صبح سعادت

مصنف : افتخار احمد افتخار

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : جون 2011

قسط -۴

            اور اسی طرح کا ایک واقعہ عمرابن عنبسہ نے بھی بیان کیا ہے جسے علامہ علی ابن برہان الدین حلبی نے سیرت حلبیہ میں بیان کیا ہے کہ عمرو بن عنبسہ سلمیٰ نے کہا کہ میں عہد جاہلیت میں بتوں کی پوجا سے بے زار ہوگیا تھا اور میں اپنی قوم کی جہالت پہ حیران تھا کہ اُن کا عجب حال تھا کہ جب لوگوں کا کوئی قافلہ کسی جگہ اتر کر پڑاؤ کرتا تو ان میں سے کوئی شخص تین پتھر اٹھا لاتا ان میں سے جو بہتر ہوتا اس کو معبود بنا لیتا اور باقی پتھروں کو استنجا کے لیے رکھ لیتا اور میں اِن کے اس طرح کے اعمال سے پریشان اور بے زار تھا اور میرا دل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ اصل میں حقیقت کچھ اور ہے اور یہ بت پرستی باطل اور بکواس ہے بھلا کوئی پتھر ہمارے نفع و نقصان کا ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے حقیقت جاننے کا قصد کیا !

            اور یمن کے ایک یہودی عالم کے پاس جا پہنچا !

            اور اس سے کہا !میں اپنی قوم کے اعمال و افعال سے بے زار ہوں ’’۔کیا تو مجھے کوئی بہتر بات بتا سکتا ہے ’’۔یہودی عالم نے میری طرف دیکھا اور کہا !جا چلا جا اور اس نبی کا انتظار کر جو مکہ میں مبعوث ہونے والا ہے ’’۔میں اس کے پاس سے چلا آیا ’’۔تاہم میرا معمول تھا کہ جب بھی کوئی قافلہ مکہ سے آتا تو میں اُن سے ضرور ملتا اور اُن سے پوچھتا تم نے اپنے ہاں کوئی نئی بات دیکھی ہے ’’۔وہ انکار میں سر ہلا دیتے ’’۔اسی طرح بہت سے برس بیت گئے ’’۔پھر اہل مکہ کا ایک قافلہ ہمارے ہاں اترا!اور میں اپنی سواری پہ وہاں جا پہنچا !میں نے اہل مکہ سے پوچھا ؟ کیا تم نے اپنے ہاں کوئی نئی بات دیکھی ہے ’’۔انھوں نے جواب دیا نہیں !البتہ ایک شخص نے کہا ؟ہمارے ہاں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ بتوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور لوگوں کواسلام کی دعوت دیتا ہے !عمر ابن عنسبہ کہتے ہیں کہ میں وہیں سے مکے کی طرف روانہ ہو گیا ’’۔

            کیونکہ وہ خبر جس کا میں نے برسوں سے انتظار کیا تھا مجھے مل چکی تھی اور میری بے چینی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی’’۔میں مکہ پہنچا اور نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کی ’’۔نبی اکرم ﷺ نے کہا !میں اﷲ کا رسول ہوں اور میں کہتا ہوں کہ تمہیں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے جو تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں میں خون ریزی بند کرانے کے لیے اور بتوں کو توڑنے کے لیے آیا ہوں میں تم کو رشتہ داروں کی خبر گیری کا حکم دیتا ہوں اور مسافروں کو لوٹنے سے منع کرتا ہوں’’۔میں نے اُن کی دعوت کو غور سے سنا اور صدق دل سے دین اسلام پہ ایمان لے آ یا’’۔میں نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ تو بہت حلیم اور نرم طبیعت کے ہیں ’’۔مگر لوگ اُن کے خلاف غیض و غضب سے بھرے ہوئے ہیں ’’۔نبی اکرم ﷺ پہ ایمان لانے کے بعد میں نے آپ سے مشورہ کیا ’’۔کیا میں اُن کی مدد کے لیے اُن کے پاس ہی رکوں یا واپس چلاجاؤں ’’۔نبی اکرم ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں فی الحال واپس چلا جاؤں اور جب تم یہ خبر سنو کہ میں مکہ سے کہیں چلا گیا ہوں تب تم میرے پاس آ جانا ’’۔میں واپس چل آ یا اور اپنے دین پہ مضبوط رہا ’’۔تاآنکہ میں مجھے خبر پہنچی کہ نبی اکرم ﷺ مدینے پہنچ گئے ہیں ’’۔

