میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

مصنف : مولوی عبد الرحمن/ رام سرن داس

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : جون 2011

ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر میں میانوالی آرائیاں اور میانوالی مولویاں دو مشہور بستیاں ہیں۔ میں اول الذکر مقام میانوالی آرائیاں میں ۲۰ فروری ۱۹۱۳ کو پیدا ہوا۔ میرا نام رام سرن داس رکھا گیا۔ میرے باپ کا نام لالہ نند لال تھا۔ ہماری ذات ریہان کھتری تھی۔ ہمارا خاندان اس علاقے میں خاصا مشہور ، صاحب حیثیت اور با اثر تھا۔ سرکار دبار میں اچھا رسوخ تھا۔ مذہباً ہم سناتن دھرمی تھے۔ ہمارے ہاں ساہوکارہ، تجارت اور زمینداری کا کام ہوتا تھا اور علاقے کی سرداری بھی تھی۔ دادا جان نے اڑسٹھ برس سرداری کی تھی۔

مروجہ طریقے کے مطابق میری تعلیم شروع ہوئی۔ ۱۹۳۱ء میں میں نے شاہ کوٹ سے انگلش مڈل پاس کیا او راول درجے میں کامیاب ہوا، پھر مزید تعلیم حاصل کرنی چاہی، مگر کچھ معاملات ایسے رہے کہ تعلیم حاصل نہ کر سکا اور تجارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مجھے بچپن ہی سے مذہب سے لگاؤ تھا اور دل تلاش حق کا جویا تھا۔ میری بستی کے لوگ سناتن دھرمی تھے۔ مجھے شرک و بدعات سے طبعاً نفرت تھی، چنانچہ جب میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، اس زمانے میں میرے دو تایا زاد بھائی لالہ دینا ناتھ اور لالہ گرو ہاری لال بسلسلۂ تجارت جالندھر اور فیروز پور میں ایک سال یا آٹھ ماہ رہ کر گھر واپس آئے۔ اس زمانے میں مذہبی مباحثے اور مناظرے عام ہوتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے یہ مناظرے سنے، اگر سنے تو مذہب کے متعلق کیا معلومات حاصل کیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ مخلوق بحیثیت مخلوق نہ ہم کو کوئی نفع پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اور یہ اختیار صرف بھگوان (خدا) کو ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آریہ سماج کے خیالات سے متاثر ہو چکے تھے۔

اپنے بھائیوں کی یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی او رمیں نے اس کا تجربہ شروع کیا۔ ہمارے گاؤں کے قریب سید پور کی ایک بستی تھی۔ وہاں بابا سید رانا کی ایک قبر تھی، جس پر دور و نزدیک سے ہندو، مسلمان، سکھ سبھی نذریں چڑھاتے تھے۔ ہمارے گھر سے بھی نذر جاتی تھی۔ میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جب میرے ذریعے سے کوئی چیز بطور نذر قبر پر بھیجی جاتی تومیں بجائے قبر پر چڑھانے کے خود چٹ کر جاتا اور اس قبر پر جو پیسے وغیرہ ہوتے وہ بھی اٹھا لیتا۔ اس عمل سے مجھے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا، اس طرح توحید پر میرا دل مضبوط ہو گیا۔

میں پانچویں جماعت میں تھا کہ ایک مرتبہ ڈپٹی صاحب اسکول میں معائنے کے لیے آئے۔ اساتذہ نے اسکول کو خوب سجایا۔ ہر جماعت میں کتبے لگائے گئے۔ ہماری جماعت کے استاد روشن خان نے کتبات میں مندرجہ ذیل اشعار لکھے:

