امریکا کی سیر

مصنف : رشید احمد نور ، برمنگھم

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جون 2011

             اس سال ہمیں امریکہ کی سیر و سیاحت کا دوبارہ موقع ملا ۔ وہاں ہم پہلے لانگ آئی لینڈ پہنچے جو کہ نیویارک کے نزدیک ایک شاندار مضافاتی رہایشی علاقہ ہے۔ یہاں اپنے عزیزوں کے ہاں ٹھہرے جو ایک صحیح امریکن اسٹینڈرڈ کے سویمنگ پول والے وِلا میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں۔ چند دن اُن کے ہاں مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر ہم لوگ بائی ائر کیلیفورنیا جا پہنچے ( یہ ریاست امریکہ کے مغربی ساحل پر 3ہزار میل کی دُوری اور 6گھنٹے کی پرواز پر واقعہ ہے ) اس کا د ارلخلافہ لاس اینجلیز نئی دنیا کا سب سے ایڈوانس شہر ہے۔ اپنے دورۂ سیاحت کا آغاز ہم یہیں سے کر رہے تھے۔ اس ریاست میں ا مریکہ کے سونے کے ذخائر دریافت ہوئے تھے اور یہیں اب مزید تیل بھی دریافت ہوا ہے ۔اسی علاقہ میں کمپیوٹر technologyکا سینٹر silicone velly واقعہ ہے۔یوں امریکہ کی یہ سب سے امیر ترین اور ماڈرن ریاست ہے۔ یہاں کے آ باد کار اکثر Spanish نسل کے میکسیکو کی طرف سے آئے ہوئے لوگ ہیں جنکا طرزِ تعمیر اور رسم و رواج یہاں صاف نظر آتے ہیں ۔ اِس علاقہ میں کئی مشہور شہر ہیں لیکن لاس انجلیز ان سب میں منفرد ہے جہاں تفریح اور سیاحت کی بے شمار جگہیں ہیں جیسے پال گیٹی سینٹر جو أرکیٹیکٹ کے لحاظ سے بہترین عمارت ہے یہاں خوبصورت باغات ہیں اور یہاں سے سارے ہالی وڈ شہر کا نظارا بھی خوب ہے ، اِس میں آرٹ گیلری اور ریسرچ لبارٹری بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ پبلک کیلئے فری ہے لاس انجلیز میں ڈزنی لینڈ، ہالی وُڈاور یونیورسل سٹوڈیوز وغیرہ فلم انڈسٹری کے گھر ہیں یعنی دلچسپی کی اتنی جگہیں ہیں کہ بندہ بور ہو ہی نہیں سکتا ۔ وہاں سے ہم نے ایک گائیڈ ڈ کوچ ٹورکے ذریعے گیارہ دن کیلۓ ارد گرد مغربی امریکہ کی چار ریاستوں پر پھیلے حیران کنُ قدرتی عجائبات دیکھے ۔ پہلے ایری زُونا کا صحرا دیکھا جو سینکڑوں میلوں پر پھیلا ہے ، اس میں لاس ویگاس کا بہت ہی ایڈوانس اور سٹائلش شہرآباد کیا گیا ہے جو اپنے اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں اور جوأ خانوں کے لۓ مشہور یا بدنام ہے ۔ یہ ہوٹل اتنے بڑے بڑے ہیں ( 3سے4 ہزار کمروں پر مشتمل ) اور خاص اسٹائلش انداز سے بناۓے گۓ ہیں کہ انہیں 7سٹار سے بھی بڑا درجہ دینا پڑے گا ۔ ہر ایک کا اپنا منفرد ڈیزائن ہے جو کہ دنیا کی کسی نہ کسی مشہور چیز کی عکاسی کرتا ہے ، جیسے کہیں آپکو پیرس کا أئفل ٹاورآئے گا۔ اور کہیں اہرامِ مصر کا نقشہ بنا ہے تو کہیں وینس شہر کی یاد تازہ ہوگی کہ ہوٹل کے اندر ہی نہریں بہتی اوراُن میں کشتیاں چلتی بھی نظر آئیں گی ۔ ہر ہوٹل والے سیاحوں کی دلچسپی کیلۓ مختلف اوقات میں فری شو بھی کرتے رہتے ہیں ۔ رات میں یہاں کی مرکزی شاہراہ The Strip پر Neon lights سے نظارا اور بھی رنگین بنا دیا جاتا ہے کہ بس یوں سمجھیے شہر کیا ہے ایک جادو نگری اور پرستان کا سماں ہوتا ہے ۔ اس بے آب و گیاہ صحرا میں یہ شہر ایک نخلستان کی طرح سیاحوں کئلے پناہ گاہ مہیا کرتا ہے ۔ اس صحرا کے مشرقی کنارے پر Sdona کا حیرت انگیز پہاڑی سلسلہ ہے جس کی پہاڑیوں کی بناوٹ اور تہہ در تہہ مختلف رنگوں سے قدرت نے انہیں عجیب حسنُ عطا کیا ہے ۔

