سوال ، جواب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2011

جواب : بندہ ء مومن اس شعور کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرتا ہے کہ اس کا وجود اور گرد و پیش کا ماحول اس کے لیے ایک عظیم نعمت ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ بہت سی نعمتوں کے لیے ہمہ وقت محتاج ہے۔ نعمت کا شعور شکر کا تقاضا کرتا ہے اور احتیاج دعا کا۔ وہ اپنی ہر ہر ضرورت کے لیے اور جو کچھ میسر ہو چکا ہے اس میں اضافے کے لیے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرتا ہے تو دعا وجود میں آجاتی ہے۔ اور ایمان ان دونوں ہی چیزوں سے وجود پذ یر ہوتاہے، یعنی شکر اور دعا کے ساتھ ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا اگر صحیح وقت پر صحیح طریقے پر اور اپنی حدود کا احساس کرتے ہوئے کی جائے تو بالعموم فوراً قبول ہو جاتی ہے۔ البتہ اس کا انحصار دعا پر بھی ہے کہ آپ کیا دعا مانگ رہے ہیں؟ مثلاً ہماری ہر مسجد میں لوگ دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دنیا میں غلبہ حاصل ہو جائے، لیکن اس کے لیے جو کچھ انھیں خود کرنا چاہیے اس کو کیے بغیر وہ یہ دعا مانگتے ہیں، اس لیے قبول نہیں ہوتی۔ ہمیں جو کچھ کر کے یہ دعا کرنی چاہیے، وہ ہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح انفرادی زندگی میں آپ دیکھیے کہ ایک آدمی بیماری میں، تکلیف میں، مشکلات میں، اپنی ذمہ داریوں کا کوئی شعور نہیں رکھتا اور دعا کیے جاتا ہے، چنانچہ وہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ جب صحیح وقت پر اور اپنی حدود کا لحاظ کر کے دعا کی جائے گی تو بالعموم قبول ہو جائے گی۔ اگر پھر بھی اس کا قبول ہونا خداتعالیٰ کی مجموعی حکمت کے خلاف ہو تو قبول نہیں ہو گی۔ مثال کے طور پر کسان کو ضرورت ہے کہ بارش ہو، جبکہ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا کچا کوٹھا نہ گر جائے۔ ہم دونوں ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی دعا قبول ہو گی۔ دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے یا خود دعا کرنے والے فرد کی اپنی بہبود کے لحاظ سے جب کہیں دعا قبول نہیں ہوتی تو پیغمبر اسلام نے بتایا ہے کہ اس کا اجر قیامت میں بندہ ء مومن کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب : اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی دعا کو محبوب رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ آپ سے دعا کی درخواست کریں۔ خود بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں اور آپ سے بھی درخواست کریں کہ آپ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اس طرح کی باتیں لوگ بالعموم اپنے اعتقادات کی بنیاد پر کرتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک کام اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق لازماً ہونا ہی تھا۔ کسی نے اس کے لیے دعا بھی کر دی۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کسی غلط عقیدے میں مبتلا ہو گیا اور بطور آزمایش وہ چیز پوری ہو گئی۔ اس لیے تمام پہلو ممکن ہیں، لیکن پیغمبر کے بعد ہمارے لئے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ فی الواقع یہ کام فلاں کی دعا کے نتیجے میں ہو گیا۔ آپ برے ہوں یا اچھے، سب اللہ تعالیٰ کے محتاج بندے ہیں، وہ اپنے قانون اور حکمت کے مطابق جب چاہتا ہے، جو بات چاہتا ہے، قبول کر لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسی قبولیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ جس نے دعا کی ہے، وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ یہ بات تو اصول کے طور پر صحیح ہے کہ نیک لوگوں سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے، لیکن دعا کی ہر قبولیت اچھے پہلو سے نہیں ہوتی، بلکہ بطور آزمایش بھی ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ اگر شیطان کے پاس جانے والوں کو ہمیشہ محروم رکھے تو پھر کہیں کوئی شیطان کے پاس نہ جائے اور اس کے نتیجے میں آزمایش ختم ہو جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں نعمت اور امتحان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر نعمت عنایت کے طور پر ہو۔ وہ سزا یا آزمایش اور کسی سر کش کو ڈھیل دینے کے لیے بھی ہو سکتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہوں اور مواقع کی اہمیت بیان کی ہے۔ مثلاً جمعہ کا دن، تہجد کا وقت، محلے کی مسجد، حرمین شریفین، یہ وہ جگہیں ہیں جن میں دعا کی اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی جن جگہوں پر لوگ دعا کی قبولیت کا اعتقاد لے کر جاتے ہیں، ان کے لیے دین و شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: دعا کی قبولیت میں آدمی کا تعلق خاطر اس کی محبت اور اس کی خدا تعالیٰ کے سامنے شکستگی اور آزردگی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں جس کیفیت میں دعا کرے گی، باپ جس طرح روح کی گہرائیوں سے دست بدعا ہو گا، مریض اپنی بے بسی کے جس احساس کے ساتھ خدا تعالیٰ کو پکارے گا، اس کی توقع آپ دوسرے لوگوں سے نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مظلوم کی پکار سے بچو۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ جس بے بسی اور شکستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارتا ہے، اس میں توقع کی جاتی ہے کہ خدا کی رحمت زیاد ہ متوجہ ہو جائے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہر چیز جس کی وہ ضرورت محسوس کرتا ہے، وہ اپنے رب ہی سے مانگے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اللہ تعالیٰ کوئی ایسی دعا قبول نہیں کرتے جو ان کی اپنی حکمت کے خلاف ہوتی ہے۔ ہاں، البتہ بندہ بعض اوقات کسی آزمایش کے لیے دست بدعا ہو جاتا ہے۔ وہ کوئی ایسی چیز طلب کر لیتا ہے جو اسے طلب نہیں کرنی چاہیے تھی، تواللہ تعالیٰ بطور آزمایش یا بطور سزا اسے وہ چیز دے دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: یہ درست ہے کہ احادیث میں جن مواقع پر دعا کے زیادہ قبول ہونے کا ذکر آیا ہے، ان میں فرض نماز کے بعد دعا کرنا بھی شامل ہے، لیکن اس کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، وہ انفرادی دعا ہی کا تھا۔ اگر کوئی نمازی اپنی ضرورت محسوس کرتا تھا تو وہ دعا کر لیتا تھا۔ امام کے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، سوائے اس کے کہ کسی موقع پر آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی گئی۔ مثلاً لوگوں نے کہا کہ بارش کے لیے دعا کیجیے یا کوئی معاملہ ہو گیا ہے تو اس کے لیے دعا کیجیے۔ یہ جو آج کل سلسلہ چل پڑا ہے کہ ہر فرض نما ز کے بعد امام صاحب دعا کرائیں اورمقتدی آمین کہیں۔ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ء کرام کے زمانے میں نہیں تھا اور اب بھی یہ طریقہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں رائج ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: اسلام میں کسی مخصوص جگہ کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہاں اگر دعا کی جائے گی تو وہ لازماً قبول ہو جائے گی۔ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بعض جگہیں اور بعض مواقع دعا کی زیادہ قبولیت کا باعث بنتے ہیں۔ سو فی صد قبولیت کی کوئی بات نہیں۔ اگر سوفی صد دعائیں قبول کر لی جائیں تو ایک دن کے لیے بھی دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ پرویز مشرف اور نواز شریف اگر ایک ہی وقت میں حرم میں داخل ہوں تو اندازہ کر لیجیے کہ وہ کیا دعا مانگیں گے اور اگر دونوں کی دعا قبول ہو جائے تو کیا نتیجہ ہو گا۔ یہ بات صحیح ہے کہ دعا قبول ہو تی ہے، لیکن وہ بندے کی اپنی بھلائی اور دنیا کی مجموعی حکمت کے لحاظ سے قبول ہوتی ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بعض اوقات توایسا ہوتا ہے کہ آپ نے الفاظ میں دعا نہیں کی ہوتی، لیکن وہ ہماری شدید تمنا اور خواہش ضرور ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی حکمت کے مطابق پورا کر دیتے ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بین الاقوامی سطح پر مسلمان جو دعائیں کر رہے ہیں، ان دعا ؤ ں کے بعض تقاضے ہیں جنھیں پہلے پورا کرنا چاہیے۔ بدر میں نبی کریم نے اس وقت دعا کی جب مسلمانوں نے اپنی طرف سے سب تقاضے پورے کر دیے۔ بے سروسامانی کے باوجود میدان میں اترے، پوری فوج سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ ان کے پاس جو کچھ تھا انھوں نے میدان میں رکھ دیا۔ اس کے بعد دعا کی گئی اور قبول ہوئی۔ اب مسلمانوں کو علم و ہنر اور دین و اخلاق میں جو تقاضے پورے کرنے چاہییں، اگر انھیں پورے کر کے دعا کی جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ گھر کو تالا لگا کر دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے روزی دے دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف ہے۔ مختصراً یہ کہ عقلی اور اخلاقی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جائیں تو پھر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دعا قبول نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)