مسئلہ تکفیر

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اکتوبر 2020

مسئلہ تکفیر، بالخصوص کسی گروہ کی تکفیر میں سب سے اہم سوال جو اس ساری بحث میں کہیں بھی موضوع نہیں بنتا، وہ مسئلے کی تاریخی اور سماجی جہت سے تعلق رکھتا ہے اور یہ عمرانیات مذہب (Sociology of Religion) سے بے اعتنائی کے اسی عمومی فکری رویے کی عکاسی ہے جو ہمارے ہاں غالب ہے۔ ہر بحث کی طرح اس بحث کو بھی دیکھنے کا ہمارا پیراڈائم عموماً فقہی یا کلامی ہے اور بحث کی قوتِ محرکہ شناخت اور سیاسی طاقت کی حرکیات ہیں۔ سادہ لفظوں میں، مذہبی فکر میں (چاہے وہ علماء کی سطح پر ہو یا جذباتی مذہبی قائدین وعوام کی سطح پر) اس پیچیدہ مسئلے کو انتہائی سادگی کے ساتھ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ اسلام کے کچھ مستند اور بنیادی عقائد ہیں، اگر کسی شخص یا گروہ کے نظریات ان میں سے کسی عقیدے یا اس کی مستند تعبیر سے متصادم ہیں تو وہ کافر ہے۔ کسی گروہ کا کوئی عقیدہ، حد کفر کو پہنچتا ہے یا نہیں، اس کے لیے کسی بڑی شخصیت یا شخصیات کی کوئی عبارت مل جائے تو یہ بھی بحث کو فیصل کرنے کے لیے کافی ہے، اور اگر ہزار دو ہزار علماء نے مل کر ایسے کسی فتوے پر دستخط کر دیے ہوں تو پھر تو جو کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔
مسئلے کو اتنی سطحیت اور سادگی سے دیکھنا، حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسی مذہبی روایت میں گوارا کیا جا رہا ہے جسے فکری ورثے میں ایک پوری تہذیب اور اس کے عقلی وسماجی علوم ملے ہیں جو نہ صرف اسلام کے بلکہ دوسرے مذاہب کے داخلی اختلافات کی تکییف کا بھی ایک پورا نظام رکھتے ہیں اور صدیوں تک ان اختلافات کے حوالے سے سیاسی، قانونی اور مذہبی مواقف کی تعیین کی عملی بنیاد فراہم کرتے رہے ہیں۔ مسئلے کی اس کی تمام جہتوں کے ساتھ اور کلیت میں دیکھنے کے ‘‘تہذیبی ’’انداز فکر کو تج کر شخصیات کی عبارتوں اور ادھورے کلامی وفقہی استدلالات کو مسئلے کی تفہیم کی اساس سمجھنا موجودہ مذہبی انداز فکرکا سب سے بنیادی مسئلہ ہے اور اس محدودیت کا الزام صرف جذباتی اذہان کو نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ جذباتی اذہان کو ہوش مندی کی تلقین کرنے والی علمی قیادت خود اس پیراڈائم سے باہر نکل کر گفتگو کرنے کی علمی اہلیت یا اخلاقی جرأت نہیں رکھتی۔
مسئلے کی جس تاریخی وسماجی جہت کا ذکر ہوا، اس کی کچھ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے ۔ مذاہب کی روایت میں مختلف قسم کے اعتقادی وعملی اختلافات کا پیدا ہونا تاریخ کا ایک معمول کا عمل ہے جس سے کوئی مذہبی روایت مستثنیٰ نہیں۔ ان اختلافات میں مستند اور غیر مستند عقیدہ وعمل کی تعیین کی بحثیں بھی فطری ہیں اور ہر مذہبی روایت کا حصہ ہیں۔ تاہم گروہی شناخت کے نقطہ نظر سے یہ اختلافات دو میں سے ایک شکل اختیار کر سکتے ہیں اور اس کی مثالیں بھی کم وبیش ہر مذہبی روایت میں موجود ہیں۔ کسی ایک شکل کی تعیین کا عمل اصلاً اختلاف کی نوعیت اور مختلف تاریخی عوامل کے تحت ہوتا ہے، اعتقادی اور مذہبی بحثوں کا کردار اس میں ضمنی اور ثانوی ہوتا ہے۔ایک شکل یہ ہو سکتی ہے کہ اختلاف یک لخت یا بتدریج وسیع ہوتا ہوا اس سطح پر چلا جائے کہ بنیادی مذہبی شناخت میں اشتراک کا پہلو بالکل معدوم یا نہ ہونے کے برابر رہ جائے اور دو گروہ اپنی شناخت کے لیے تاریخی اور سماجی طور پر ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہو جائیں۔ یہ صورت دو متوازی اور مستقل مذہبی روایتوں کے وجود میں آنے کی ہوتی ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں اس کی مثال مسیحیت ہے جو ابتدا میں ایک الگ مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ یہودیوں کے اندر ایک فرقے کے طور پر رونما ہوئی تھی، لیکن سیدنا مسیح علیہ السلام کی شخصیت سے متعلق اختلاف کی وجہ سے بتدریج مسیحی شناخت، یہودیوں سے الگ ہوتی چلی گئی اور اب انھیں دو مستقل مذہب مانا جاتا ہے۔