            میں نے پھر سے رخت سفر باندھا اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں جا حاضر ہوا’’۔میں نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ آپ نے مجھے پہچانا ہے ’’۔ہاں میں تمہیں پہچانتا ہوں تم نے مکہ آ کر اسلام قبول کیا تھا’’۔

            یہودیوں کی طرح عیسائی عالم بھی نبی اکرم ﷺ کی آمد سے پوری طرح باخبر تھے اور وہ نبی مکرم ﷺ کی علامات اور صفات سے بخوبی باخبر تھے اسی لیے جب نبی اکرم ﷺ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے فوراً ہی اس کو قبول کر لیا تھا اِن کے علاوہ بھی مورخین کے ہاں عہد قدیم کے کئی حکمرانوں کا سر اغ ملتا ہے جو نبی اکرم ﷺ کی آ مد سے واقف تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے کیونکہ اُن کی کتابوں میں نبی اکرم ﷺ کی صفات واضح طور پہ بیان کی گئیں تھیں جس کی بنا پر لوگ آپ ﷺ کی آ مد سے پہلے ہی آپ ﷺ کے ظہور کے منتظر تھے اور اِن میں سے خاندانِ تبع کے کئی بادشاہوں کے احوال ہم گذشتہ صفات میں بیان کر چکے ہیں یاد رہے کہ عیسائیوں کی کتاب کو جن لوگوں نے مرتب کیا وہ حضرت عیسیٰ کے ساتھی نہ تھے بلکہ وہ تو عیسائی بھی نہ تھے بلکہ یہودی تھے اور انھوں نے عیسائیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی کتاب مرتب کرنے والوں کے پاس وہ سریانی نسخہ موجود ہی نہ تھا جو آپ پہ اترا تھا ’’۔ستر سال اسی طرح گذر گئے ’’۔

            پھر کچھ لوگوں نے محض یادداشت کی بنا پہ انجیل مرتب کرنا شروع کی ’’۔کچھ لوگوں کو یہ انجیل پسند نہ آ ئی تو انھوں نے ایک اور کتاب مرتب کرلی اور اسے الٰہامی کتاب قرار دے دیا گیا ’’۔پھر کچھ صدیاں گذریں تو ایک اور کتاب سامنے آگئی’’۔اس طرح کچھ ہی عرصہ میں چار ایسی کتابیں سامنے آگئیں جن کے مصنفین کا دعویٰ تھا کہ میری کتاب ہی وہ اصل کتاب ہے جس کو حضرت عیسیٰ پہ اتارا گیا تھا ’’۔آج ہمارے سامنے چار انجیلیں ہیں ’’۔جن کے نام متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا بیان کئے جاتے ہیں ’’۔اور اِن میں سے کوئی بھی کتاب ۰۷ ؁ء سے پہلے کی نہیں ہے ’’۔جب انھوں نے اپنی کتاب کی یہ حالت کر دی تب اگر اس میں نبی اکرم ﷺ کا تذکرہ نہ بھی ملتا تب بھی کو ئی ایسی حیرت کی بات نہ تھی ’’۔مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اپنی کتاب کے ساتھ عیسائیوں کے اتنے برے سلوک کے باوجود بھی اُنھیں کی مرتب کی ہوئی اِن کتب میں نبی اکرم ﷺ کا نہ صرف تذکرہ موجود ہے بلکہ بشارتیں اور آپ ﷺ کی دیگر صفات تک موجود ہیں یہاں اُن کی کتابوں سے چند ایسی آ یات پیش کی جاتی ہیں جو اُن کی قطع و برید کے باوجود آج تک اُن کی کتابوں میں موجود ہیں ’’۔

