اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : مئی 2018

کلاک ٹاور 
ہم جب بندرگاہ یا کونیالٹی بیچ کا نظارہ کر رہے تھے تو ایک طرف کوفصیل شہر بھی نظر آئی تھی جس کا تذکرہ پہلے کیا ہے۔یہ فصیل شہر معدوم ہو چکی ہے بس کہیں کہیں سے کچھ ٹکڑے بچے ہیں۔اس کے جو کھنڈرات باقی ہیں ،اُن میں سے ایک یہ کلاک ٹاور ہے۔ظاہر ہے شہر کی حفاظتی دیوار میں برج اورٹاور بنائے گئے ہونگے، باقی برج اور ٹاور تو زمانے کی دست برد سے نہیں بچ سکے البتہ یہ ایک ڈھانچہ موجود ہے،جس پر نہ جانے کب کا لگا ایک کلاک بھی نظر آرہا ہے۔ سُنا ہے کہ اس دیوار پر اس قسم کے ۸۰ٹاوربنائے گئے تھے۔یہ کلاک ٹاور انطالیہ شہر کا آئی کان ہے۔پرانے شہر کی یہ مرکزی جگہ ہے۔شہر میں آپ کہیں سے بھی داخل ہوں،راستے آپ کو اس چوک میں لے آئیں گے جس پر یہ کلاک ٹاور ایستادہ ہے۔اس قدیمی کلاک ٹاور کے اردگرد، جدید ،روشن،بلند و بالا عمارات ،قدیم و جدید کا ایک حسین امتزاج ہے ۔یہ شہر کا سینٹر ہے۔لوگ جوق در جوق یہاں آتے، بیٹھتے ،گپ شپ لگاتے،ہلکی پھلکی ریفریش مینٹ کرتے اور چلے جاتے ہیں۔میرے سامنے ایک چوکور چبوترا سا ہے جو سرخ اینٹوں یا غالباً سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے۔پتھروں کی قدامت بڑی واضح اور پُر عظمت لگتی ہے۔اس کی ٹھیک لمبائی چوڑائی کا تو میں کوئی بیان نہیں دے سکتا البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ کوئی زیادہ بلندڈھانچہ نہیں ہے۔ٹاور کے لفظ سے گمان گزرتا ہے کہ شاید یہ کوئی سینکڑوں فٹ بلند مینار ہوگا،نہیں ایسا نہیں ہے۔یہ دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔نیچے والا حصہ زیادہ چوڑا ہے اور اس کے اُوپر ایک کم چوڑائی کا برج ہے جس میں چاروں طرف گھڑیال لگائے گئے ہیں۔عمارت کی بناوٹ میں دلکشی ہے۔اُوپر ترکی کا سرخ رنگ کا قومی جھنڈا بھی لہرا رہاہے۔یہ ٹاور اندازاً ۴۰ فٹ بلند ہوگا۔اس کے آس پاس خاصی رونق تھی۔ہم اس کو تھوڑا سا وقت دے کرآگے نکل گئے۔
حیدرین گیٹ
یہ پورا علاقہ ہی قدیم و جدید کا امتزاج ہے۔ چلتے چلتے ہم بازار میں آ گئے۔دوستوں نے کچھ شاپنگ کرنی تھی وہ دکانوں میں گھس گئے اور خاکساربازار کی رونق کا نظارا کرنے لگا۔ہوٹلز،چائے خانے،خوانچے والے، ریڑھی والے اورفروٹس شاپس، وغیرہ وغیرہ اوراُن میں موجود گاہک منظر کودلکش بنا رہے تھے۔ٹرام بھی چل رہی تھی۔زائرین کی خاطر داری کے لیے قدیمی طرز کا ، خوبصورتی سے سجایا گیا گھوڑا تانگہ بھی موجود تھا۔ایک چھوٹے سے چوک میں ایک مجسمہ نصب تھا۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ انطالیہ شہر کے بانی شہنشاہ پرگیمن اطالوس دوئم کا ہے۔اسی قدیمی علاقے میں حیدرین گیٹ تھا۔یہ شہر کی فصیل میں بنایا گیا تھا۔اس راستے سے،دوسری صدی عیسوی میں،رومی شہنشاہ حیدرین،گزر کر شہر میں داخل ہوا تھا۔شہری حکومت نے اُن کے اعزا زمیں یہ دروازہ تعمیر کروایا تھا۔وہ سن ۱۳۰ء میں یہاں تشریف لایا تھا۔صدیوں پرانا یہ دروازہ واقعی قابلِ دید ہے۔اس کو ٹرپل گیٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ تین خوبصورت محرابوں پر مشتمل دروازہ ہے۔ فرنٹ پر سنگِ مرمر کے پانچ ستون ہیں اُن کے پیچھے کالم اور اُن پر پتھروں سے بنی محرابیں بنائی گئی ہیں۔کہتے ہیں کہ ملکہ بلقیس بھی اسی گیٹ سے گزریں تھیں جب وہ اس شہر میں تشریف لائی تھیں اور ایک دن یہاں قیام بھی کیا تھا اور یہیں سے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات کے لیے گئی تھیں۔یہ سب کچھ ہماری گائیڈ کا کہنا تھا،اب واللہ اعلم،تاریخ اس کی تائید کرتی ہے کہ نہیں۔
