حاجیوں کے سوالات

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : ادب

شمارہ : جون 2011

حاجیوں کے سوالات

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے محکمہ حج واوقاف میں میڈیا کمیٹی کے چیئرمین جناب محمد بن میرزا کے حوالے سے بتایا کہ:ایک حاجی نے یہ پوچھا: کیوں کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے حج ادا کر رہا ہے، تو کیا وہ اپنے منہ کو نقاب سے ڈھانپ کر رکھے؟ایک اور حاجی نے ٹیلیفون کر کے یوں سوال کیا کہ کیا حج سے واپس جا کر میں شادی کر سکتا ہوں یا انسان حج کرنے کے بعد شادی نہیں کر سکتا؟سوئے حرم کے مدیر جناب صدیق بخاری کہتے ہیں کہ میں جنت البقیع میں کھڑا تھا کہ ایک بنگلہ دیشی نے پوچھا کہ محمد ﷺ کی قبر کدھر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ تواس قبرستان میں نہیں ہے ۔ اس نے پوچھا تو پھر کہاں ہے ۔ انہوں نے روضہ اطہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہے ۔ تو وہ کہنے لگا کہ وہ تو مسجد ہے وہاں کیسے ہو سکتی ہے اور جب انہوں نے پھر اصرار سے کہا کہ وہی ہے تو وہ بے یقینی سے کسی اور سے پوچھنے چل پڑا۔

حاجیوں کے واقعات

 ایک د وست نے بتایا کہ ایک بار وہ طواف کر رہے تھے تو سنا کہ ایک حاجی بڑے زور شور سے یہ دعا مانگ رہا تھا (اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث)!! انہوں نے کہا بھائی صاحب، یہ دعا تو لیٹرین میں داخل ہوتے وقت مانگتے ہیں۔ اْس نے نہایت تیزی سے مجھے جواب دیا: کوئی بات نہیں، ساری دعائیں ٹھیک ہوتی ہیں۔

ایک اور قابل اعتماد دوست نے بتایا کہ شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے رش اور دھکم پیل کے باعث میں نے دیکھا کہ ایک حاجی جمرات کی دیوار کے قریب گر گیا۔ بیچارے کا احرام کھل کر گر گیا اور وہ برہنہ ہو گیا۔انتہائی بھاری بھرکم جثے والا یہ حاجی کسی افریقی ملک سے تھا اور رنگ کا بھی انتہائی کالا۔ بعض جاہل قسم کے حاجیوں نے تو اْسے دیکھ کر چلانا شروع کردیا کہ دیکھواس دائرے سے شیطان باہر نکل آیا ہے ۔ شیطان ظاہر ہو گیا ہے۔ لوگوں نے بجائے رمی کرنے کے اسے کنکریوں اور جوتوں سے مارنا شروع کردیا۔ اور جب تک پولیس اور ایمبولینس پہنچی یہ حاجی قریب المرگ ہو چکا تھا۔ یہ واقعہ میرے دادا جی کا چشم دید ہے جنہوں نے کوئی پچاس سال پہلے حج ادا کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک جاہل شخص نے اپنے آپ کو مطوف ثابت کر کے نوکری حاصل کرلی۔ حج کے دوران اْس کو کچھ مردوں اور بارہ عورتوں کا مطوف مقرر کیا گیا۔ دورانِ حج شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد یہ مطوف، سب لوگوں کو یہ کہہ کر خیموں میں چھوڑ کر چلا گیا کہ تم لوگ اپنے سر مونڈ لو اور میں شام کو آؤں گا۔ جب شام کو یہ شخص لوٹا تو ہم یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے اْس کے گروپ کی عورتوں نے بھی اپنے سر مونڈ رکھے تھے۔

(مرسلہ ، سید عمر فاران بخاری)