٭۔ اگرتم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے ۔اور میں باپ سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا ۔ (انجیل یوحنا باب ۴ا آیت نمبر ۶ا ۔ ۷ا )

٭۔ اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ’’۔(انجیل یوحنا باب ۴ا آیت نمبر ۳۱ )

٭۔ لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو ،،،، (انجیل یوحنا باب ۵ا آیت نمبر ۲۷۔۲۸ )

٭۔ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آ ئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آ کر دنیا کو راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصووار ٹھہرائے گا۔(انجیل یوحنا باب ۶ا آیت نمبر ۹۔۸ )

٭۔ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کر سکتے لیکن وہ یعنی سچائی کی روح آ ئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ’’۔(انجیل یوحنا باب ۶ا آیت نمبر ۱۳۔۱۴ )

            مسلمانوں نے جب فلسطین فتح کیا تو انھیں وہاں اناجیل کے چند ایسے نسخے ملے جو عربی میں تھے اس لیے کہ وہاں کے عیسائی انجیل کو سریانی سے بلاواسطہ عربی میں منتقل کرتے تھے جب کہ دوسرے لوگ پہلے یونانی زبان کو اختیار کرتے اس کے بعد کسی اور زبان میں اس کا ترجمہ کیا جاتا فلسطین سے دریافت شدہ ایک نسخے میں تو نبی اکرم ﷺ کا نام تک مذکور ہے۔

            ‘‘ فَلَوْ قَدْ جَا ءَ الْمُنْحَمْنَّا ھٰذَا الَّذِیْ ےُرْسِلُہُ اللّٰہ ُ اِلَےْکُمْ مِّنْ عِنْدِ الرَّبِّ رُوْح الْقُدْسِ ھٰذَا الَّذِیْ مِنْ عِنْدِ الرَّبِّ خَرَجَ فَھُوَ شَہِےْدٌ عَلَیَّ وَاَنْتُمْ آےْضاًالِا َنَّکُمْ قَدِےْمًا کُنْتُمْ مَعِیَ فِیْ ھٰذَا قُلْتُ لَکُمْ لِکَیْ مَا لَا تَشْکُوْا ۔۔۔ اور جب منحمنا آئے گا جسے اﷲ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجے گا اور وہ اﷲ تعالیٰ کے پاس سے آئے گا تو وہ میری سچائی کا گواہ ہو گا اور تم بھی میری سچائی کے گواہ ہو کیونکہ تم عرصہ دراز سے میرے ساتھ ہو میں نے تم سے یہ باتیں اس لیے کہی ہیں تاکہ تم شک میں مبتلا نہ ہوجاؤ (انجیل یوحنا باب ۵ا آیت نمبر ۲۶۔۱۵ )