رات کافی ہو چکی تھی،ہم رات سے سفر میں تھے،تھکاوٹ ہماری بدن سے پوری طرح عیاں تھی،لہٰذا ہم نے واپسی کی ٹھان لی اگرچہ ابھی اس قدیمی علاقے میں دیکھنے کو بہت کچھ باقی تھا۔ 
ہوٹل بوفے
ہوٹل واپس آکر فوری طور پر ہوٹل کے ڈائینگ ہال میں آگئے کیونکہ ڈنر کے اختتام کا وقت قریب تھا۔یہ ہال چھٹی منزل میں تھا۔ہم وہاں پہنچے، بوفے لگا ہواتھا۔مختلف کھانے اورنہایت خوبصورت اشیائے خور و نوش ،خوبصورتی سے سجے تھے ۔ایک دیدہ زیب منظرتھا،اللہ جانے ذائقے کیسے تھے اُن چیزوں کا جائزہ لیناشروع کیا،میرے لیے توسب چہرے اجنبی تھے، میں کوئی شناسا چہرہ دیکھ رہا تھا۔اکثر کھانوں کی نہ شکل شناسا تھی اور نہ ہی رنگ،نہ جانے ذائقہ کیسا ہوتا۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، ناچارکچھ سلاد کے پتے ،چندکھیرے کے ٹکڑے ، اور کچھ اسی قبیل کی دیگر چیزیں پلیٹ میں ڈالیں،آگے نکلا،آگے ایک برتن میں بڑے گوشت کے ٹکرے نظر آئے، ہمارے ہاں کے نمکین گوشت کی شکل تھی،شکر کیا کہ کوئی تو شناسا چہرہ نظر آیا،اس کے کچھ ٹکڑے بھی پلیٹ میں ڈالے،اب حسب عادت روٹی یا نان تلاش کیے لیکن وہ نظر نہ آئے،بہر حال یہی سوچ کر کہ گندم کی تندوری روٹی ابھی شاید یہاں نہیں پہنچی، ٹیبل پر آگیا۔میرے دیگر احباب بھی کچھ اسی قسم کی صورتحال کا شکار تھے۔ہم نے ایک بار تو اس پلیٹ کو خالی کیا ، یعنی جو لا یا تھا ،اس کو کھا لیا،اور دوسری بار پھر کھانوں کے مرکز کی طرف گیا ،شاید کوئی اور شناسا مل جائے لیکن سالن روٹی قسم کی تو کوئی چیز نہ ملی البتہ پھلوں کے ٹوکرے میں تربوز تشریف فرماتھا،بڑا خوش شکل،دیدہ زیب قاشیں، عمدگی سے سجی تھیں۔اور تو کچھ نہ سوجھااُس کی ہی پلیٹ بھر لایا کیونکہ تربوز سے ہماری پرانی یاد اللہ تھی۔ اس موقع پر بندہ نے اس پھل کوخوب انجوائے،ایک تو اس لیے کہ یہ تھا ہی بہت مزیدار، ٹھنڈا،سرخ اور میٹھا، دوسرا اس نے ہمیں اپنا طالب علمی کا زمانہ یاد کرادیا جب خاکسار میڈیکل کا طالب علم تھا ، میرا وہ دوربے پناہ غربت کازمانہ تھا،کالج کا باقاعدہ میس ایفورڈ نہیں کرسکتا تھا،تو پیٹ بھرنے کے لیے کئی بار صرف آدھا تربوز خرید کر اُس سے ایک وقت کے کھانے کا کام لیتا تھا ۔وہ زمانہ غربت بھی میرے سوہنے رب کی عنایت تھی اور آج کی خوشحالی بھی اُس مالک کا کرم اور فضل ہے۔
الحمد للہ علیٰ کل حال۔ 
انطالیہ:
آج انطالیہ شہر میں ہمارا پہلا دِن تھا اور یہ بڑا بھر پور اور تھکا دینے والا دن تھا۔قبل ازیں، تاریخ کی کتابوں میں ہم نے انطاکیہ کا نام سن رکھا تھا اوریہ انطالیہ تھا ۔یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ دو مختلف شہر ہیں،دونوں ترکی میں ہیں۔انھی سے ملتا جلتا ایک اورلفظ ہے ،اناطولیہ،یہ ترکی کے اس بڑے حصے کو کہتے ہیں جو براعظم ایشیا میں ہے۔ انھی سے ملتا جلتا ایک اور لفظ اطالیہ ہے ،یہ اِٹلی کا اردو ترجمہ ہے یعنی اِٹلی کو اردو میں اطالیہ کہتے ہیں۔ بہر حال،ہم آج انطالیہ میں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ قدیم یونانی سلطنت پر گیمن کے شہنشاہ اطالوس دوئم نے لگ بھگ دو ہزار سال پہلے ،اپنے جنگجوؤں کو یہ احکامات دیتے ہو ئے کہا کہ،’’جائیے ،اور میرے لیے زمین پر ایسا سرسبز و شاداب ٹکڑا تلاش کیجیے جس کو دیکھ کر ہر آدمی عش عش کر اُٹھے اور اس سرزمیں سے محبت کرنے پر مجبو ر ہو جائے۔ ایسا ٹکڑا تلاش کیجیے کہ لوگ اُسے دیکھ کر دنگ رہ جائیں اور اپنی نظریں وہاں سے ہٹا نہ پائیں۔جائیے اور زمین پر جنت تلاش کیجیے۔‘‘اُس کے جانباز جنت کی تلاش میں نکل پڑے۔ایک طویل اور پرمصائب سفر کے بعد،جس میں وہ ملکوں ملکوں گھومے اور آخر کا ر وہاں آ پہنچے جہاں آجکل انطالیہ واقع ہے۔جب انھوں نے یہاں کے مناظر فطرت دیکھے اور دل موہ لینے والے لینڈ سکیپ کو ملاحظہ کیا تو مبہوت رہ گئے اور یک زبان ہو کر پکار اُٹھے کہ یہی ہے وہ جنت ارضی جس کی ہمیں تلاش تھی۔ انھوں نے واپسی کے لیے سرپٹ گھوڑے دوڑائے کہ اپنے بادشاہ کو جلداس تلاش کی خبر پہنچائیں۔شہنشاہ اطالوس نے جب اپنے لوگوں کی زبانی اس سرزمین کی خوبصورتی کی کہانیاں سنیں تو وہ خودہی اس جنت ارضی کو دیکھنے کے لیے اپنے لاؤ لشکر سمیت چل پڑا۔وہ جب یہاں آیا تو اس علاقے کے قدرتی حسن کو دیکھ کر، وہ بھی ششدر رہ گیا اورکہنے لگا کہ ہاں واقعی یہ زمین پر فردوس بریں ہے۔ اُس نے اپنے وزیروں کو حکم دیا کہ یہاں پر ایک عظیم الشان شہر آباد کیا جائے۔ پرگیمن کے کاریگروں نے جلد ہی یہاں ایک شہر تیار کر لیا اور اس کا نام اپنے بادشاہ کے نام پر اطالوسیہ رکھا جو بعد میں بگڑتے بگڑتے انطالیہ بن گیا اور اسی انطالیہ میں آج ہم مہمان ٹھیرے تھے۔ 
دوسرا دِن 
جمعۃالمبارک ۲۲۔ستمبر ۲۰۱۷ء
جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں:
آج صبح صبح پانچ بیس پر آنکھ کھلی ہڑ بڑا کرجاگا کہ ہمارے ہاں اس وقت نماز فجر ہو چکی ہوتی ہے اور میں لیٹ ہو گیا تھا۔فوراً اُٹھ بیٹھا ،ماحول سے شناسائی ہوئی، تو یہ تسلی ہوئی کہ گھر نہیں بلکہ وطن سے دور انطالیہ میں ہوں وگرنہ تو،لیٹ ہونے پر اباجی کی ڈانٹ کاسامنا کرنا پڑتا ۔الحمد للہ پڑھتا ،بیڈ سے اُترا اور کھڑکی کاپردہ ہٹایاتا کہ یہ دیکھوں کہ یہاں کے کیا حالات ہیں،کہیں سورج نکل تو نہیں آیا،لیکن باہر ہو کا عالم تھا اور اچھا بھلا اندھیرا چھایا تھا۔اب سوچنے لگا کہ کیسے معلوم ہو کہ یہاں پر نماز فجر کا اور طلوع آفتاب کا کیاٹائم ہوگا،فوراً خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت گوگل دام برکاتہ کی خدمات لی جائیں۔ لہٰذااُس جن کوحاضر کر کے یہ کہا کہ مجھے انطالیہ میں نمازِ فجر کا وقت بتاؤ۔وہ اُلٹا مجھ سے سوالات کرنے لگ گیا،ابھی میں اسی کشمکش میں تھا کہ قریبی مسجد سے آذان فجر کی روح پرورآواز گونجی۔اللہ کا شکر ادا کیا اورنماز کی تیاری میں لگ کیا۔رات کا آخری پہر،شہر میں سکوت طاری تھا اور اُس میں اللہ کی کبریائی کااعلان گونج رہا تھا۔