 چار دن کی زندگی ہے آپ کو ہے اختیار
دوستی کر لیجیے یا دشمنی کر لیجیے


آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

ان اشعار کا میرے دل پر اثر ہوا۔ پانچویں جماعت کے ایک استاد بے انت سنگھ تھے۔ وہ بالعموم طلبہ کو نیکی کے کاموں کی رغبت دلاتے تھے۔ انھوں نے طلبہ سے ایک ڈائری بنانے کے لیے کہا اور بتایا کہ اس ڈائری میں نیکی کا جو کام بھی کیا جائے لکھا جائے تاکہ اس طرح نیک کام کرنے کی عادت پڑ جائے۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر کوئی بڑا کام نہ کر سکو تو کم از کم راستے میں سے اینٹ اور پتھر ہی ہٹا دو۔ استاد بے انت سنگھ کی باتوں نے بھی مجھے متاثر کیا اور مجھے نیکی سے محبت ہوتی چلی گئی، پھر جب میں نے فارسی پڑھنی شروع کی اور کتاب میں اس طرح کے اشعار پڑھے:

از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم بروید جواز جو

تو ان اشعار اور اساتذہ کی نصیحتوں کے نتیجے میں میرے دل و دماغ میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ نیک کاموں کا بدلہ نیک ہے اور برے کاموں کا بدلہ برا ہے۔

تعلیم چھوڑنے کے بعد میں مطالعہ بھی کرتا تھا اور غور و فکر بھی۔ بت پرستی سے مجھے شروع ہی سے نفرت تھی اور اب میں آریہ سماج کے قریب ہو گیا تھا۔ شرک و بدعات اور مراسم پرستی سے مجھے سخت بے زاری تھی اور میں اپنے معاشرے کا باغی تھا۔ میں نے آریہ سماج کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ستیارتھ پرکاش کو پڑھا اور نظریاتی طور پر میں نے آریہ سماج کے اصول قبول کر لیے، مگر دل اب بھی مطمئن نہیں تھا۔

اس کے بعد میں اپنے تجارتی کاموں نیز دوسرے مشاغل میں مصروف رہا، مگر تلاش حق کا جذبہ برابر کا رما فرما رہا۔ اب میں نے ہر قسم کا مذہبی لٹریچر پڑھا، لیکچر اور وعظ سنے، مگر کوئی ایسا آدمی نہیں ملا، جو مجھے مطمئن کر سکتا۔ اب میرا مطالعہ بہت وسیع ہو گیا تھا اور میں حق بات علی الاعلان کہہ دیتا تھا۔ اس وجہ سے لوگ میری عزت کرنے لگے تھے اور میری حق گوئی سے متاثر بھی تھے، بلکہ بالعموم لوگ مجھے متنازعہ فیہ مسائل میں ثالث و حکم بھی بنانے لگے تھے۔ بلکہ بعض مذہبی معاملات میں بھی میری رائے کو وقیع سمجھنے اور ماننے لگے۔

‘‘ستیارتھ پرکاش’’ میں آریوں کے لیے دس اصول لکھے گئے ہیں۔ ان میں سے چھٹے اصول پر مجھے شک ہوا اور وہ اصول میری نظر میں بالکل باطل ٹھہرا اور اب میں آریہ سماج سے بھی متنفر ہو گیا۔ اب میں نے اسلامی کتب کا خاص طور سے مطالعہ شروع کیا۔ میاں والی مولویاں میں ایک فارغ التحصیل طالب علم تھے۔ بعض مباحث میں جب میں ان سے رجوع کرتا تو وہ مجھے مطمئن نہ کر سکتے تھے۔ اسی دوران میں نے اپنے ایک ہم جماعت ولی محمد سے کہا میں اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میرے بڑے بھائی علی محمد صاحب سے گفتگو کرو۔ وہ آپ کو معلومات بہم پہنچا سکیں گے۔ میں جب علی محمد صاحب کے پاس گیا تو وہ ایک ضروری کام میں مصروف تھے، مگر وہ میری طرف فوراً متوجہ ہوئے۔ میں نے گوشت خوری پر اعتراض کیا کہ یہ جانوروں پر سراسر ظلم ہے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا سبزیوں میں روح ہے یا نہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انھوں نے کہا کہ پھر تو سبزی خور بھی ‘‘جیوہتیا’’ کے مرتکب ہوئے۔ ان کے اس جواب سے میں سوچ میں پڑ گیا۔ میں کئی مہینے تک ان کے پاس جاتا رہا۔ وہ میرے بہت سے سوالوں اور اعتراضات کے تسلی بخش جواب دیتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے اطمینان کی منزل تک پہنچا دیا اور اب میں اسلام کو سچا مذہب سمجھنے لگا۔ ایک روز میں نے اپنے باپ سے اس سلسلے میں گفتگو کی اور ان سے کہا: میں نے مختلف مذاہب کا مطالعہ اور تحقیق کی ہے اور اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلام سب سے بہتر مذہب ہے۔ باپ: بیٹے! سب مذہبوں کا مدعا اور مقصد ایک ہے، لیکن لوگوں نے جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے ان کو مسخ کر دیا ہے۔