            منحمنا سریانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں محمد ( ﷺ ) ۔۔۔۔۔مدتوں یہی صورت حال قائم رہی پھر صدیوں بعد جانے کہاں سے ایک اور انجیل برناباس سامنے آ گئی جس میں حضرت عیسیٰ کی درجنوں روائتیں موجود ہیں جن میں انھوں نے نام لے کر نبی اکرم ﷺ کی بشارت دی ہے اور اپنے پیرو کاروں کو پوری تاکیدکے ساتھ اُن کی پیروی اختیار کرنے کی رغبت دلائی ہے۔برناباس اور سینٹ پال کی باہمی مخاصمت کی داستان دلچسپی سے خالی نہیں اس لیے کہ اس دور میں عیسائیت نے کئی شکلیں بدلیں ہم محمد کرم شاہ ؒکی کتاب ضیا النبی سے یہاں ایک اقتباس نقل کر رہے ہیں جو اس مسئلے پہ بھرپور روشنی ڈالنے میں ممد ثابت ہو گا۔ ‘‘ ابتداء میں حضرت عیسیٰ کے پیرو کار اپنے آپ کو یہود سے الگ کوئی امت تصور نہیں کرتے تھے ۔نہ اِن کی علیحدہ عبادت گاہیں تھیں لیکن یہودی انھیں شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے حضرت عیسیٰ کی حقیقت آپ کی فطرت اور اﷲ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق ان کے پہلے ماننے والوں کے نزدیک قطعاً وجہ نزاع نہ تھا سب آپ کو انسان اور اﷲ کا برگزیدہ بندہ سمجھتے تھے ۔ اس وقت عیسائی یہودیوں سے بھی زیادہ توحید پرست تھے یہاں تک کہ سینٹ پال نے عیسائی مذہب قبول کیا اس طرح عیسائیت میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس کے نظریات اور معتقدات کا منبع انجیل یا حضرت مسیح کے اقوال نہ تھے بلکہ اس کی ذاتی سوچ بچار کا نتیجہ تھے پال یہودی تھا وہ طرطوس کا باشندہ تھا وہ کافی عرصہ روم میں رہا تھا اور ان کے فلسفہ اور مشرکانہ عقائد سے بہت متاثر تھااس لیے اس نے عیسائیت کو اسی مشرکانہ سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جو عوام کو بہت پسند تھا لیکن حضرت عیسیٰ کے حواری اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اپنے مذہب کی ترقی اور اشاعت کے لیے برناباس اور سینٹ پال نے کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کیا لیکن امراؤ رؤسا کے مابین اختلاف کی خلیج بڑھتی رہی ۔ پال نے حلال و حرام کے بارے میں موسوی احکام کو بالائے طاق رکھ دیا نیز ختنہ کی سنت ابراہیمی کو بھی نظر انداز کر دیا تو برناباس کے لیے اس کے ساتھ مل کر کام کرنا مشکل ہو گیا چنانچہ وہ دونوں الگ ہو گئے۔ پال کو عوام الناس کی تائید کے علاوہ حکومت کی ہمدردیاں بھی حاصل تھیں اس لیے اس کے پھیلائے ہوئے عقائد کو لوگوں نے دھڑا دھڑ قبول کرنا شروع کر دیا ۔ اس طرح برناباس اور اس کے ساتھی پس منظر میں چلے گئے ۔ بایں ہمہ چوتھی صدی عیسوی تک برناباس کے ہم عقیدہ لوگ کافی تعداد میں موجود تھے جو خدا کی باپ کی حیثیت سے نہیں بلکہ مالک الملک اور قادر مطلق کی حیثیت سے عبادت کرتے تھے اس وقت بشپ پال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے بلکہ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ انطاکیہ کا دوسرا بشپ جس کا نام (Lucian ) تھا اور جو تقویٰ اور علم میں بڑی شہرت کا مالک تھا وہ بھی تثلیث کے عقیدے کا سخت مخالف تھا اس نے انجیل سے ایسی عبارتیں نکال دیں جن سے تثلیث ثابت ہوتی تھی اس کا خیال تھا کہ یہ جملے بعد میں بڑھائے گئے ہیں اس کو 312 ؁ء کو شہید کر دیا گیا بشپ (Lucian ) کے بعد اس کے شاگرد( Arius) نے توحید کا پرچم بلند کیا اسے کئی بار سرکاری کلیسا میں اعلیٰ عہدے پہ فائز کیا گیا اور کئی بار اس سے یہ عہدہ چھین لیا گیا تاہم ( Arius) نے اِن باتوں کی پروانہ کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھا اگرچہ کلیسا کی مخالفت آسان کام نہ تھا تاہم( Arius ) نے اُن کے مشرکانہ عقائد کی ڈٹ کے مخالفت کی اور لوگ جوق در جوق اس کے نظریات قبول کرتے چلے گئے ۔ اسی اثناء دو ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے یورپ کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ شاہ قسطنطین جس نے یورپ کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تھا اس نے عیسائیت قبول کئے بغیر اس کی مدد شروع کر دی لیکن عیسائی فرقوں کے باہمی اختلافات نے اسے سراسیمہ کر دیا۔ شاہی محل میں بھی یہ نظریاتی کشمکش زوروں پہ تھی مادر ملکہ تو پال کے نظریات کی حامل تھی جب کہ بادشاہ کی بہن ایرس کی معتقد تھی بادشاہ کے پیش نظر تو صرف ملک میں امن و امان کا قیام تھا اور اس کی صرف یہ صورت تھی کہ سارے فرقے ایک کلیسا کو قبول کر لیں ایرس اور بشپ الیگزینڈر کی مخالفت روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی تھی اور بادشاہ کے لیے مداخلت ناگزیر ہو چکی تھی ۔چنانچہ ۳۲۵ ؁ ء میں نیقیا کے مقام پر ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا متواتر کئی روز تک اس کے اجلاس ہو تے رہے مگر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تاہم بادشاہ نے امن و امان کی خاطر کلیسا کی حمایت کرنا ضروری سمجھا اور اس نے ( Arius ) کو جلا وطن کر دیا اس طرح توحید کی بجائے تثلیث کا عقیدہ ملک کا رسمی مذہب بن گیا اور کلیسا کی منظور شدہ انجیل کے علاوہ کوئی اور انجیل اپنے پاس رکھنا بڑا جر م قرار دے دیا گیا۔ سرکاری انجیل کے علاوہ دیگر سینکڑوں انجیلوں کو نظر آتش کر دیا گیا تاہم شہزادی قسطنطانین کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس کی کوششوں سے آخر 643؁ ء کو ( Arius ) واپس بلا لیا گیا اور جب وہ فاتحانہ قسطنطنیہ میں داخل ہو رہا تھا تب اس کی موت واقع ہو گئی بادشاہ نے اسے قتل عمد قرار دیا اور اس جرم کی پاداش میں اسکندریہ کے بشپ کو اس کے دو ساتھیوں سمیت جلا وطن کر دیا گیا ۔ اس کے بعد بادشاہ نے ( Arius ) کے ایک معتقد کے ہاتھ عیسائیت کا مذہب قبول کر لیا جس کے بعد توحید ہی کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دے دیا گیا ۔ 341؁ ء میں انطاکیہ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں ( Arius ) کے نقطہ نظر کو عیسائی مذہب کا بنیای عقیدہ قرار دے دیا گیا ۔پھر359 ؁ ء میں سینٹ جیروم نے لکھا ( Arius ) کا مذہب مملکت کے تمام باشندوں نے قبول کر لیا ہے پھر پوپ ہونوریس ( Honorius) نے بھی اس عقیدے کی تائید کی تھی یاد رہے کہ ( Honorius) نبی اکرم ﷺ کا عم عصر تھا اور یہ وہی زمانہ تھا جب مکہ میں نبی اکرم ﷺ کو نبوت عطا کی گئی کیونکہ مورخین نے بیان کیا ہے کہ ( Honorius) نے638؁ ء میں وفات پائی ۔اس کے بعد 680؁ ء میں تثلیث کے حق میں پھر ایک لہر اٹھی قسطنطنیہ میں پھر ایک اجلاس ہوا جس میں پوپ ( Honorius) کو مطعون اور مردود قرار دے دیا گیا اور اس کے نظریات کو مسترد کر دیا گیا اگرچہ عیسائی دنیا تثلیث کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے باوجود آج بھی اُن میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی توحید پہ قائم ہیں ۔ 325؁ء تک برناباس کی انجیل مستند تصور کی جاتی رہی ۔ پھر (Iranaeus) نے جب سینٹ پال کے مشرکانہ عقائد کے خلاف مہم شروع کی تواس نے برناباس کی انجیل سے بکثرت استدلال کیا اس سے پتاچلتا ہے کہ پہلی دو صدیوں میں یہ انجیل معتبر تصور کی جاتی تھی اور دین کے بنیادی مسائل ثابت کرنے کے لیے اس کی عبارتوں کو بطور حجت پیش کیا جاتا تھا لیکن 325؁ ء میں جو کانفرنس نیقیا میں منعقد ہوئی اس میں یہ طے پایا کہ عبرانی زبان میں جتنی انجیلیں موجود ہیں ان سب کو ضائع کر دیا جائے اور جس کے پاس بھی عبرانی کی کوئی انجیل ملے اس کی گردن اڑا دی جائے ۔اس کے بعد 383؁ ء میں پوپ نے انجیل بر باناس کا نسخہ حاصل کیا اور اپنی ذاتی لائبریری میں اسے محفوظ کر لیا ۔پھر زینو بادشاہ کے دور حکومت میں برباناس کی قبر کھودی گئی اور انجیل کا وہ نسخہ جسے اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا وہ اس کے سینے پہ پڑا ہو امل گیا ۔پو پ) (Siritusکا ایک دوست تھا جس کا نام مورخین نے (Framarino) بیان کیا ہے اسے پوپ کی لائبریری سے برناباس کا یہ نسخہ مل گیا(Framarino) کو اس کی تحریروں سے بڑی دلچسپی تھی کیونکہ اس نے (Iranaeus) کا مطالعہ کر رکھا تھا جس میں اس نے برناباس کی انجیل کے بکثرت حوالے پائے تھے چنانچہ اطالوی زبان میں لکھا گیا یہ نسخہ مختلف لوگوں سے ہوتا ہوا ایسٹرڈم کی ایک مشہور و معروف ہستی کے پاس پہنچا وہاں سے یہ پرشیا کے بادشاہ کریمر کو مل گیا۔ کریمر سے برناباس کا یہ مسودہ سیوے کے ایک علم دوست شہزادے کے ہاتھ لگا جس کا نام ) Eugene) تھا اور یہ نسخہ اس نے 1713؁ٗ؁ ء میں حاصل کیا تھا اور آج تک برناباس کا یہ نسخہ اس کی ذاتی لائبریری میں وائنا میں موجود ہے برناباس کے حالات او ر اس کی انجیل کی تاریخ کو قدرے تفصیل سے اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو حالات کا پوری طرح علم ہو سکے اور اس الزام کی قلعی کھل جائے کہ بعض عیسائی یہ کہتے ہیں کہ برناباس نامی کوئی شخص نہ تھا اور یہ انجیل کسی ایسے شخص نے لکھی تھی جو مسلمان ہو گیا تھا چنانچہ نبی اکرم ﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے ہی عیسائیوں نے کلیسا نے برناباس کے اس نسخے کو ضبط کر لیا تھا اور اس شخص کو واجب القتل قرار دے دیا تھا جس کے پاس یہ کتاب پائی جائے اور عیسائیوں کی اس خاص کتاب کے ساتھ غیض وغضب کی وجہ یہ تھی کہ اس میں بکثرت ایسی بشارتیں موجود تھیں جن کو دیکھ لینے کے بعد کوئی بھی سچا عیسائی اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اس لیے کلیسا کو یہ آخری قدم اٹھانا پڑا ۔