اس اذان کے اندر جو رقت اور نرمی تھی اُس کا الگ ہی سماں تھا۔یہ دِل پررحمت باری کی رم جھم برسا رہی تھی۔یہ تو طے کر لیا کہ مسجد ہی جا کر نماز پڑھوں گا ،ایک توڈھیروں ثواب سمیٹوں گا ،دوسرے ترکی میں نماز،نمازیوں اور اس طرح کی دیگر دینی کیفیات ورسومات کو سمجھنے کا موقع بھی مل جائے گا۔وضو کررہا تھا اور اندر سے یہ سوچ سوچ کر ڈر بھی رہا تھا کہ یہاں اجنبی ہوں،اندھیرا ہے،ویرانہ ہے ،چار سو سناٹا ہے،کوئی چور اُچکا،کوئی ڈاکولٹیرا نہ پڑجائے ، یا پویس کا کہیں نہ ہو پہرااور کہیں ان کے ہتھے نہ چڑھ جاؤں، غرض کئی سوالا ت وتفکرات تھے۔میرے دیگر ساتھی اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ بہرحال ،تیاری کر کے،اللہ توکل ،ہوٹل سے باہر نکل آیا۔موسم بہت سحر انگیز تھا۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔سناٹا طاری تھا، سڑکیں ویران تھی،نہ کوئی گاڑی نہ کوئی سواری،نہ کوئی کار،اور نہ کوئی پیدل بندہ ، کچھ بھی نہ تھا ،بس میں تھا یا پھر خوابیدہ منظر۔اتنے میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آئیں،میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے،یہاں پرآوارہ کتے ہوں گے ،یہ تو میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا۔کافی خوف زدہ ہوگیا۔ایک بار سوچا کہ واپس چلا جاؤں ۔ کیوں اپنی جان گنواؤں لیکن چلتا رہا۔کتوں کے بھونکنے کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں لیکن اسی اثنا میں مجھے مسجد نظر آ گئی اور میں بہ سلامت مسجد میں داخل ہوگیا۔بعدمیں معلوم ہوا کہ یہاں انطالیہ میں ہر کتا رجسٹرڈ ہے۔بلدیہ ان کو ٹیکے لگاتی ہے۔ان کے کانوں میں شناختی کارڈ والی ringsڈال دی جاتی ہیں۔ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیںیہ بالکل بے ضرر ہیں۔میرے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی اور واقعی بعد میں، میں یہ نوٹ کرتا رہا،کہ یہاں کتوں کی کثرت تھی،وہ خوب موٹے تازے اور بڑے مرنجاں مرنج قسم کے کتے تھے اور ان کے کانوں میں بالیاں بھی موجود ہوتی تھیں۔بلیوں کا بھی یہی معاملہ تھا ۔وہ بھی بکثرت تھیں اور بلدیہ سے vaccinatedتھیں۔یہ ہوتا ہے ترقی یافتہ ملک۔
شیریں تلاوت کی حلاوت
یہ جامع مسجد ترمذی تھی۔میں اس میں داخل ہوا۔دو چار آدمی پہلے سے موجود تھے۔میں نے ایک آدمی سے،اُسے انتظامیہ کا بندہ جان کر ،جماعت کا وقت پوچھا تووہ بس مسکرا کر رہ گیا یعنی ’’زبان یار من ترکی،ومن ترکی نہ دانم‘‘ والا معاملہ تھا۔میں مسجد میں لگے کیلنڈرکی طرف لپکا،اُس سے بھی بس اندازہ ہی لگاپایا کہ ۰۵ء۶ پر جماعت ہوتی ہوگی کیونکہ وہ کیلنڈر بھی ترکی زبان میں تھا۔کچھ لوگ سنتیں ادا کر رہے تھے،میں نے دو رکعتیں ادا کیں اوراپنے موبائل میں موجود قرآن مجیدکی تلاوت کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد،تکبیر کی آواز بلند ہوئی،دیکھا تو مسجدکے ایک کونے میں ،نہ کہ پہلی صف میں،کھڑا ایک آدمی تکبیر پڑھ رہا ہے اور لوگ صف بنا رہے ہیں۔میں بھی کھڑا ہوا اور پہلی ہی صف میں اپنی جگہ بنائی۔