میں: اسلام میں عبادت اور اس کا طریقہ نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ ہے۔ اس کی مثال کوئی دوسرا مذہب نہیں پیش کر سکتا۔

باپ: میں مانتا ہوں کہ ایسی پاکیزہ عبادت کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔

اس کے بعد میں نے اس گفتگو کو طول دینا مناسب نہ سمجھا، مگر میں علی محمد صاحب کے پاس برابر آتا جاتا رہا۔ اب میری ذہنی کیفیت عجیب تھی۔ میں برابر اسلام کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ رات کو جب سوتا تو دیکھتا کہ ایک سفید پرندہ میرے اوپر سے اڑ کر جاتا ہے۔ یہ کیفیت مہینوں رہی۔ میں اکثر خواب میں پرواز کرتا تھا اور دہلی کی طرف جاتا تھا۔ یہاں ایک بات کا ذکر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ کپور تھلہ کی جامع مسجد کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ ایسی نفیس اور عالی شان مسجد تھی کہ جس کو میں گھنٹوں دیکھا کرتا تھا۔ بات یہ تھی کہ وہ مسجد جامع مسجد دہلی کے نقشے کے مطابق نئے مسالے سے بنی تھی، چونکہ میں ابھی باقاعدہ داخل اسلام نہیں ہوا تھا، لہٰذا میں نے مسجد میں داخلے کا یہ حل نکالا کہ مسجد میں جا کر حوض پر بیٹھتا اور وضو کرتا رہتا۔ اس طرح مسجد کو دیکھتا رہتا تھا۔

میں اپنے مسلمان دوستوں اور خصوصاً شیخ نظام الدین درزی سے برابر ملتا رہتا تھا اور اسلام کی تعلیمات حاصل کرتاتھا۔ ایک روز میرے بڑے بھائی نے جو نہایت زیرک اور قیافہ شناس تھے، مجھے وضو کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ہاتھ منہ دھو رہا ہوں۔ میرے مولوی صاحب جن کے پاس میں عربی پڑھنے جاتا ہوں ، وہ اسی طرح ہاتھ منہ دھوتے ہیں۔ یہ سن کر بھائی نے کہا کہ عربی پڑھنے مت جایا کرو، مگر اب تو میں نے نماز بھی سیکھنی شروع کر دی تھی او رمجھے سورۂ اخلاص وغیرہ پوری یاد ہو گئی تھیں۔