              اس کے بعد نوادا اسٹیٹ میں پہنچے تو نئ دنیا کا ایک اورمشہور و معروف عجوبہ یعنی گرینڈ کینین (Grand Canion) ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈالنے کو تیار کھڑا تھا۔ اِس کا تحریری نقشہ کھینچنا بہت مشکل ہے بس دیکھنے اور حیرت زدہ ہونے کی چیز ہے ، کروڑوں سال پہلے کالو راڈو (Colo Rado) دریا نے اپنی گزرگاہ میں کچی پکی پہاڑیوں کو کاٹ کر کچھ ایسے نشیب و فراز بنا دیے ہیں کہ جیسے پہاڑ اوپر نیچے اُلٹ پُلٹ کر دئے گۓ ہوں اور یہ سلسلہ سینکڑوں میلوں میں پھیلا ہے ۔

              اِس جگہ سے شمال مغرب میں ایک اور پہاڑی سلسلہ ہے جو Monument Valeyکہلاتا ہے ،یہاں جگہ جگہ پہاڑیاں عجیب و غریب رنگوں اور شکلوں میں نظر أتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا مصنوعی طور پر خود گھڑ کر بنائی گئ ہوں ، ہمیں پہلے یہی شک ہوا مگر جب دیکھا کہ یہ سب اتنے وسیع رقبہ پر اور اتنی بڑی بڑی ہیں تو ماننا پڑا کہ یہ قدرتی صناعی ہی ہو سکتی ہے ، یہیں پر اکثر Cow boyفلموں کی شوٹنگ ہوتی ہے ۔ اِسی علاقہ میں ریڈ انڈین قبائل بھی آباد ہیں اور زیادہ تر اُن کے مخصوص Areaہیں جو علاقہ غیر کہلاتے ہیں جہاں عام لوگوں کو بغیر permitجانے کی اجازت نہیں، یہ قبائل ابھی تک اپنے صدیوں پرانے طور طریقوں سے رہ رہے ہیں ، شائد امریکن لوگوں نے جان بوجھ کر اِنہیں ایسے رکھا ہوا ہے ۔ اس سے آگے نوادا صحرا ہے، امریکہ نے اِسی ایریا میں اپنے ایٹمی تجربات اورSpace راکٹوں کے پروگرام کی تیاری اور ٹریننگ کی ، اِسی علاقہ میں ایک جگہ Death Valey کے نام سے خوفناک حیرت کا موجب ہے ، یہ علاقہ دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ہے جہاں درجہ حرارت گرمیوں میں 150سے155ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ جاتا ہے، بالکل غیر آباد اور بنجر جگہ ہے جہاں پانی بھی نایاب ہے ، جب مغربی آباد کار لوگ پہلے پہل اِدھر آ نکلے تو اکثر موت سے دو چار ہوۓے ، اِسی لیۓ یہ علاقہ ڈیتھ ویلی کے نام سے مشہور ہو گیا ۔ کیلیفورنیا کے شمال میں ایک اور خوبصورت حیرت کدہ ہمارا منتظر تھا یعنی Usimity National Park ، یہ بھی لمبے چوڑے علاقے میں پھیلا ایک برفانی پہاڑی سلسلہ ہے جو اپنے خوبصورت مناظر ، ندیوں اور آبشاروں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے Redwood درختوں کیلیۓ مشہور ہے ، یہ درخت ہزاروں سال سے زندہ سلامت اور ہرے بھرے اپنا رعب دکھا رہے ہیں ، اِن میں سے اکثر ڈھائی سے تین سو فٹ اونچے اور پندرہ سے اٹھارہ فٹ کے تنے رکھتے ہیں ، دیکھ کر بھی یقین نہیں ہوتا کہ اتنے بڑے درخت بھی ہو سکتے ہیں ۔

