ہومیو پیتھک طریقہ علاج

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : مئی 2011

 

     تیس برس پہلے کی بات ہے ۔ راقم کی آنکھوں میں پانی آنے کی شکایت جب عام ڈاکٹروں کے نسخوں سے رفع نہ ہوئی ، تو فیصلہ کیا کہ سول ہسپتال گوجرہ جایا جائے ، جہاں حافظ لطیف صاحب آئی سپیشلسٹ تھے اور ان کے‘ دستِ شفا’کی کافی شہرت تھی۔ حافظ صاحب نے Betnesol N آئی ڈراپس تجویز کیے ۔دو ہفتے کے بعد پھر گیا تو پھر وہی دوا تجویز کی ۔ ایک ماہ بعد جانا ہوا تو پھروہی دوا۔ راقم نے عرض کیا ، ڈاکٹر صاحب یہ دوا تو بہت استعمال ہو چکی ۔ جب تک استعمال کرتا رہتا ہوں ،تھوڑا بہت افاقہ رہتا ہے اورجب چھوڑ دیتا ہوں تو پھر وہی تکلیف شروع ہو جاتی ہے ۔ کیا یہ مرض دور بھی ہو گی کہ نہیں؟ ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور آہستہ سے کہنے لگے ، کہ نہیں ۔ میں نے کہا مجھے اس کا مستقل علاج چاہیے ۔ کہنے لگے ، برخوردار یہاں تو ایسے ہی ہو گا ، مستقل علاج چاہیے تو کسی ہومیو پیتھک ڈاکٹر سے اس دوا کی ایک پڑیا لے کر کھا لینا ، ٹھیک ہو جاؤ گے ۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے ایک پرچی پر آرجینٹم نائیٹریکم ۲۰۰لکھ کر دے دی۔میں واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ آیا اور ایک ہومیو ڈاکٹر سے یہ دوا لے کر کھا لی۔اللہ کا کرم ہے کہ اتنا عرصہ ہو گیا ، یہ مرض دوبارہ نہیں ہوئی۔ 
    یہ ہومیو پیتھی سے میرا پہلا تعارف تھا۔ اور اسی تعارف نے اس طریقہ علاج سے ایک انس پیدا کر دیا چنانچہ اسی انسیت کے تحت ہم نے ۱۹۸۸ سے لے کر ۱۹۹۲ تک باقاعد ہ اس علم کو حاصل کیا اگرچہ غم روزگار نے کبھی پریکٹس کی مہلت نہ دی لیکن وقتاً فوقتاً ہم اس کی کرامات کا تجربہ کرتے رہے۔
    پیدایش کے دو ہی دن بعد میرے چھوٹے بیٹے کی طبیعت کافی خراب ہوگئی ۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ شدید یرقان ہے اسے آپ کسی سپیشلسٹ کے پاس لے جائیے ۔ چنانچہ ہم اسے لاہور کے ایک معروف چلڈرن سپیشلسٹ کے پاس لے گئے ۔وہ حضرت دیکھ کر کہنے لگے ، معاملہ نازک ہے ۔ یہ بچہ علاج سے درست نہ ہوگا اس کا خون تبدیل کرنا پڑے گا۔میں نے کہا ، کوئی اور حل ؟ کہنے لگے ، کوئی نہیں ۔ ایمر جینسی کی کیفیت ہے آپ اسی وقت زینت لیبارٹری لے جائیے اور اس کا بلڈ ٹیسٹ کروا لائیے ۔ تا کہ فوراً ہم اس کا علاج شروع کرسکیں۔ چنانچہ اسی وقت رات کے گیارہ بجے ہم میا ں بیوی لیبارٹر ی پہنچے ڈاکٹر زینت سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے کہا ، میں اتنے چھوٹے بچے کے خون کا سیمپل کیسے نکالوں؟ کس ڈاکٹر نے تجویز کیا ہے ؟ میں نے ڈاکٹرکا نام بتایا،تو اس نے کہا اسے کہو کہ خون خود نکال دے ، ٹیسٹ ہم کر دیں گے ۔ میں یہ رسک نہیں لے سکتی۔چنانچہ ہم واپس ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو وہ صاحب یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے اور کہنے لگے کہ نہیں ، میرے پاس تو ضروری انسٹرومنٹ نہیں ہیں ۔ اس لیے ممکن نہیں ۔ اچھا ایسے کرو کہ اسے عمر ہسپتال گلبرگ لے جاؤ ، وہا ں فلا ں ڈاکٹر ہو ں گے انہیں میرا کہنا وہ بلڈ سیمپل لے دیں گے اور پھر تم اسے ٹیسٹ کروا لانا۔ہم پھر رات بارہ بجے عمر ہسپتال پہنچے ۔ وہاں مجوزہ ڈاکٹر موجو دنہیں تھے دوسرے ڈاکٹر نے کہا کہ بھائی یہ رسک میں نہیں لے سکتا۔ اتنے چھوٹے بچے کا خون سر کی رگ سے لینا پڑے گا ۔ اور وہ کسی انتہائی ماہر کے لیے ممکن ہے ، آپ صبح آ جائیے گا۔ میں نے بیگم سے مشورہ کیا کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہی نظر آتا ہے کیوں نہ واپس گھر چلیں ، اللہ مالک ہے ، جاکر ہومیو پیتھک علاج شروع کرتے ہیں۔ چنانچہ اگلے دن استا د محتر م ڈاکٹر رشید صاحب کے پاس حاضر ہوا اور ان سے مشورہ کیا انہوں نے کہا ، کچھ بھی خطرناک نہیں ، چھوٹے بچوں کو اتنا یرقان تو عام طور پر ہو ہی جایا کرتا ہے ۔ آرام سے گھر رہو اور اس کو روشنی میں رکھو ، صبح دم سورج کی کرنیں لگوایا کرو اورنکس وامیکا دیتے رہو انشا ء اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا ، اللہ کا کرم ہوا اور بچہ ٹھیک ہو گیا۔
    ایک دوست نے شکایت کی کہ اس کا بیٹا دو سال کا ہے ، بہت علاج کروا چکے لیکن اس کے اسہال ٹھیک نہیں ہو پا رہے ۔ میں نے اس سے علامات پوچھیں تو معلوم ہو ا کہ بچہ ضد بہت کرتا ہے اور ہر وقت چاہتا ہے کہ اسے گود میں لیے رکھیں۔میں نے عرض کیا کہ اسے کیمومیلاکی دو خوراک دے دیں انشا اللہ ٹھیک ہو جائے گا۔انہوں نے ایسے ہی کیا اوردوسرے ہی دن ہشاش بشاش آئے اور کہنے لگے کہ کیا جادو کیا ، دو ہی پڑیوں سے ٹھیک ہو گیا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ہومیو پیتھی کے خلاف غلط پراپیگنڈا ہے کہ اسے لمبے عرصے تک استعمال کرنا پڑتا ہے ۔ اصل بات علامات کی مماثلت ہے، اگر علامتیں صحیح مل جائیں تو ایک دو خوراکیں کافی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر اگر مریض کی علامات کو سو فیصد دوا کی علامات سے match کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر دوا کی خوشبو بھی مریض کو ٹھیک کر سکتی ہے ۔اور ڈاکٹر ہانمن نے ایسا کر کے دکھایا ۔ جب حکومت نے ایلو پیتھک ڈاکٹروں کی پُر تعصب مہم کا شکار ہو کر ان پر یہ پابند ی لگادی کہ وہ مریضوں کو دوا نہیں دے سکتے تو وہ اپنے گھر کی کھڑ کی میں بیٹھ جاتے ، مریض کے احوال سنتے اور اسے کہتے کہ باہر کھڑے کھڑے ہی اس دوا کو سونگھ لو۔ اور مریض واقعتا ٹھیک ہوجاتا۔ 
    میں ابو ظبی آیا تو دیکھا کہ ایک استاد جن کی عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہ تھی ، وہ سیڑھیاں بڑے عجیب طریقے سے اترتے ہیں، جنگلے کا سہارا لے کر او رآہستہ آہستہ۔ میں نے اسے کہا ، جوان آدمی ہو ، یہ سیڑھیاں، تم اس طرح کیوں اترتے ہو۔ کیا ٹانگوں میں کوئی تکلیف ہے یا گھٹنوں میں؟ اس نے کہا ، کچھ بھی نہیں، بس مجھے سیڑھیا ں اترتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ میں نے کہا اس کا کوئی علاج نہیں کروایا ،کہنے لگے ، بس ڈاکٹر ہنس کر چپ ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی یہ ہنسنے والی بات نہیں ، یہ باقاعد ہ ایک مرض ہے ، تم ہومیو علاج کرواؤ ، ٹھیک ہو جاؤ گے ۔ انہوں نے میرے مشور ے پر عمل کیا اور اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گئے ۔ بیچارے نے پندرہ برس اسی مشکل کے ساتھ گزار د یے تھے ۔
