گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مصنف : سمیرا دانش

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2011

            سنجیدہ بچپن سے ہی بڑی شوخ مزاج لڑکی تھی. پتا نہیں اس کے والدین نے اس کا نام سنجیدہ کیوں رکھا تھا. اپنی عادات اور رویوں کی وجہ سے وہ اپنے نام کے بالکل بر عکس تھی. ہر وقت شرارتیں کرنا اور دوسروں کو تنگ کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا. سنجیدہ اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے بہت مشہور تھی. بہت سے لوگ سنجیدہ کی اس چلبلی سی عادت سے بہت جلتے بھی تھے.کچھ بڑی بوڑھیاں اسے سمجھاتیں کہ زیادہ ہنسنے کھیلنے سے دشمنوں کی نظر لگ جاتی ہے اس لئے کم ہنسا کھیلا کرو مگر سنجیدہ ان سب کی باتوں کو بھی ہنسی میں ہی اڑا دیتی تھی اور اپنی ہی طبیعت میں خوش رہتی تھی.سنجیدہ صرف خوش مزاج ہی نہیں بلکہ طبعاً بہت حساس اور سمجھدار بھی تھی۔ وہ اپنی ماں اور بہن کا بہت خیال رکھتی تھی اور ان کے متعلق سوچتی رہتی ۔یہ بتانا تو میرے ذہن سے نکل ہی گیا کہ سنجیدہ کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام ماجدہ تھا۔ ابھی دونوں چھوٹی ہی تھیں کہ ان کے والد ایک ٹریفک حادثہ میں وفات پا گئے. اس موقع پر ان کی والدہ کو بچیوں کی پرورش کے لئے ایک سکول میں ٹیچنگ کرنا پڑی. بچیوں کی دیکھ بھال گھر پر ان کی دادی کی ذمہ داری تھی. دادا اور دادی دونوں ان بچیوں پر جان چھڑکتے تھے. پھر پہلے دادا اور چند سال بعد دادی کی وفات ہو گئی. اس وقت تک دونوں بچیاں جوان ہو چکی تھیں. سنجیدہ کی نسبت اس کی بہن ماجدہ بہت چالاک مگر بظاہر خاموش لڑکی تھی. ماں سکول ٹیچر تھی اس لئے دونوں بہنیں پڑھائی میں خاصی لائق تھیں. البتہ اگر مقابلہ کیا جاتا تو ماجدہ پڑھائی اور دیگر امور خانہ میں سنجیدہ سے تھوڑی کمزور تھی. اسی وجہ سے ماجدہ کے دل میں سنجیدہ کے لئے کدورت رہا کرتی تھی. وہ کسی نہ کسی بہانے سنجیدہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی. وہ کوشش کرتی کہ سہیلیوں اور ماں کے پاس سنجیدہ کی برائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے. اس کے بر عکس سنجیدہ ہمیشہ اس سے پیار کرتی اور اسکی بہتری کا سوچا کرتی تھی.دونوں بہنوں میں ایک سال کا فرق تھا لیکن وہ ہم جماعت تھیں. میں بھی ان کے بچپن کی سہیلی تھی. ہم تینوں نے ایف اے تک اکٹھے تعلیم حاصل کی اور بڑی گہری سہیلیاں تھیں.دوران تعلیم ہم تینوں میں بڑی اچھی دوستی تو تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ مقابلہ بھی بہت تھا. ویسے تو ہم تینوں خوش شکل تھیں لیکن سنجیدہ ہر تقریب میں ہم پر بازی لے جاتی تھی.کالج کا کوئی فنکشن ہو یا محلے میں کوئی شادی بیاہ، سنجیدہ ہی ہر کسی کی نگاہ کا مرکز ہوتی تھی. اس کا شوخ انداز اس کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتاجبکہ ماجدہ اس پر جلتی رہتی تھی.