              اِس سے آگے چلیۓ تو سان فرانسسکو کا نادر شہر آتا ہے جو خود ایک عجوبہ ہے، یہ شمال مغربی امر یکہ کی ایک بڑی مشہور بندرگاہ ہے، سارا شہر سمندر کی کھائیوں کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی 42 پہاڑیوں پر آباد ہے ، کمال یہ ہے کہ سڑکیں پھر بھی نیویارک کی طرح ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی بالکل سیدھی بنائ گئ ہیں ، اِ س لیۓ عجیب طرح اونچی نیچی ابھرتی اور چھپتی ہوئی نظر أتی ہیں ۔ پھر یہیں پر دنیا کا مشہورِ زمانہ اور انجنئرنگ کے نقطہ نظر سے مشکل ترین پلُ Golden Gate suspension bridge ہے جو دو پہاڑیوں کے درمیان سمندر پر بہت اونچائی پر بنایا گیا ہے ، اِسی شہر کے ایک علاقہ میں چین سے باہر سب سے بڑا چائنہ ٹاؤن بھی دیکھنے کی چیز ہے ، چینی لوگوں نے خوب سجاوٹ اور اپنے ہی سٹائل میں یہاں ایک ننھا چین آباد کیا ہوا ہے ۔ یہ شہر زلزلہ والی قد رتی پٹی پر واقعہ ہونے کے باعث کئ بار بڑی تباہیوں کا شکار ہوا ہے ۔

              اب ہم امریکہ کے مغربی ساحل یعنی بحرالکاہل کے کنارے کنارے واپس جنوب کو لاس انجلیز کی طرف روانہ ہوۓے ، یہ سفر بھی اپنی جگہ بہترین معلوماتی اور تفریحی تجربہ تھا ۔ ڈھائ سو میل لمبی یہ بیچ اتنی خوبصورت ڈرائیو ہے کہ سفر کی کوفت نام کی کوئی شے نہیں رہتی ۔ جگہ جگہ پکنک ائریاز اور چھوٹی چھوٹی رومانوی بستیاں آباد ہیں اور سینریوں کا تو جواب نہیں ، سمندر کے کنارے جگہ جگہ آپ کو سمندری جانور جیسے وہیل مچھلیاں ، Sea loinsاور عجیب و غریب چرند پرند جوق در جوق نظر آئیں گے، بس یوں سمجھۓ کہ اس راستے سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا ۔ مگر سفر تو جاری رکھنا تھا نا ، سو گیارہ دن میں تقریباـ" 3600 میل اور 4 اسٹیٹس گھومنے کے بعد یہ یادگار ٹورٔ لاس انجلیز میں واپس آ کر ختم ہوا ۔

              ہر اچھی چیز أخر ختم ہو جاتی ہے ، سو اب نہ چاہتے ہوے بھی یہاں سے روانگی کا وقت آ گیا اور ہم ایک دفعہ پھر اُڑ کر امریکہ کے شمال میں Detroit شہر میں اپنے بھتیجے کے ہاں جا پہنچے جو وہاں اپنی فیملی کے ساتھ آباد ہے ، وہاں اپنے گھر کا ماحول اور اپنے بچے نظر آئے تو دل باغ باغ ہو گیا اورساری تھکن اُتر گئ ۔ یہ بھی کافی بڑا شہر ہے جو امریکہ کی کار انڈسٹری کا مر کز ہے اور فورڈ کمپنی کا گھر ہے ، اور انہوں نے یہاں ایک نادر کار میوزیم بھی بنا یا ہوا ہے جس میں خاص خاص اور سب سے پہلے بنی کاریں نمائش کیلۓ محفوظ ہیں ، ایک بہت ہی مزے کا ہفتہ اِن کے ہاں گزارا جو یادگار رہے گا۔ یہاں کچھ فاصلے پر ایک بہت بڑی جھیل ہے اور اُس میں ایک خوبصورت جزیرہ دیکھا جسے فضائی آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ کسی قسم کی گاڑی کی اجازت نہیں ہے بس پیدل گھومو یا گھوڑوں پر سیر کرو ۔

