بنیاد

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : جولائی 2011

            ہمارے دوست محمد سلیم کہتے ہیں کہ۱۹۳۰ کے عشرے میں (کمیونزم کازمانہ) ایک طالبعلم نے مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اْس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اْسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔طالبعلم اْس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔وہاں پہنچ کر اْس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اْس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟ ملازم نے جواب دیا، ہاں۔ اس نے کہا کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔طالبعلم نے کہا؛ مگر میں تواس نامناسب اور گندی جگہ پرنمازنہیں پڑھوں گا ۔وہ اوپر آیا اور پھر اْس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔ اْس نے بلند آواز سے اذان کہی۔ پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیران رہ گئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اْنگلیاں اْٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اْجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر اذان کہہ رہا تھا۔اذان پوری کہہ کر وہ تھوڑی دیر کیلئے اْدھر ہی بیٹھ گیا۔ اْس کے بعد دوبارہ اْٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اْسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی دیتاتھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اْسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔دوسرے دن پھر اْسی وقت پر آ کر اْس نے وہاں بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اْس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتدا میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اْستاد بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سْتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رْکا نہیں، باقی یونیورسٹیوں کے طلباء کی غیرت ایمانی بھی جاگ اْٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بْنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔

             نہ جانے یہ طالب علم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ مصر کی یونیورسٹیوں میں جب تک مسجدیں قائم ہیں ، اس کوسب کی نمازوں کا ثواب ملتا رہے گا ۔ اس لیے کہ بارش کا پہلا قطرہ اور نقطہ آغاز وہی بنا تھا۔

            ہم سب کسی بھی مثبت یا نیک کام کی ابتد ا کے لیے دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور یا پھر شکایت کرتے رہتے ہیں۔ یہ رویہ اصل میں جان چھڑانے اور پہلو تہی کا رویہ ہے ۔ آپ جو اور جتنا کر سکتے ہیں کرجائیے ۔باقی کا اللہ پر چھوڑ دیجیے ۔وہ خود ہی حساب کر لے گا اور یقین کیجیے قیامت میں آپ کی رکھی ہوئی بنیاد جوآپ کو بظاہر بہت حقیر سی محسوس ہو رہی تھی جب اجر کے میزان میں پہاڑوں کے برابر وزن پائے گی تو آپ خود بھی حیرا ن رہ جائیں گے ۔

            وطن عزیز کے کرپشن زدہ ماحول میں جب کہ ہر ایک دوسرے کا شاکی ہے، آگے بڑھیے اور جتنابھی مثبت اور نیک کام کر سکتے ہیں کر جائیے ۔جب ہر چھوٹی اور بڑی کرپشن کرنے والا نہیں شرماتا تو ہر چھوٹی اور بڑی نیکی کرنے والا کیوں شرمائے ۔شکوہ ، شکایت اصل میں کام نہ کرنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے ۔ہمیں بہر حال یہ سوچناچاہیے کہ

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے