لوگ یوں بھی اعتراف جرم کرتے رہے 

مصنف : جعفر بلوچ

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2011

 

لوگ یوں بھی اعتراف جرم کرتے رہے 
آئینوں کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے 
 
رات کی قسمت ضمیر اس کا منور ہو نہ ہو 
فرض اپنا چاند تارے تو بجا لاتے رہے 
 
اُن کی جانیں دستکش ان کی حمایت سے ہوئیں 
رہروانِ شوق پر ایسے بھی وقت آتے رہے 
 
آدمیت پر تصرف ہو گیا ابلیس کا 
شیخ جی نور و بشر پر بحث فرماتے رہے 
 
آج بھی جعفرؔ تمہاری یاد میں کھویا رہا 
آج بھی جعفرؔ کو تم رہ رہ کے یاد آتے رہے