اتنے میں ایک بغیرداڑھی کے صاحب،پینٹ شرٹ پہنے آگے بڑھے ،مسجد کے کونے میں لٹکا ایک خوبصورت چغہ اُتارا، اُسے زیب تن کیا،ساتھ ہی کھونٹی کے ساتھ لٹکا ایک دیدہ زیب عمامہُ اتارا اور اُسے اپنے سر پر سجا کر امامت کے مصلیٰ پر تشریف لے آئے اور تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرادی۔اب، نوجوان امام نے جب تلاوت قرآن شروع کی تومیں ان کی سحر انگیز آواز اور عمدہ تلاوت میں کھو کر رہ گیا۔ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ النسا ء سے ایک رکوع تلاوت کیا اور ایک سماں باندھ دیا۔دوسری رکعت میں بھی اس نوجوان کی شیریں تلاوت کی حلاوت میں مگن رہا۔ اذان،تکبیر اور امام صاحب کی ساری نماز حنفی طریقے کے مطابق تھی۔ سلام پھیرنے کے متصلاًبعد پچھلی صف سے مکبر صاحب کی آواز گونجی،اللہ اکبر،اللہ اکبر،استغفراللہ،اللھم انت السلام یا ذاالجلال والاکرام۔اس کے خاتمے پر ،قبلہ کی طرف منہ کیے ،امام صاحب نے مختصر سی دُعا کروائی اورپھر سامعین کی طرف منہ پھیر کربیٹھ گئے۔نمازی بھی اِدھر اُدھر ہو کر مسجد میں ہی میں بیٹھ گئے کوئی باہر نہ نکلا۔مسجد میں تسبیحیں پڑی تھیں۔سب نے ایک ایک لے لی۔میری طرف بھی امام صاحب نے ایک تسبیح پھینکی۔اب پھر مکبر صاحب کی آواز گونجی،مجھے کچھ سمجھ نہ آیا،صرف آخر میں ’’سبحان اللہ‘‘ کا فقرہ سمجھ آیا۔لوگ تسبیحوں پر کچھ پڑھنے لگے، میں بھی سبحان اللہ کا ذکر کرنے لگ گیا۔۳۳ بار پڑھنے کے بعد،پھر مکبر صاحب کی آواز گونجی،جس کا میں نے یہ مفہوم جانا کہ یہ کہہ رہے ہیں اب الحمد للہ پڑھو ،سو سب نے یہ ذکر کیا ۳۳ بار،پھر مکبر صاحب کی آواز گونجی کچھ پڑھنے کا حکم دیا جس کا مطلب میں نے یہی سمجھا کہ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ سب اللہ اکبر پڑھو،سو سب نے ۳۴ بار اللہ اکبر کا ذکر کیا۔یہ سارا عمل لوگوں نے اپنے دِل میں کیا ،یعنی تسبیحات فاطمہ کا یہ ذکر سری تھا جہری نہیں۔جہری ہوتا تو مجھے سمجھ بھی آجاتا۔اس کے بعدامام صاحب نے دعا کروائی۔پھر امام صاحب نے سورہ حشر کی آخری دو آیات کی بڑی خوبصورت آواز میں تلاوت کی اور دعا کے لیے ایک بارپھر ہاتھ اُٹھا دئیے۔اب کی بار وہ اپنی زبان میں دعا مانگ رہے تھے۔آخرمیں انھوں نے کہا الفاتحہ،تو سب مقتدیوں نے سورہ فاتحہ اپنے دِ ل میں پڑھی،اور پھر امام صاحب نے درود پڑھ کر دعا ختم کردی اور لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے سے ملتے ، ہاتھ ملاتے مسجد سے باہر نکلنے لگے۔جماعت کے بعد ،ذکر کی یہ شکل ، ہمارے ہاں تو کہیں مروج نہیں،البتہ ترکی میں جہاں بھی موقع ملا نماز پڑھنے کا ،یہ سلسلہ دیکھا۔کل رات بھی قدیم انطالیہ کی سیر کرتے ہوئے،جس مسجد میں ہم نے نماز مغرب پڑھی تھی،اس میں بھی جماعت کے بعد ایک بچہ یہ کام کر رہا تھا۔ نماز میں چالیس پچاس آدمی ہوں گے،زیادہ تر بوڑھے تھے،باقی نوجوان بھی تھے اور بچے بھی۔ سب پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے۔ کچھ ننگے سر اور کچھ نے ٹوپیاں پہنی تھیں۔ میں بھی مسجد کے باہر آگیا۔مسجدکے مین ہال کے باہر،جوتوں کے خوبصورت ریکس بنے تھے ان پر نمبر لکھے تھے۔ ایک خاص چیزجو ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ جوتوں کے ریکس کے اُوپر،وہ چمچہ نما اوزار موجود تھا جس کے ذریعے آپ اپنے بند بوٹوں میں بہ آسانی اپنی ایڑیاں اندر ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ چمچہ نما پرزہ صرف جوتوں کی بڑی بڑی دکانوں پر ہی نظر آتا ہے ،لیکن اسے یہاں مسجد میں دیکھ کر خوشی ہوئی کیونکہ مجھے اس پرزے کی وہاں موجودگی کا بڑا فائدہ ہوا کیونکہ میرے بوٹ نئے تھے اور اُس کے ذریعے بڑی سہولت ہوتی تھی۔ 
