اک خواہش

مصنف : اختر شیرانی

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جون 2011

اے عشق کہیں لے چل


 اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
 نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
 ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
 دْور اور کہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


 بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
 بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
 جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
 بس تاب نہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


 یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
 ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
 جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
 چل یاں سے کہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


 اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
 اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
 اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
 دور اس سے کہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
 دل چاک اْمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
 ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
 ہیں غم سے حزیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
 تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
 جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
 للہ وہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


وہ تیر ہو ساگر کی، رْت چھائی ہو پھاگن کی
 پھولوں سے مہکتی ہوِ پْروائی گھنے بَن کی
 یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
 جی بس میں نہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


 اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
 اک خواب کی دنیا میں، اک طْور کی وادی میں
 حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
 تا خلدِ بریں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


 سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
 جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
 اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
 یوں ہو تو وہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
 اور ہم کو سمندر کے، اْس پار بلاتی ہے
 شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
 چل اس کے قریں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
 دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
 اے عشق جہاں تْو ہو، اور تیری خدائی ہو
 اے عشق وہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
 یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
 انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
 تو خوف نہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
 کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
 یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
 اے زہرہ جبیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
 ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
 ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
 اے خضرِ حسیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل


اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
 جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
 اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
 لے چل تْو وہیں لے چل
 اے عشق کہیں لے چل