            برناباس نے اپنے رسول ( حضرت عیسیٰ ) کی تعلیمات کو بلا کم و کاست بیان کیا ہے جس کا نتیجہ یہ تھا نبی اکرم ﷺ کے بارے میں وہ تمام بشارتیں جوحضرت عیسیٰ نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار دی تھیں وہ کتاب میں درج ہوتی چلیں گئیں اگرچہ انجیل برناباس میں سینکڑوں مقامات ایسے ہیں جہاں نبی اکرم ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ پہ ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے مگر ہم طوالت کے خوف برناباس سے محض چند اقتباسات درج کرنے پہ اکتفاء کریں گے اور انشاء اﷲ ان سے بات واضح ہو جائے گی ۔

But my consolation is in the coming of Messenger who shell destroy every false opinon of me , and his faith spread and shall take hold God promised to Abraham our father.‘‘

            ‘‘بلکہ میرا اطمینان تو اس رسول کی تشریف آوری سے ہو گا جومیرے بارے میں جھوٹے نظریات کو نیست و نابود کر دے گا اس کادین پھیلے گا اور سارے جہان کو اپنی گرفت میں لے لے گا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے باپ ابراہیم سے اسی طرح کا وعدہ کیا ہے ۔’’

But after me shall come the splendour of all the prophets and holly ones , and shall shed light upon the darkness of all that the prophets have said because he is the Messanger of God.

            ‘‘ لیکن میرے بعد وہ ہستی تشریف لائے گی جو تمام نبیوں اور نفوس قدسیہ کے لیے آب و تاب ہے اور پہلے انبیاء نے جو باتیں کی ہیں ان پہ روشنی ڈالے گی کیونکہ وہ اﷲ کا رسول ہے ،،

For i am not worthy to unloose the ties of the hosen or the latchets of the shoes of the Messanger of God whom ye call ’’Messiah‘‘ who was made before me and shall bring the wor d s of truth. so that his faith shall have no end.