ایک دن میں سو کر اٹھا تو بے اختیار میرے منہ سے ‘لا الٰہ الا اللہ’ نکلا ۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام میں سچی اور پکی توحید موجود ہے۔ اب رسالت کا معاملہ رہ گیا۔ ہمارے پڑوس کے ایک گاؤں میانوالی (مولویاں) میں مولوی جلیل الرحمن ایک حنفی عالم رہتے تھے۔ میں نے ان سے رابطہ قائم کیا اور مذہبی مباحث پر گفتگو کرتا تھا۔ شیعہ اور قادیانی لٹریچر بھی میں نے خوب پڑھا اور ان فرقوں کے متعلق مجھے بہت معلومات حاصل ہو گئیں اور میں ان کی اصلیت و حقیقت سے پوری طرح واقف ہو گیا۔ شیخ نظام الدین اور ان کے بھانجے خوشی محمد سے میرا رابطہ اور ملاقاتیں برابر جاری رہیں۔ یہ لوگ اہل حدیث تھے۔ میرا رجحان بھی اہل حدیث مسلک کی طرف ہو گیا، بلکہ ایک مرتبہ مجھ میں او رمولوی جلیل الرحمن میں تقلید و عدم تقلید کے مباحث پر گرما گرم بحث اور تلخی بھی ہو گئی۔ میں نے اہل حدیث مسلک کی زور دار طریقے سے حمایت کی۔

اب میں نماز یاد کر چکا تھا اور ضروریاتِ دین سے پوری طرح واقف ہو چکا تھا۔ ایک روز میں نظام الدین صاحب کی دکان پر گیا اور ان سے کہا کہ اب میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ اپنے اسلام کا اعلان کر دوں اور علی الاعلان فرائض اسلام بجا لاؤں اور میں نے یہ طے کیا ہے کہ میں اپنے اسلام کا اعلان جامع مسجد دہلی، جامع کپور تھلہ، امرتسر یا لاہور میں کروں۔ میری اس بات کو سنتے ہی شیخ نظام الدین نے فوراً اپنی دکان کا دروازہ بند کیا اور کہنے لگے کہ ایسی گفتگو آہستہ کیجیے۔ اگر کہیں تمھارے خاندان والوں کو پتا چل گیا تو میرا سر پھوڑ دیں گے اور میرے گھر بار کو تباہ و برباد کر دیں گے۔

اس کے بعد طے ہوا کہ خوشی محمد سے مشورے کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے۔ چنانچہ مجلس مشاورت منعقد ہوئی اور طے پایا کہ دہلی جا کر میں اپنے اسلام کا اعلان کروں، چنانچہ ۳ اپریل ۱۹۳۳ء کو ایک بجے میں خوشی محمد کی معیت میں اپنے گھر سے نکلا ، گویا کفر و ضلالت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر اسلام و ایمان کی طرف بڑھا۔ دنیا کے سارے رشتے توڑے اور اللہ سے رشتہ جوڑا۔

میں نے اس سے پہلے اپنے والد کو سارا حساب کتاب جو مجھ سے متعلق تھا، سونپ دیا تھا اور جو رقم میری تحویل میں تھی، وہ ان کے سپرد کر دی تھی۔ صرف آٹھ روپے ساڑھے چودہ آنے جو میری ذاتی پونجی تھی، وہ اپنے پاس رہنے دیے۔ یہ میرا کل اثاثہ تھا۔ رات کو ہم نے شاہ کوٹ میں قیام کیا، مسلمانوں کا محلہ تھا۔ سڑک کے کنارے سوئے۔ وہیں خوشی محمد نے قاضی سلمان منصور پوری مرحوم کی کتاب ‘‘رحمۃ للعالمین’’ کی پہلی جلد لا کر دی۔ میں نے اس جلد کا خاص طور پر وہ حصہ پڑھا، جو صحابۂ کرام کے اسلام لانے اور مصائب و آلام برداشت کرنے اور ثابت قدم رہنے سے متعلق تھا۔ تقریباً نوے صفحات تھے۔ رات کو گائے کا گوشت پکا کر کھایا اور اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں کیں۔ صبح سات بجے ہم شاہ کوٹ سے دہلی روانہ ہو گئے۔ راستے میں نکودر میں ایک صاحب مولوی محمد عیسیٰ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جب ان کو میرے عزائم معلوم ہوئے تو انھوں نے کہا کہ مسلمان ہونے کے بعد داڑھی رکھنی پڑے گی۔ میں نے کہا: ضرور رکھوں گا۔