دوسرا امکان یہ ہوتا ہے کہ اختلاف یہ شکل اختیار نہ کرے، بلکہ بنیادی مذہبی شناخت میں گروہوں کے مابین اس سطح کا قرب اور اشتراک باقی رہے کہ اس کی نفی کرنا ممکن نہ ہو اور تاریخی عوامل بھی ایسے حالات پیدا نہ کریں جس میں دونوں گروہ، ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز اور لاتعلق ہو کر اور ایک دوسرے پر تہذیبی وسیاسی انحصار کے بغیر ایک مستقل مذہبی روایت کے طور پر خود کو منظم کر سکیں۔ مثلاً مسیحی روایت اس وقت تین بڑے گروہوں یعنی رومن کیتھولک، گریک آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم ہے جن کے مابین بہت بنیادی نوعیت کے اعتقادی وعملی اور تنظیمی اختلافات پائے جاتے ہیں، اور ان میں سے کیتھولک اور گریک آرتھوڈوکس بڑی حد تک دنیا کے الگ الگ خطوں میں تنظیمی طور پر بھی الگ الگ اسٹرکچر رکھتے ہیں، لیکن مسیحیت کی بنیادی شناخت میں یہ سب گروہ شریک ہیں جو انھیں اسلام اور یہودیت سے ممتاز کرتی ہے۔
اختلاف ان دونوں میں سے کون سی شکل اختیار کرتا ہے، یہ جیسا کہ عرض کیا گیا، اختلافات سے متعلق کلامی واعتقادی پوزیشن سے طے نہیں ہوتا۔ فی نفسہ اختلاف کی نوعیت اور تاریخی حالات اس کا تعین کرتے ہیں۔ کلامی واعتقادی پوزیشن، اختلافات میں سے کسی ایک موقف کو غالب یا رائج کرنے میں تو کردار ادا کرتی ہے، جیسے مثلاً مسیحی روایت میں آبائے کلیسا کی مختلف مجالس نے کیا، لیکن کوئی گروہ بنیادی مذہبی شناخت میں شریک رہے گا یا نہیں، اس کا تعین کسی ایک گروہ کی اعتقادی پوزیشن نہیں کر سکتی، چنانچہ آبائے کلیسا نے جن متعدد مسیحی فرقوں کو معیاری مسیحیت سے خارج قرار دیا، وہ اس کے باوجود مسیحی روایت ہی کا حصہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ان دونوں شکلوں کا فرق بالکل بدیہی ہوتا ہے اور دو سادہ اصولوں پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دو مذہبی روایتوں کے مابین شناخت کا اختلاف کس نوعیت کا ہے۔ پہلا یہ کہ وہ دو گروہ کسی تیسرے گروہ کے تقابل میں خود کو ایک مشترک شناخت میں شریک تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ تاریخ کی سطح پر باقی دنیا کی نظر میں ان دونوں گروہوں کی شناخت کے اختلاف کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟ ان دونوں معیارات پر کیتھولک،پروٹسٹنٹ اور گریک آرتھو ڈوکس ایک ہی مذہبی شناخت کے حامل ہیں، جبکہ یہودی اس شناخت میں شریک نہیں، چاہے مسیحیت کی ابتدا تاریخی طور پر یہودیوں کے اندر سے ہی ہوئی ہو۔
اب یہ دیکھنا چاہیے کہ شیعہ سنی اختلاف میں جب تکفیر کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو اس موقف کے حاملین کا ذہنی مفروضہ، شناخت کی مذکورہ تقسیم کے حوالے سے کیا ہے، یعنی وہ اس اختلاف کو کون سی کیٹگری میں رکھ کر دیکھ رہے ہیں؟اگر تکفیر شیعہ کا موقف رکھنے والے حضرات ہمیں یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ شیعہ سنی اختلاف، تاریخی لحاظ سے، یہودی مسیحی اختلاف بن چکاہے تو یہ بدیہی طو رپر ایک خلاف واقعہ بات ہے۔ اگر یہ کوئی امر واقع ہوتا تو کسی کو اس کی اطلاع دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ اگر وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسے بالارادہ یہودی مسیحی اختلاف کی شکل دے دینی چاہیے تو یہ تاریخ، معاشرہ اور مذہبی شناخت کے اصولوں سے قطعی ناواقفیت کی علامت اور بالکل بچگانہ بات ہے۔ مذہبی شناختوں کے اشتراک یا افتراق کا سوال اس طرح کے ارادی فیصلوں سے طے نہیں ہوتا۔ یہ ایک خودکار تاریخی عمل ہوتا ہے جس کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ اسے اعتقادی پوزیشن کی بنیاد پر مصنوعی انداز میں طے کرنے کا منصوبہ ایسا ہی ہے جیسے دریا کا رخ حسب منشا طے کرنے کے لیے انجینئرنگ کا کوئی منصوبہ بنانا۔