            ‘‘ یعنی جس ہستی کی آمد کا تم انتظار کر رہے ہو میں تو اﷲ کے اس رسول کی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں جس کو تم مسیحا کہتے ہو ۔اس کی تخلیق مجھ سے پہلے ہوئی وہ تشریف میرے بعد لائے گا وہ سچائی کے الفاظ لائے گا اور اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو گی ’’

I am indeed sent to the house of Israel as a prophet of salvation but after me shall come the messiah sent of God to the all word . for whom God hath made the word and then through all the word will God be worshipped and mercy received.

            حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ؛ بے شک میں تو فقط اسرائیل کے گھرانے کی نجات کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں لیکن میرے بعدجو مسیحا تشریف لائے گا اسے اﷲ تعالیٰ سارے جہانوں کے لیے مبعوث فرمائے گا اسی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ساری کائنات تخلیق کی ہے اور اسی کی کوششوں کے باعث ساری دنیا میں اﷲ کی پرستش کی جائے گی اور اس کی رحمت نصیب ہوگی۔’’

There shall not come after him true prophet sent by God but there shall come a great number of false prophets where at i sorrow-for satan shall raise them up. CH.42

            ‘‘ یعنی آپ ﷺ کے بعد اﷲ کا بھیجا ہوا کوئی سچا نبی نہ آئے گا البتہ کثرت سے جھوٹے نبی آئیں گے جنہیں شیطان کھڑا کرے گا ’’

The name of the messiha is admirable for God himself gave him the name when had created his soul and placed it in celesetail splendour .God siad; wait Mohammed for thy sake i will to create Paradise the word and great multitude of creatures. I shall send thee into the word I shell be send thee as my Messenger of salvation and thy word shell be true, in so much that heaven and earth shall fail but thy faith shall never fail. Muhammad is his name blessed name. Ch. 97

            مسیحا کا نام قابل تعریف ہے اﷲ تعالیٰ نے جب ان کی روح مبارک کو پیدا کیا اور آ سمانی آب و تاب میں رکھا تو خود اِن کا نام رکھا ’’ اﷲ نے فرمایا ! اے محمد ! انتظار کرو میں نے تیری خاطر جنت کو پیدا کیا ہے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اور بے شمار مخلوقات کوپیدا کیا جب میں تجھے دنیا میں بھیجوں گا تو تمہیں نجات دہندہ رسول بنا کر بھیجوں گا اور تیری بات سچی ہو گی ۔ آسمان و زمین فنا ہو سکتے ہیں لیکن تیرا دین کبھی فنا نہیں ہو گا ۔آپ نے کہا ! محمد اس کا نام برکت ہے!’’

 

,,o God send us thy messenger - o Mohammed come quickly for the salvation of the word ,,

            اے خدا ! اپنے رسول کو ہماری طرف بھیج ۔ یا رسول اﷲ ! دنیا کی نجات کے لیے جلدی تشریف لے آئیے !

 

 

I shall abide in that dishonour for a long time in the word. but when Mohammed shall come the sacred Messsenger of God . That infamishall be taken away - and this shell God do. Because i have confessed the truth of the Messiah, Who shall give me this reward. That i shall be known to be Alive and to be a stranger to that death of infami. CH. 112

            طویل عرصہ تک لوگ مجھے بدنام کرتے رہیں گے ۔ لیکن جب محمد ﷺ تشریف لائیں گے جو خدا کے مقدس رسول ہیں تب میری بدنامی اختتام پذیر ہوگی اور اﷲ تعالیٰ یوں کرے گا کیونکہ میں اس مسیحا کی صداقت کا اعتراف کرتا ہوں ، وہ مجھے انعام دے گا ۔ لوگ مجھے زندہ جاننے لگیں گے اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ اس رسواکن موت سے میرا دور کا بھی واسطہ نہیں ،۔ (جاری ہے)