کے کمرے میں گئی اور اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بولی:مسٹر بہرمین آج صبح ہسپتال میں انتقال کر گئے، دو روز قبل ان کے ہمسایوں نے انہیں اپنے کمرے میں بہت بیمار پایا تھا۔ ان کے جوتے اور کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر کو بلا لیا، بعد میں ایک ہمسایے کو صحن میں ایک سیٹرھی پڑی نظر آئی۔ اس کے ساتھ ایک لیمپ بھی تھا، کچھ برش اور سبز و زرد رنگ بھی تھے۔''
'' جونسی، کھڑکی سے باہر دیکھو، '' اب اس کی آواز مدہم تھی، '' بیل پر لٹکے آخری پتے کو دیکھو۔ یہ ابھی بھی وہیں ہے۔۔ اسے دیکھ کر تمہیں حیرانی نہیں ہوئی کہ یہ توہوا میں لہرا
 بھی نہیں رہا۔۔ یہ بہرمین کی'' لاجواب تخلیق '' ہے جو اس نے اس طوفانی رات میں مصور کی تھی۔
٭٭٭
او، ہنری کی مندرجہ بالا کہانی '' The Last Leaf '' کے نام سے اس کی کہانیوں کی کتاب ‘‘The Trimmed Lamp and Other Stories’’ میں 1907ء میں شائع ہوئی تھی۔۔ اس کہانی کی دو ورژنز ہیں۔۔ ایک انگریزی کے 2375 الفاظ پر مشتمل ہے جبکہ دوسری 1360 الفاظ پر مشتمل ہے۔۔ یہاں 1360 الفاظ والی ورژن کا ترجمہ کیا گیا ہے۔

بشکریہ : مصنف ’ او ہنری ترجمہ ’ قیصر نذیر خاور