نماز پڑھ کر میں مسجد سے باہر آیا ،اب کچھ زندگی رواں ہو رہی تھی۔کچھ ٹریفک چل پڑی تھی۔ہوٹل پہنچ کر ،میں ہوٹل کے لان میں آگیا۔یہاں ایک بڑا خوبصورت اور حیات آفریں باغ بنایا گیا ہے۔ایک طرف کوتیراکی کا تالاب بھی ہے۔ایک روش پہ چلتا چلتا آگے گیا ،تو کیا دل نشین منظر میرا منتظر تھا۔یہ روش مجھے بحیرہ روم کے ساحل پر لے گئی تھی،گویا ہمارا یہ ہوٹل ساحل سمندر پر تھا۔ہاں البتہ جس سطح پر میں کھڑا تھا یہ سمندر سے کافی اُوپر تھی۔بہر حال صبح سویرے، رب کریم کی صناعی کے اتنے عظیم الشان مظہر کو دیکھ کر جی باغ باغ ہو گیا۔
میں ہوٹل میں واپس آیا تاکہ تیاری کرلی جائے کیونکہ۹بجے ہم نے شہر کی سیر کو نکلنا ہے۔ناشتہ اسی ہوٹل کے ڈائینگ ہال میں ہوناہے۔ آبشارِدُودَن دریا
زیریں آبشار:
بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ہمارے بلوچستان میں ایسے ندی نالے ہیں جو زیر زمین چلتے ہیں ۔یہ بات سمجھ بھی نہیں آتی تھی اورکبھی یہ منظر دیکھا بھی نہیں تھا۔اللہ کی قدرت کا یہ مظہرphenomenon، ہم نے انطالیہ میں آکر مشاہدہ کیا۔ اپنے دورہ کے دوسرے دن جمعۃالمبارک کو ہماری گائیڈ نے ہمیں ہوٹل سے لیا اور یہ بتایا کہ آج ہم دودن دریا کی آبشار دیکھیں گے یہ دریا یا نالہ شہر میں زیر زمین چلتا ہے ۔شہر انطالیہ کے ارد گرد، موجود طورس پہاڑ جو ہمیں شہر کی سڑکوں پہ چلتے ہو ئے نظر آتا رہتا تھا، اس سے یہ دریا نکلتا ہے ۔ زیر زمین چلتا ہے اور کہیں کہیں بر سر زمین آ کربھی اپنا دیدار کراتا ہے ۔ مختلف سڑکوں، شاہراہوں اور چوکوں سے گزرتے ہو ئے جلدہی ہم ایک پارک میں آ گئے۔سمندر کے کنارے پر،واقع،یہ ایک چھوٹاساخوبصورت پارک تھا۔اس کے ایک طرف گاڑی کھڑی کر کے ہم لوگ باہر نکل آئے۔دریائے دودن یہاں آکر سمندر میں ،ایک آبشار کی شکل میں گرتا ہے ۔سطح سمندر یہاں سے قریباً۴۰ یا ۵۰ میٹر نیچے ہے ،چنانچہ یہاں سے دریا کا سمندر میں گرنا ایک آبشار کی شکل اختیار کرگیا ہے اور یوںیہ ایک انتہائی دلفریب اور دلکش نظارہ بن جاتا ہے،جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہم یہاں آئے تھے۔ دریا کا پانی سفید موتیوں کی مالا کی طرح چمک رہا تھا اوراُس دلفریب دھارکی شکل میں، ایک مترنم آواز سے سمندر کی گہرائیوں میں اُتر رہا تھا۔ سمندر کا پر سکون اور تاحد نظر پانی اور اُس میں دریا کا پر زور انداز سے شامل ہو ناایسے ہی تھا جیسے نرم اور محبت بھری آغوشِ مادر میں ایک نٹ کھٹ ،چلبلاتا اور ہر دم متحرک و مشتعل بچہ آ گرتا ہے اور سکون پاتا ہے ۔یہ نہایت خوبصورت منظر تھا ، ماحول میں پانی کی پھوار اور سمندر کی ٹھنڈک کا احساس نمایاں تھا ۔ اس آبشار کو زیریں دودن آبشار کہتے ہیں ۔ 