              اور اب نہ چاہتے ہوئے وہاں سے بھی روانگی کا وقت أ گیا اور ہم وہاں سے بائی روڈ کینڈا کی طرف عازمِ سفر ہوئے ، بڑے مزے کا سفر کٹا ، کینڈا کا یہ علاقہ بالکل پنجاب کی طرح میدانی اور زرعی ہے۔ اب ہم ٹرانٹو میں تھے ، یہ کینڈا کا سب سے بڑا اور ماڈرن شہر ہے یہاں دنیا کا سب سے بلند کنکریٹ کا مینار CN Tower ہے اور اِس کے اُوپر1500فٹ کی بلندی پر ایک گھومنے والا ر یسٹورنٹ اور شہر کے نظارا کیلےء شیشے کے viewing area بنے ہیں جہاں سے ارد گرد کا نظارا کیا خوب سماں باندھتا ہے ، خاص طور پر رات کو شہر کی روشنیوں کے منظر سے کہکشاں زمین پر اُتری لگتی ہے ۔ ٹرانٹو میں اپنے بیشمار لوگ أباد ہیں اور کئ علاقے تو منیِ پاکستان لگتے ہیں ۔ یہا ں سے قریب ہی (امریکہ اور کینڈا کے بارڈر پر) مشہورِ زمانہ نیاگرہ آبشار واقع ہے تو اِس کو دوبارہ دیکھا ( ایک دفعہ 10 سال پہلے بھی دیکھا تھا ) مگر یہ قدرت کی ایسی کرشمہ سازی ہے کہ دوسری بار دیکھنے کی حسرت لیے لوٹے تھے جو اب پوری ہوئی ۔ایک تو قدرت نے ہی اِس أبشار کو ملکوتی حسن عطا کیا ہے اور پھر اِن لوگوں نے ا ِسے تراش خراش کر اِس کے مناظر کو مزید دلفریب بنا دیا ہے کہ دیکھتے دیکھتے دل نہیں بھرتا ، خاص طور پر شمالی سائڈ یعنی کینڈا کی طرف سے نظارا تو مبہوت کنُ ہے ، ہر رات کو ساری أبشار پر مصنوعی رنگ برنگی سرچ لائٹس ڈال کر چراغاں کیا جاتا ہے جس سے منظر اور بھی رومانٹک ہو جاتا ہے اِسی پر بس نہیں بلکہ رات بارہ بجے روزانہ بہت ہی بڑے پیمانے پر خوبصورت أتش بازی سے اس حسین ماحول کو سیاحوں کے ذہنوں پر نقش کر دیا جاتا ہے جو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں یہاں آتے ہیں ۔

              یہاں سے ہمارا جنرل ٹور مکمل ہوتا ہے اور یہ سب عجائبات پیچھے چھوڑ کر واپس نیویارک کی طرف پرواز کرتے ہیں ، یہاں پھر اپنے عزیزوں نے مہمان نوازی سے ہماری تھکان دور کی ۔ نیو یارک بذاتِ خود موڈرن عجوبہ شہر ہے لیکن چونکہ ہم نے دس سال پہلے یہاں کی سبھی مشہور جگہیں دیکھی تھیں لہذا اِس دفعہ ہم نے وہاں ایک دن کا مختصر چکر لگایا۔ نیو یارک میں ایک منفرد قسم کا مشہور چڑیا گھر بھی ہے اور اِ س دفعہ سب نے مل کر وہاں دن گزارنے کا پروگرام بنایا ، اِسے Bronx Zoo کہتے ہیں ، یہ ایک اپنے ہی طور پر بنایا گیا جنگل نما چڑیا گھر ہے ، ہم نے اِس سے پہلے دنیا میں بہت سے چڑیا گھر دیکھے تھے جہاں یا تو جانور پنجروں میں بند ہوتے ہیں اور لوگ اُن کے ارد گرد کھلے پھرتے ہیں اور یا پھر Sfari Zoo ہوتے ہیں جہاں جانور اپنے اپنے ایریا میں کھلے پھرتے ہیں اورلوگ اپنی گاڑیوں میں مخصوص راستوں پر ڈرائیو کرتے ہوئے اُنہیں دیکھتے ہیں لیکن Bronx Zoo بالکل الگ انداز میں بنا ہے کہ یہاں دونوں ہی یعنی لوگ بھی اور جانور بھی اپنی اپنی جگہوں پر کھلے پھرتے ہیں پھر بھی محفوظ رکھا گیا ہے ، با لکل جنگل کا ماحول ہے

              اب کافی سیر ہو گئی تھی سوچا کہ گھر لوٹ چلیں کہ آخر گھر ہی لوٹنا ہوتا ہے۔چنانچہ ایک دفعہ پھر اُڑان بھری اور 6 گھنٹے کی پرواز سے انگلینڈ پہنچ گئے ، واپس آ کر احساس ہوا امریکہ کے مقابلہ میں یہ جزیرہ کتنا چھوٹا ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ اسی طرح جنت واپسی پر یہ احساس ہو گا کہ دنیا کاجزیرہ کتنا چھوٹا ، حقیر اور کم قیمت تھا۔