            ایف اے کرنے کے بعد میری شادی میرے کزن سے ہو گئی اور میں اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے شہر چلی آئی. اب گھر کی مصروفیات کی وجہ سے ان سہیلیوں سے رابطہ کم ہو گیا.اس وقت ٹیلیفون عام نہ تھے. میں امی کو بھی خط لکھا کرتی تھی یا کبھی کبھار فون کر لیتی. ایک خط میں امی نے مجھے سنجیدہ کی شادی کے بارے میں بتایا تو مجھے بہت خوشی ہوئی. میں نے بھی سنجیدہ کو اس کی شادی پر مبارکباد کا خط لکھا جس کا اس نے بہت پیار سے جواب دیا. اس کے خط سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے. مجھے بھی اس پر بہت خوشی ہوئی کہ میری سہیلی اچھی زندگی گزار رہی ہے. وہ اپنے خصائل اور عادات اور رنگ روپ کی بنا پر اس قابل تھی کہ اپنے گھر میں راج کرتی. میں شادی کے بعد دوسرے شہر میں ہونے اور گھر کی مصروفیات کی وجہ سے امی کے گھر سال دو سال بعد ہی آتی تھی. اس بار میں دو سال بعد اپنے میکے آئی تو گھر آتے ہی میں نے سب سے پہلے ان دو سہیلیوں کے بارے میں اپنی امی سے پوچھا. امی ان کا ذکر سن کر رونے لگیں. مجھے بہت فکر لاحق ہوئی‘‘ کیا ہوا امی خیریت تو ہے نا؟‘‘ مجھے تشویش ہوئی. امی کی خاموشی نے تو مجھے اور فکر مند کر دیا تھا. ’’امی!مجھے جلدی سے بتائیں کیا ہوا ہے. سب خیر خیریت تو ہے نا؟‘‘’’بیٹا! کیا بتاؤں اس گھر کو تو کسی کی نظر کھا گئی ہے. سنجیدہ تو وہ سنجیدہ ہی نہیں رہی. اس پر تو قیامت گزر گئی ہے. بے چاری کے ساتھ بہت برا ہوا ہے.‘‘ پھر امی تفصیل بتانے لگیں ’’سنجیدہ کی شادی ہوئی تو وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی. اس کے سسرال والے بھی بہت اچھے لوگ تھے. مگر پھر اس کا شوہر..‘‘امی نے بات روکتے ہوئے کہا‘‘اللہ تعالٰی کسی بھی عورت کو یہ وقت نہ دکھائے. دعا کرو کہ کبھی کسی کے ہستے بستے گھر کو نظر نہ لگے‘‘ یہ بات کہہ کر امی اداس ہو گئیں. آخر وہ بھی بیٹیوں والی تھیں اور کسی معصوم بیٹی کا دکھ کیسے دیکھ سکتی تھیں.’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اتنا سا سن کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا. میں سنجیدہ کے بارے میں سب کچھ جلدی جلدی جاننا چاہتی تھی.’’سنجیدہ اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش تھی. اس کا دیور باہر رہتا ہے. اس نے ان دونوں کو اپنے پاس پندرہ دن کے لئے سیر کو بلایا. یہ سنجیدہ کی زندگی کے یادگار دن تھے. واپس آ کر سنجیدہ بڑی خوشی سے اپنی تصاویر ہر کسی کو دکھا رہی تھی. اس کے پیر خوشی سے زمین پر نہ لگتے تھے. وہ اپنے شوہر شاہد کی تعریفیں کرتی نہ تھکتی تھی. اسے بہت پیار کرنے والا شوہر ملا تھا.ہم اسے دیکھتے تو اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے اور اسے دعا دیتے تھے کہ خدا اسے نظر بد سے بچائے کیونکہ حاسدین کی نظر سب کھا جاتی ہے.سبھی لوگ خوش تھے سوائے سنجیدہ کی چھوٹی بہن کے. اسے بہن کی خوشی پر رشک کی بجائے غصہ آتا. بظاہر اس نے محسوس نہ ہونے دیا مگر وہ اندر ہی اندر سنجیدہ کی اس خوشحال زندگی پر جلتی رہتی تھی. وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ دیکھ لینا ایک دن سنجیدہ سے بہتر گھر میں جاؤں گی. یہ کیا ہے۔