دریا کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں دریائے سندھ ،چناب و جہلم آجاتے ہیں جن کے پاٹ وسیع و عریض ہیں لیکن یہ دریا اُن کے مقابلے میں توایک بچہ ہی معلوم ہوتاہے ،محض ایک سیلابی نالہ ۔میں جہاں سے کھڑاہو کر آبشار کا نظارہ کر رہا تھا وہ عین آبشارکے اُوپر کی جگہ تھی اوریکدم میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھا،میں نے اپنی گائیڈ سے کہا،’’میڈم یہ کیاماجرا ہے،نیچے سمندر میں تو پانی گرتا نظر آرہا ہے لیکن اُوپر دریا تو نظر نہیںآرہا،وہ کدھر ہے؟ایسے لگتا ہے جیسے کسی بڑے سے پائپ سے پانی آرہا ہو۔‘‘وہ مسکرائی اورکہنے لگی،’’ یہ دریا زیرزمین(under ground) بہتا ہے۔‘‘ یہ بات سن کر ہم سب حیران ہوئے ۔’’جہاں ہم کھڑے ہیں اس سے کئی میٹر نیچے زمین میں یہ دریا چل رہا ہے ۔ایک بالائی دودن آبشار بھی ہے‘‘ گائیڈ کہنے لگی ’’اب اُدھرکو چلتے ہیں وہاں جا کر آپ کو یہ phenomenonاچھی طرح سمجھ آ جائے گا۔ وہاں ایک زیادہ خوبصورت منظر آپ کا منتظر ہے ۔ اور زیادہ وقت ہم نے وہاں صرف کرنا ہے۔‘‘ اور یوں دو چار سیلفیاں لینے اور ایک آدھ گروپ فوٹو لینے کے بعد، جلد ہی ہم بالائی دودن فال کی طرف روانہ ہو گئے ۔ 
بالائی دودن فال:
شہر کی مختلف سڑکوں اور شاہراہوں سے گزرتے رہے ، ٹریفک کی پر سکون روانی ، شہر کا صاف ستھرا ماحول ، آلودگی سے پاک فضا اور دلفریب موسم نے دل موہ لیا تھا ۔ عظیم الشان کثیرمنزلہ عمارتوں سے گزرتے ہو ئے ایسا معلوم ہو تا تھا کہ جیسے یہ شہر دس پندرہ سالوں کے اندر اندر بسایا گیا ہے ۔ عمارتوں پر تازہ پینٹ اور عموماً ایک جیسا اسٹائل یہ احساس دلاتا تھا کہ ہم کسی قدیمی شہر سے نہیں بلکہ ایک جدید شہر سے گزر رہیہیں۔دوکانوں،عمارتوں اور شاہراہوں پر لگے سائن بورڈ اگرچہ ہمیں ہی اطلاعات پہنچانے کے لیے لگے تھے مگر وائے افسوس کہ زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم ، میرے محبوب کی زبان ترکی ہے اور افسوس کہ میں ترکی نہیں جانتا ،والی بات تھی ۔ ہم بس،شاہراہوں پر سے گزر رہے تھے اور کوئی خبر نہ پا سکے کہ کہاں کہاں سے گزرے بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم اُس پارک میں پہنچ گئے جو ہماری منزل تھا ۔ اس پارک کی سیاحت کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا تھا مگر ہم نہ جان سکے کہ ہماری گائیڈ نے ٹکٹ کتنے میں خریدا اس لیے کہ ٹکٹ وغیرہ خریدنا ہماری گائیڈ کی ذمہ داری تھا اور کمپنی کی طرف سے یہ امر طے شدہ تھا کہ سارا خرچہ کمپنی نے اٹھانا ہے ۔
وطن عزیز کی طرح،یہاں بھی ریڑھی والے موجود تھے جو مختلف قسم کی اشیاءِ خورونوش فروخت کر رہے تھے۔ایک خوانچے والے کے پاس خوبصورتی سے کٹے،برف پر رکھے ، تروتازہ کھیرے سجے تھے۔اُن کھیروں نے ہمیں اپنی طرف attractکیا۔نہایت نرم،عمدہ ذائقہ والے اورسائز میں کافی لمبے لمبے کھیرے تھے۔جی خوش ہو گیا۔اُس کے پاس کھیروں کی ایک اورقسم بھی تھی جو اپنے ہاں کبھی نہیں دیکھی تھی،یہ گول گول ، بڑے سیب کے سائز کے کھیرے تھے،نرم اور ذائقہ دار۔یہ ایک وسیع و عریض پارک تھا ،دریائے دودن یہاں بھی اپنا دیدار کراتا ہے۔ہم ایک خوبصورت گیٹ سے اندر داخل ہوئے،سامنے ایک بہترین باغ تھا۔