شیعہ سنی شناخت، تاریخ میں اس طرح اسلام کے اندر تشکیل پا چکی ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، قرآن اور سنت متواترہ سے وابستگی اور اہل بیت کے ساتھ نسبت کے ہوتے ہوئے اختلاف کی اصولاً وہ نوعیت تھی ہی نہیں جو شیعہ اور سنی کو یہودی اور مسیحی کی طرح دو متوازی مذاہب میں تقسیم کر دیتی۔ مسیحیوں نے بیت المقدس میں ہی اپنا الگ قبلہ مقرر کر کے ہیکل سلیمانی سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا، لیکن اہل تشیع نے کبھی بیت اللہ سے دستبرداری اختیار نہیں کی۔ دونوں ایک ہی تاریخ کے مختلف کردار اور مذہبی وعلمی مباحث کی ایک مشترک روایت میں حصہ دار ہیں۔ دونوں میں شناخت کی تشکیل کے مشترک عوامل اتنے زیادہ اور بنیادی ہیں کہ اختلاف کا وہ شکل اختیار کرنا، دیے گئے تاریخی وسماجی تناظر میں، ممکن ہی نہیں تھا اور نہ اب ہے جو یہودی اور مسیحی شناختوں نے تاریخ میں اختیار کی۔اس اختلاف کو یہ شکل دینے کا خیال بھی اگر کچھ لوگوں کے ذہن میں ہے تو ان کی بصیرت تو ایک طرف، سلامتی عقل بھی مشکوک ہے۔ مسیحی روایت میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے مابین صدیوں کے کشت وخون کے بعد بھی اسے یہ شکل نہیں دی جا سکی، کیونکہ یہ تاریخ سے لڑنے کے مترادف ہے جس میں ہمیشہ تاریخ فاتح رہتی ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمہ نے بالکل بجا طور پر اس مفہوم میں شیعہ کی تکفیر کی بات کو عالم اسلام میں ٹائم بم رکھنے کے ہم معنی قرار دیا ہے۔ 
اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں شمار کرنے یا نہ کرنے کا سوال، بنیادی طور پر کلامی یا فقہی نہیں، بلکہ تاریخی، تہذیبی اور سماجی ہے۔ اس کا بنیادی حوالہ شناخت کا اشتراک یا افتراق ہے جو تاریخی عوامل سے طے ہوتی ہے اور کسی کلامی سرگرمی میں پڑے بغیر اس کے بنیادی determinants مکمل ہو جاتے ہیں۔ کلامی اور اعتقادی بحثوں کی جتنی بھی اہمیت ہے، اس کے بعد اور تاریخ کے طے کردہ رخ کے تابع ہے۔ تاریخ کے رخ کو کسی کلامی یا فقہی پوزیشن سے متعین کرنے کی کوشش کچھ نہیں مگر چھکڑے کو گھوڑے کے آگے باندھنے جیسی حرکت ہے ۔ یہ بنیادی تناظر طے ہو جانے کے بعد اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کلامی اور فقہی بحثیں اس سوال میں کہاں داخل ہوتی ہیں اور مذہبی معاشرت اور تہذیب کی فکری وعملی ضروریات کے ساتھ ان کا کیا تعلق بنتا ہے۔
ابراہیمی مذاہب میں حق وباطل کا تصور مذہبی شعور کا ایک تشکیلی عنصر ہے اور کوئی مذہبی روایت اس سے دستبردار ہو کر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ یہ سوال الگ الگ مذہبی روایتوں کے مابین بھی زیربحث رہتا ہے اور ایک ہی مذہبی روایت کے داخلی اختلافات میں بھی اس کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ان اختلافات کا سنگینی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں تقسیم ہونا واضح ہے اور اسی کے لحاظ سے کسی عقیدے یا عمل کے متعلق مستند مذہبی موقف کا بیان اہل علم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ابراہیمی مذاہب کی روایت میں اس طرح کے مواقف کی توضیح ایک عام معمول ہے اور ہر گروہ کا بحث واستدلال کے ذریعے سے اپنے اپنے موقف کو مدلل اور مخالف موقف کو غلط ثابت کرنا ایک جائز بلکہ ضروری سرگرمی مانا جاتا ہے۔ اسلامی روایت میں بھی یہ عمل اسی انداز میں جاری رہا ہے اور مذہبی عقیدے یا عمل یا مذہبی تاریخ کی تعبیر کے دائرے میں نادرست مواقف پر ان کی نوعیت کے مطابق حکم لگایا جانا ایک معروف بات ہے۔ استثنائی مثالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، ان بحثوں میں جب کسی موقف کے حاملین کی تکفیر کی جاتی ہے تو اس سے مراد یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ ان کے بیان کردہ موقف کی، مستند مذہبی معیارات کی روشنی میں، حق کے ساتھ اس درجے کی نسبت تضاد ہے۔ اس سے مقصود کسی گروہ کو اسلام کی بنیادی شناخت سے الگ کرنا یا آسان الفاظ میں دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا نہیں ہوتا۔ متکلمین اس مراد کو مختلف اسالیب میں اس طرح واضح کرتے ہیں کہ یہ تکفیر مطلق ہے، نہ کہ تکفیر معین اور یہ کہ اس بات سے کفر لازم آتا ہے جس کا التزام ضروری نہیں کہ قائل بھی کرتا ہو۔ 
ایسا نہیں کہ تکفیر کرنے والے اہل علم اس کو صرف نظری طور پر بیان کرتے ہیں اور اس پر کچھ عملی فقہی احکام مرتب نہیں کرتے۔ وہ اپنے اپنے فہم کے مطابق بعض فقہی نتائج بھی مرتب کرتے ہیں اور ان نتائج کی بنیاد کے طور پر تکفیر کا ذکر بھی کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں بنیادی شناخت کے لحاظ سے مسلمانوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔ یوں بظاہر ان کے اقوال متضاد دکھائی دیتے ہیں، لیکن ہر قول کو اس کے محل میں سمجھا جائے تو بآسانی یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ ان کا مدعا ایسے گروہوں کو اصولی طورپر مسلمانوں کا حصہ شمار کرتے ہوئے ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے بعض فقہی معاملات میں ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کرنے سے اجتناب کی تلقین کرنا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مثال کے طور پر امام ابن تیمیہ اور شاہ عبد العزیز کی آرا کو دیکھنا مناسب ہوگا۔
امام ابن تیمیہؒ اہل سنت کی روایت میں اہل تشیع کے شدید ترین ناقدین میں سے ہیں اور ان کی بعض عبارات سے تکفیر کا پہلو بھی نمایاں طور پر نکلتا ہے۔ وہ صحابہ کے بارے میں اہل تشیع کے عمومی عقیدے کو یہود و نصاری ٰ سے بدتر قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ قومیں کم سے کم اپنے دین کی تاریخی تاسیس کرنے والے اکابر کو برا بھلا نہیں کہتیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ ابن تیمیہ اس سوال کے جواب میں کہ کیا روافض کو یہود ونصاری ٰ سے بدتر کہا جا سکتا ہے، لکھتے ہیں کہ ہرگز نہیں، اور کوئی کلمہ گو کتنا ہی فاسد العقیدہ کیوں نہ ہو، کفار سے بہرحال بہتر ہے۔ اسی طرح وہ اہل تشیع کے لیے قرب الہی اور ولایت کے مقامات کا امکان بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کے پیچھے باجماعت نماز اور جمعہ ادا کرنے کے متعلق لکھتے ہیں کہ اگر اس علاقے میں جمعے کا متبادل
 انتظام نہ ہو تو صرف عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے ان کے ساتھ جماعت ترک کرنا اہل سنت کا نہیں، بلکہ اہل بدعت کا طریقہ ہے۔
شاہ عبد العزیزؒ کے فتاوی میں متنوع قسم کے فتوے موجود ہیں۔ بعض جگہ وہ اہل تشیع سمیت تمام اسلامی فرقوں کو اس حدیث کے مطابق دائرہ اسلام میں شمار کرتے ہیں کہ ‘‘میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی‘‘۔ کسی دوسرے مقام پر وہ سیدنا صدیق اکبر کی خلافت کے انکار کو ایک قطعی امر کے انکار کی وجہ سے موجب تکفیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس سوال کے جواب میں کہ ہندوستان انگریزوں کے تسلط کے بعد دار الاسلام ہے یا دار الحرب، فرماتے ہیں کہ وہ ریاستیں جہاں انگریزوں کی حکومت نہیں ہے، دار الاسلام ہیں اور اس کی مثال کے طور پر بعض ایسی ریاستوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جن پر شیعہ نواب حکمران تھے۔
٭٭٭