شام کو ساڑھے آٹھ بجے دہلی پہنچے۔ خوشی محمد صاحب مجھے مولوی عبد الوہاب ملتانی کے مدرسے میں لے گئے۔ اس وقت وہاں نماز عشا ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد خوشی محمد نے مولوی عبد الستار صاحب سے میرا تعارف کرایا اور مقصد بیان کیا وہ مجھے باقاعدہ مسلمان کر لیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ اب اسی طرح سلا دو، صبح ترجمہ قرآن کریم سنانے کے بعد مسلمان کریں گے۔

میرے دل پر اس کا بہت برا اثر ہوا کہ ا س کام میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے تھی۔ مبادہ میرا ارادہ بدل جاتا، بہرحال مجھے ایک رات اور غور کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اختلافات ہیں۔ مجھے سب سے اقرب الی الحق فرقے کی طرف رہنمائی فرما۔ رات کو مجھے اطمینان ہوا کہ میں اہل حدیث مسلک کو اختیار کر لوں۔ ساتھ ہی میں نے دعا کی:

‘‘خدایا! میں بالکل کنارے پر کھڑا ہوں۔ مجھے حق کی روشنی دکھا۔’’ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ ایک مجمع عام ہے۔ ا س میں اسلام کی حقانیت پر مباحثہ و مناظرہ ہو رہا ہے، جس میں اسلام پر تقریر کرنے والا شخص مظفر و منصور ہوا ہے، چنانچہ جب میں بیدار ہوا تو میرے دل کو سکون و اطمینان تھا اور میں نے سمجھ لیا کہ اسلام دین ِ حق ہے۔

صبح اذان ہوئی تو میں نماز میں شریک ہوا۔ نماز کے بعد مولوی عبد الستار صاحب کا درس قرآن ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے باقاعدہ مسلمان کیا اور میرے اسلام لانے کا اعلان عام ہو گیا۔ مولوی صاحب نے میرا نام عطاء اللہ تجویز کیا، جو ایک سال تک جاری رہا، مگر مجھے اپنا نام ارشاد اللہ پسند تھا، مگر جب میں نے حدیث میں پڑھا کہ اسلام میں پسندیدہ نام عبد اللہ، عبد الرحمن ہیں تو میں نے اپنا نام عبد الرحمن رکھ لیا اور اب میں اسی نام سے مشہور ہوں۔ میری زندگی کا یہ عظیم واقعہ (قبول اسلام یا اعلان اسلام) ۴ اپریل ۱۹۳۳ء مطابق، ذی الحجہ ۱۳۵۱ ھ کو ہوا۔ ‘واللہ یہدی من یشاء’۔ میں نے جامع مسجد دہلی کے امام صاحب سے اپنے اسلام لانے کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور وہ سرٹیفکیٹ خوشی محمد صاحب کو دیا تاکہ ان پر کوئی مصیبت نہ پڑے۔ ساتھ ہی میں نے اپنے اہل خاندان کو بذریعہ ڈاک مطلع کر دیا کہ بلا کسی جبر و اکراہ کے برضا و رغبت میں نے اسلام کو دین ِ حق سمجھتے ہوئے قبول کر کیا ہے۔ اس میں کسی کی ترغیب و تحریص و تخویف کو مطلق دخل نہیں ہے۔ میرے اس فعل کا کوئی شخص محرک و ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کے بعد یہ معاملہ ختم ہو لیا، البتہ میری بہن سودھابی زوجہ لالہ کشوری لال ساکن کپور تھلہ نے جو اس وقت دہلی میں مقیم تھی، ضرور ہاتھ پاؤں مارے۔ اس زمانے میں اس نے تقریباً نو سو روپے خرچ کیے۔ مختلف اسکیمیں اور منصوبے بنائے، مجھے اغوا کرنا چاہا، مگر سب بے سود ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر میری حفاظت اور مدد فرمائی۔