پہلے تو ہم نے باغ کا نظارہ کیا ۔پھر چلتے چلتے اُس جگہ پہنچے جہاں نیچے جھانکنے پر ہمیں وہ آبشار نظر آئی جسے زیریں دودن آبشار کہا جاتا ہے ۔اس کے پانیوں تک پہنچنے کے لیے ہمیں ایک غار نما راستے سے گزر کر نیچے جاناتھا۔غار میں اُترنے کے لیے ہم آگے بڑھے ۔کشادہ راستہ تھا۔سیڑھیاں نیچے اُتر رہی تھیں۔ایک سنسنی خیزماحول تھا۔یہ ایک قدرتی قسم کی غار تھی ۔روشنی اور ہوا کے لیے کہیں کہیں سے open تھی۔سیلن اورکہیں کہیں سے ٹپکتا ہوا پانی،مختلف بیلوں کی لٹکتی شاخیں،اُڑتے چمگادڑ اور آبشار کے گرتے ہوئے پانی کا شور،سب کچھ نے مل کر اس غار نما راستہ کاعجیب سنسنی خیزماحول بنا دیا تھا لیکن اس میں کوئی ڈراؤنا پن نہیں تھا بلکہ خوشگوار اور دلفریب ماحول بنا دیا تھا۔ سب کچھ دلکش اورسکون آمیز تھا۔اب ہم کافی نیچے اُتر آئے تھے اورہمارے سامنے وسیع کھلی جگہ آ گئی تھی۔یہاں ایک view point بنایا گیا تھا۔اب دریا کا پانی نیچے گرتا ہوا صاف نظر آرہا تھا۔یہ بالائی آبشار ،پہلے دیکھی ہوئی، زیریں آبشار سے کہیں بڑی تھی۔پانی ،گنگناتا ہوا،جھاگ اُڑاتا ہوا،اُوپر سے نیچے گرتا ہے اور ایک جھیل سی بننے لگتی ہے ۔یہ جھیل openدریا کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔اور کچھ دور جا کر دریا پھر زیر زمین چلا گیا ہے ۔ہم نے تویہاں رک کر، محض آبشار اور جھیل کا نظارہ کرنے پرہی اکتفا کیا مگر کچھ منچلے مزید نیچے اُتر کر،جھیل میں تیراکی اورغسل کالطف لے رہے تھے۔ہم مزید آگے بڑھے اور مختلف ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتے ہو ئے ، کچھ سیڑھیاں مزید نیچے اُترتے ہوئے،ہم بالکل آبشار کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ بڑا ہی خوبصورت منظر ہے ۔ پانی کی چمکیلی اور نیلی نیلی دھاریں اوپر سے نیچے اتر رہی ہیں جیسے رنگ برنگی تتلیاں آسمان سے نازل ہو رہی ہوں ،ہر لمحہ خوشگوار ٹھنڈک کا احساس بڑھ رہا تھا ۔جھیل کا پانی نیلگوں اور شفاف ہے ، دریا کا پاٹ کچھ زیادہ چوڑا نہیں محض بیس پچیس گز ہو گا۔ ہر طرف سدا بہار درخت اور لٹکتی ڈالیاں تھیں ،کیا ہی دلربا منظر تھا ہمارے علاوہ وہاں سیاحوں کے متعدد گروپ بھی اس تفریح گاہ میں موجود تھے مختلف نسلوں، مختلف رنگوں کے لوگ ، زیادہ تر یورپین ، چائنیز اور رشین تھے، تاہم کوئی اس قدر رش نہ تھا کہ کسی دِقت کا سامنا کرنا پڑتا۔وہیں راولپنڈی کے ایک رہائشی بھائی سے ملاقات ہو ئی جو اپنے طور پہ ہی ترکی میں سیاحت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ سیلفیاں بناتے، فوٹوز لیتے،ارد گرد پھیلے مناظر سے لطف اندوز ہو تے ہم ایک پل پر آگئے جو اس جھیل ،نہیں دریا کو پار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔ ہم پل سے گزر کر دوسری طرف آگئے ۔پل پر سے گزرتے ہوئے ،سامنے آبشار کے گرنے کا منظر،جھیل کا بننا اور پھر پل کے نیچے سے گزر کر کچھ دور جا کر زمین میں چلے جانا،عجیب دِل فریب منظر تھا جو بھلایانہیں جا سکتا۔پل کے اس طرف بھی ایک پارک بنایا گیا تھا۔یہ ایک دلرباباغیچہ تھا اور خوبصورت سیر گاہ تھی ، اس طرف مسجد اور ٹائلٹس بھی موجود تھے ۔(جاری ہے )