سنجیدہ کی ماں بھی بہت خوش تھی. جب بھی سنجیدہ اپنے شوہر کے ہمراہ اپنے میکے آتی تو ماجدہ کو بہت برا لگتا. وہ کوشش کرتی کہ سنجیدہ میں کوئی نہ کوئی نقص ڈالے. کبھی کہتی یہ تم نے کیا بڑی بوڑھیوں کی طرح اوپر چادر ڈال رکھی ہے، کبھی اس کی لپسٹک میں کوئی خامی نکال لیتی. کبھی کہتی تمہیں تو ڈھنگ کے کپڑے پہننے کا سلیقہ ہی نہیں رہا. بعض اوقات وہ اسے موٹا ہونے کا طعنہ دیتی اور کہا کرتی دیکھو اتنی موٹی اور بھدی نہ ہو جانا کہ اپنے میاں کے ساتھ چلتی اچھی نہ لگو. اس طرح وہ ہر دفعہ نیا کیڑا تلاش کر کے سنجیدہ کا دل دکھانے کا بہانہ ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی. تاہم سنجیدہ نے ان باتوں کو کبھی سنجیدگی سے نہ لیا. وہ سمجھتی تھی کہ اس کی بہن اس کی بھلائی کے لئے سب کچھ کہہ رہی ہے. وہ ماجدہ کے لئے بھی اپنے سسرال میں کوئی اچھا سا رشتہ تلاش کر رہی تھی تا کہ اس کی بھی شادی کر دی جائے.دن اسی طرح گزرتے گئے. شاہد بھی سنجیدہ کے ساتھ بہت خوش تھا. وہ بھی اس کی تعریف کرتے نہ تھکتا اور خود کو خوش قسمت کہا کرتا تھا.اسی دوران خدا اس جوڑے پر مہربان ہوا جس پر یہ دونوں بہت خوش تھے. دن رات وہ اپنے ہونے والے بچے کا نام سوچا کرتے اور باتیں کر کے بہت خوش ہوتے تھے.ایک طرف یہ خوشیاں تھیں اور دوسری طرف قسمت ان کے لئے کچھ اور ہی فیصلہ کر رہی تھی. ہوا یہ کہ ایک دن شوہر سے ضد کر کے وہ موٹر سائیکل پر اس کے ساتھ کہیں جا رہی تھی، شاہد اسے کار پر جانے کا اصرار کر رہا تھا. لیکن وہ نہ مانی اور وہ دونوں موٹر سائیکل پر چل دئیے. واپس آتے ہوئے ایک اچانک آنے والے سپیڈ بریکر سے موٹر سائیکل اچھلی اور سنجیدہ موٹر سائیکل سے گر گئی. گرتے ہی وہ بے ہوش ہو گئی. اسے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا. ڈاکٹروں نے اس کی حالت کے پیش نظر اس کا فوری طور پر آپریشن کیا. حادثے میں اس کی جان تو بچ گئی مگر اس کی گود کا خوبصورت پھول اب اس کے پاس نہ رہا تھا. وہ اپنے ہونے والے بچے سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے.وہ تین دن تک زیر علاج رہی. لیڈی ڈاکٹر نے اس کے گھر والوں کو بتایا کہ حادثے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے بچے سے محروم ہو گئی ہے بلکہ حادثے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اب وہ کبھی ممتا کے رشتے میں نہیں بندھ سکے گی. یہ سن کر سنجیدہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی. اس کی دنیا اندھیر ہو گئی.یہ خبر شاہد پر بجلی بن کر گری. سارے خاندان میں سوگ کی فضا تھی مگر قسمت کے لکھے کے سامنے سبھی بے بس تھے.آخر تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے.اس سارے ہنگامے میں اگر کوئی مطمئن تھا تو وہ سنجیدہ کی بہن ماجدہ تھی. بظاہر تو وہ بڑی اداس دکھائی دیتی مگر اسے اندر سے بہت عجیب سی خوشی محسوس ہوتی تھی جس کا اظہار اس کے لہجے سے ہوتا تھا.کچھ دن ہسپتال رہنے کے بعد سنجیدہ گھر آئی. وہ بہت بجھی بجھی سی رہنے لگی تھی. ہر وقت ہنسنے ہنسانے والی سنجیدہ واقعی سنجیدہ ہو گئی تھی. وہ شدید ڈپریشن کا شکار تھی. ہر وقت اپنے کمرے میں پڑی چھت کو گھورتی رہتی.کبھی کبھی رونے لگتی اور کہتی کہ اب مجھے کوئی ماں نہیں کہہ سکے گا. میں کسی بچے کو اپنی بانہوں میں نہیں کھلا سکوں گی.شاہد اس کی دلجوئی کی بھرپور کوشش کرتا اور کہتا کہ مجھے تمہاری زندگی عزیز ہے. پھر یہ کہ ڈاکٹر کوئی خدا تو نہیں کہ ان کا کہا حرف آخر ہو. خدا ہمیں ضرور اولاد سے نوازے گا. تم بس خوش رہا کرو. سب ٹھیک ہو جائے گا.پہلے سنجیدہ کی ماں اس کے پاس آ گئی مگر وہ بھی سرکاری ملازم تھی، زیادہ چھٹیاں نہ کر سکتی تھی اس لئے اس نے ماجدہ کو سنجیدہ کے پاس بھیج دیا تا کہ اس سے بہن کا دل بہلا رہے.