اب میں نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی اور مدرسہ دار الکتاب والسنہ میں پڑھنے لگا۔ میرے اسلام لانے کے ایک سال آٹھ ماہ کے بعد میرے رشتے کی بات چیت ہوئی۔ مولوی عبد الستار دہلوی مرحوم کی بڑی پھوپھی کی پوتی اور چھوٹی پھوپھی کی نواسی کے ساتھ میری شادی ہو گئی۔

میں نے مسجد فتح پوری کے مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کی۔ کچھ دنوں مدرسہ صدیقیہ میں بھی پڑھا۔ جب میں فارغ التحصیل ہو گیا تو مدرسہ دار الکتاب والسنہ میں باقاعدہ تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ شروع شروع میں مجھے پڑھانے میں دقت ہوئی، لہٰذا میں مولوی عبد الجلیل صاحب کے پاس سامرود (ضلع سوات، پاکستان) چلا گیا۔ ان کے پاس میں نے پھر تمام کتابیں پڑھیں۔ اب مجھے اپنے اوپر اعتماد ہو گیا او ربانشراح خاطر پڑھانے لگا۔ چھ ماہ میں نے مدرسہ اوڈوانوالہ (ضلع لائل پور، پاکستان) میں بھی پڑھایا۔ اس کے بعد میں دہلی آ گیا۔ دو سال تک میں پھر مدرسہ دار الکتاب والسنہ میں پڑھاتا رہا۔ اس کے بعد میں نے دہلی میں مسجد نیم والی (پہاڑ گنج) میں اپنا مدرسہ قائم کر لیا اور کتابوں کی تجارت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ستمبر ۱۹۴۷ء تک میرا یہی مشغلہ رہا۔

تقریباً چھ سال میں دہلی میں صحیفۂ اہل حدیث کا منیجر رہا۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب (گوجرانوالہ) اور میرے درمیان ایک بحث تقریباً آٹھ ماہ جاری رہی۔ بحث یہ تھی کہ مسلمان کو اپنے لیے بحیثیت مسلمان کیا کہنا چاہیے: مسلمان یا اہل حدیث؟ میں کہتا تھا کہ مسلمان کہنا چاہیے۔ مولوی محمد اسماعیل گوجرانوالی کہتے تھے کہ اہل حدیث ۔ شیخ عبید اللہ (شیخ الحدیث مدرسہ رحمانیہ، دہلی) حکم قرار پائے۔ انھوں نے کہا کہ میں عبد الرحمن کی رائے سے متفق ہوں۔ میں نے شیخ عبید اللہ صاحب سے علم حدیث کا درس دینا سیکھا ہے۔ بخاری شریف اور ترمذی شریف کا درس شیخ عبید اللہ صاحب ہی نے مجھے سکھایا۔

قیام پاکستان کے بعد جب دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو میں نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور ۷ نومبر ۱۹۴۷ء کو لاہور آ گیا۔ دس ماہ منٹگمری میں رہا۔ پھر مدرسہ ڈھلانہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ یہ سلسلہ ۲۸ فروری ۱۹۴۸ء تک رہا۔ اس کے بعد میں کراچی آ گیا اور جماعت اسلامی کراچی کا ناظم دفتر مقرر ہوا اور ایک مسجد میں بلامعاوضہ خطابت کے فرائض بھی انجام دیتا رہا۔ جماعت ِ اسلامی کے بعض حضرات سے کچھ اختلاف ہو گیا، لہٰذا میں نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ میرے چار لڑکے ، ۱۔ عبد المنان، ۲۔ حبیب الرحمن’ ۳۔ خلیل الرحمن اور ۴۔ عبید الرحمن ہیں۔ اول الذکر جیالوجسٹ ہیں اور اس وقت امریکہ میں ہیں۔

٭٭٭