    ہومیو پیتھی صرف انسانوں ہی میں نہیں جانوروں کے علاج میں بھی اتنی ہی کارگر ہے ، صرف ڈاکٹر کا قابل ہونا شرط ہے جو ہمارے ملک میں البتہ کم ہیں۔ہمارے ایک دوست لاہور سے چار سالہ کورس کر کے اپنا سامان باندھے گاؤ ں روانہ ہوئے ۔ شورکوٹ سے آگے ان کا کوئی گاؤ ں تھا۔یہ سامان سر پر اٹھائے پیدل ہی گاؤں کی جانب گامزن تھے ۔ راستے میں جو گاؤں پڑتا تھا وہاں دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک جگہ جمع ہیں۔ یہ بھی تماشا دیکھنے چلے گئے ۔ دیکھا کہ ایک بیل تڑپ رہا ہے اور لوگ بے بسی سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ لوگ اس کے مالک سے کہہ رہے تھے کہ اس کو ذبح کر لواور وہ اس پہ تیا ر نہ تھا۔ اس دوست نے دیکھاتو اسے محسوس ہو ا کہ غالباً اس بیل کو گیس (اپھارہ) ہے چنانچہ اس نے لوگوں سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں اس کو ایک دوادوں۔ لوگوں نے کہا تم بھی کوشش کرلو۔ چنانچہ اس نے اس بیل کو گیس کی دوا دی۔ دو ہی منٹ میں اس بیل کا تڑپنا بند ہو گیا اور اگلے دو منٹ میں وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور گھر کی جانب چل دیا۔ لوگ بہت خوش ہوئے اور اس سے پوچھا کہ بھائی تم کون ہو۔اس نے بتایا کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ لوگ بہت خوش ہوئے اس کا بہت عزت کی اور اسے گھوڑے پر بٹھا کر اس کے گاؤں چھوڑ کر آئے ۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ اس واقعے سے میں ویٹنری ڈاکٹر مشہور ہو گیا اور آج تک میں ہومیو پیتھی سے انسانوں کا کم اور جانوروں کا زیادہ علاج کرتا ہوں۔ اسی طرح پیرمحل میں ہمارے ایک دوست ہومیو پیتھی سے پولٹر ی کی صنعت میں مرغیوں کا کامیابی سے علاج کر رہے ہیں۔ڈاکٹر رشید صاحب فرماتے ہیں کہ ان کے ایک دوست مری سیر کرنے گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک جگہ کچھ لوگ جمع ہیں یہ بھی اس مجمع میں شامل ہو گئے ۔ دیکھا کہ نیچے کھائی میں ایک بندریا دردِ زہ سے چلا رہی ہے اور بند ر قریب کھڑا پریشا ن ہے اور لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تھوڑی ہی دیر میں بندر گیا اور ایک جڑی بوٹی لے کر آیا اس نے وہ بوٹی بندریا کے سر پر ملی ۔ بندریا کو سکون سا ہوا اور ساتھ ہی بچوں کی پیدایش ہو گئی اور وہ دونوں اپنے بچوں کو اٹھا کر بھاگ گئے ۔ یہ صاحب سوچ میں پڑگئے کہ یہ کیا ہو سکتا ہے ۔ لوگ چلے گئے تو یہ اس کھائی میں اترے اور وہ بوٹی جو بند ر وہیں چھوڑ گیا تھا ، اسے اٹھا لائے ۔ لاہور لا کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کروائی تو معلوم ہوا کہ اپی کاک کا پودا ہے ۔لیکن یہ اس بات پہ حیرا ن تھے کہ اپی کاک کی یہ علامت کسی کتا ب میں موجود نہیں۔لیکن انہوں نے اس سے خود پوٹینسی بنائی اور دردِزہ میں مبتلا خواتین کو دینا شروع کر دی ۔ کہتے ہیں کہ اس کا حیران کن اثر ہوا اورجس خاتون کو بھی دی اس کے ہاں پیدایش کا عمل انتہائی آسان ہو گیا۔
    ہومیو پیتھی ایک معجزانہ طریقہ علاج ہے جسے اللہ نے ڈاکٹر ہانمن کو سجھایا تھا۔ ہمارے ملک میں جس طرح اور بہت سے لوگوں اور شعبوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا اسی طرح ہومیو پیتھی کو بھی نہیں دیا جا رہا۔اور اس میں جہاں حکومتی نا اہلی ہر دور میں شامل رہی ہے وہیں ایلو پیتھی ڈاکٹروں کا تعصب بھی برابر کا شریکِ جرم رہاہے ۔ جوں ہی ہومیو پیتھی کی بات ہوتی ہے یہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑجاتے ہیں حالانکہ اس میں ان کاکیا نقصان ہے؟سرجری او رپتھالوجی کے میدان میں ہم ایلو پیتھی کی عظمت کے معتر ف ہیں لیکن باقی معاملات میں ایلو پیتھی جس طرح انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے یہ اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ خود یہ حضرات ہی ہمیں اس سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔البتہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نااہلی اور کرپشن جس طرح ملک کے باقی شعبوں میں سرایت کر چکی ہے اسی طرح ہومیو پیتھی کا شعبہ بھی اس سے مستثنی نہیں۔نہ اس میں کوالٹی ایجوکیشن ہے اور نہ کوالٹی ریسرچ ۔بہرحال اس موضوع پہ پھر کسی نشست میں بات کریں گے۔ فی الحال اس امر کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ ہمیں ہومیو پیتھی کی کرامت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنی صحت کو اپنے ہاتھوں ایلو پیتھی کی رنگ برنگی گولیوں اور ٹیکوں کی نذر نہیں کرنا چاہیے ۔ ہومیو پیتھی کے ضمن میں یہ بات بیان کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ہومیو پیتھی کی طرح اس کے بانی ڈاکٹر ہانمن بھی ایک درویش آدمی تھے ۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ آخر ڈاکٹر ہانمن مسلمان کیوں نہ ہوئے کہ اپنی فطرت میں وہ بالکل ایک مسلمان آدمی تھے ۔اور ہومیو پیتھی کے اصول بھی اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ حال ہی میں معروف محقق جناب ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے راقم سے اپنی تحقیق بیان کی کہ ڈاکٹر ہانمن اپنی آخر ی زندگی میں اسلام کی طرف لوٹ آئے تھے اور انہوں نے باقاعدہ اسلام قبول کر لیا تھا۔واقعی ڈاکٹر ہانمن کا یہ حق بنتا تھا کہ وہ اسلام قبول کرلیں کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ‘‘دنیا میں بیماری اس وقت شروع ہو ئی جب انسانوں نے گناہ کرنے شروع کیے ’’ تو وہ مسلمان نہیں ہو گا تواور کیا ہو گا۔