شاید ماجدہ اسی وقت کے انتظار میں تھی. ،ماجدہ نے اس گھر میں آتے ہی سنجیدہ پر حسب عادت نکتہ چینی شروع کر دی مثلاً یہ کہ وہ شاہد کو توجّہ نہیں دیتی، اس نے اپنا خیال رکھنا چھوڑ دیا ہے، وہ اب زیادہ دلکش نہیں لگتی وغیرہ وغیرہ. یہی نہیں اس دوران ماجدہ نے شاہد کو بھی توجّہ دینا شروع کر دی. وہ شاہد جو سنجیدہ پر جان چھڑکتا تھا اب اس سے دور ہونے لگا. وہ ہر وقت ماجدہ سے ہنس ہنس کر بات کرتا مگر سنجیدہ اس معاملے پر کوئی توجّہ نہ دیتی.رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ شاہد اور ماجدہ بہت قریب آ گئے. شاہد نے اب سنجیدہ کو یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ اس کی وجہ سے ان کی ہنستی بستی زندگی جہنم بن گئی. سنجیدہ کی ماں کو پتہ چلا تو وہ دوڑی آئی مگر شاہد نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اب زیادہ دیر سنجیدہ کے ساتھ نہیں چل سکتا.حالات کو دیکھ کر سنجیدہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ چند دن کے لئے میکے آ گئی. اس دوران شاہد نے اسے طلاق بھجوا دی. اس نے یہ بھی کہا کہ اسے اولاد کی تمنا ہے. وہ زیادہ دیر تک اس بانجھ دھرتی کو اپنے گھر کی زینت نہیں بنا سکتا.شاہد نے شروع میں ماجدہ کے رشتے کے لئے اس کی والدہ سے اصرار کیا. جب اس کی والدہ رشتہ پر آمادہ نہ ہوئی کیونکہ اس کو بڑی بیٹی کا دکھ تھا تو شاہد اور ماجدہ نے کورٹ میرج کر لی. اس تازہ واقعہ نے تو سنجیدہ کو مزید کمزور اور بیمار کر دیا. شدید ڈپریشن کی وجہ سے وہ بات بے بات رو دیتی تھی. اس پر قیامت ڈھانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اس کا اپنا شوہر اور بہن تھے.

            میں نے امی سے جب سنجیدہ کی کہانی سنی تو خود پر قابو نہ رکھ سکی. فوراً اس سے ملنے اس کے گھر گئی. سنجیدہ کو دیکھ کر لگا جیسے کوئی ڈھانچہ چل پھر رہا ہو. مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو رواں ہو گئے. وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی کہ ’’میں نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، میں تو ہمیشہ لوگوں میں خوشیاں بانٹتی رہی ہوں، پھر میرے اپنوں نے ہی میری زندگی کیوں اجاڑ دی. میرے دل کا خون کر دیا.‘‘ وہ دھاڑیں مار مار کر رو دی اور میرے بھی آنسو نکل پڑے. میں کافی دیر اس کے پاس بیٹھی اسے دلاسا دیتی رہی مگر میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا. پھر میں جتنے دن امی کے ہاں رہی روز سنجیدہ سے ملنے جاتی. اس کے بعد کبھی اس نے مجھ سے کھل کر دل کی بات نہ کی. اسے چپ لگ گئی تھی.میں ایک ماہ امی کے ہاں رہنے کے بعد واپس آ گئی. گھر آ کر بھی سنجیدہ کے بارے میں سوچتی رہی. وقت نے اسے کس قدر بدل دیا تھا.ایک دن میں نے امی کو فون کیا تو ان کی آواز رندھی ہوئی تھی. میں نے پوچھا کیا ہوا تو امی نے روتے ہوئے بتایا ’’سنجیدہ فوت ہو گئی-.....‘‘یہ خبر مجھ پر بجلی بن کر گری. امی بتا رہی تھیں کہ مرنے کے بعد اس پر کس قدر روپ چڑھا تھا، یوں جیسے وہ آرام کی نیند سو رہی ہو. واقعی اس نے دنیا میں آ کر بہت دکھ سہے تھے. وہ بھی پھر اپنوں کے دئیے دکھ. بے حس زمانے کے زخم جن کی کسک اسے قبر کی چار دیواری میں لے گئی. خدا اسے قبر میں ابدی سکون عطا فرمائے.(آمین)

 اب میں اس انتظار میں ہوں کہ ماجدہ مکافات عمل کا کب شکار ہوتی ہے۔