’’مروہ‘‘ گی ...!

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : مئی 2018

آواز دوست

مروہ گی
اس کی عمر دو سال ہے اور وہ اپنی چار ماہ کی کزن کو جس کا نام مروہ ہے، مروہ گی کہتا ہے ۔وہ جیم کو گاف بولتاہے ۔ ابو جی کو ابو گی ، امی جی کو امی گی ، ہاں جی کو ہاں گی ،آجاؤ کو آ گو اور اسی طرح اپنی پیاری کزن کو مروہ گی کہتا ہے ۔گھر میں ہر وقت اس کا دل چسپ ’’گاف ‘‘گونجتا رہتا ہے اور اس کے والدین اور والدین کے والدین اس کی اس زبان کو خوب انجوائے کرتے رہتے ہیں۔ اس کا بڑا بھائی پانچ سال کا ہے ۔ وہ ابھی تک صاف بولنے سے عاجز ہے ۔وہ پوری باتیں تو کرتا ہے لیکن اس کی توتلی زبان صرف اس کے والدین ہی سمجھتے ہیں اور دوسرے سمجھنا چاہیں تو بعض اوقات اس کی باتوں کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے ۔
وہ دونوں اپنے باپ کو کبھی تو گھوڑابناکر سواری کرتے ہیں اور کبھی سائیکل۔ان کی ضد ہوتی ہے کہ ان کاباپ کھڑا رہے تو وہ کھڑا رہتا ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کا باپ بیٹھا رہے تو وہ بیٹھا رہتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا باپ ان کو موٹر سائیکل کی سیر کروائے تو وہ موٹر سائیکل چلاتا ہے اور اگر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا باپ گاڑی پہ سیر کروائے تو وہ گاڑی چلاتاہے گویا باپ کی موٹر سائیکل اور گاڑی بھی ان کے اشارے پر چلتی ہیں۔اور اس سب کے لیے ان کو زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا ،کیونکہ ان کا باپ ان کے سب اشارے اور ان کی سب زبانیں سمجھتا ہے ۔یہی حال ان کی ماں کا ہے ۔ وہ بعض اوقات اپنے منہ سے چیز نکال کر ماں کے منہ میں ڈال دیتے ہیں اور وہ بخوشی کھا جاتی ہے ۔ اپنے مٹی سے لتھڑے ہاتھ اور پاؤں وہ اس شرط پر دھلوانے پہ راضی ہوتے ہیں کہ ان کی ماں پہلے ان کو چومے اور وہ بخوشی انہیں چوم لیتی ہے۔یہی پہ بس نہیں حتی کہ ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ماں سونگھ کر اندازہ کر لیتی ہے کہ ان کے پیمپرکو بدلنے کی ضرورت ہے کہ نہیں ۔وہ اگر روئیں تو ان کے رونے کا سٹائل دیکھ کر وہ یہ بتا دیتی ہے کہ یہ کس چیز کے لیے رو رہے ہیں اور اگروہ ہنسیں تو تب بھی اسے پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی ہنسی میں کیا راز مضمر ہے ۔
میں چونکہ آج کل ایک ہفتے کی چھٹی پر ہوں ،اس لیے سارا دن یہ مناظر دیکھتا رہتاہوں۔ ان میں سے ہر منظر، میرے لیے ایک پیغام لیے ہوتا ہے ۔میں سوچتاہوں کہ جس طرح ماں باپ بچوں کے ہنسنے ، رونے اور ان کے منہ سے نکلی بے ربط اور بے ہنگم آوازوں کی سب زبانیں جانتے ہیں کیا اپنی باری آنے پر یہ بچے بھی والدین کی سب زبانیں جانیں گے ؟؟ جس طرح آج ان کے والدین کو ان دونوں کی باتیں سمجھنے میں کبھی کوئی دقت پیش نہیں آتی، کیا وقت آنے پر ان کو بھی والدین کی سب باتیں سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی؟ ؟
سوچتا ہوں کہ ایک وقت آئے گا کہ ان کے والدین کی زبان نہیں بولے گی بلکہ ان کی آنکھیں بولیں گی ،ان کے ہاتھ اور پاؤں کی ہر ہر حرکت بولے گی اور سب سے بڑھ کریہ کہ ، ان کی خاموشی بولے گی، تو کیا آج کے یہ بچے کل کواُن کی خامشی کی یہ زبان سمجھ پائیں گے ؟؟ پھر سوچتا ہوں کہ ان کے والدین نے ان کی یہ زبانیں سمجھنے کی یہ ٹریننگ کہاں سے حاصل کی ہے ۔ جواب ملتا ہے کہ ان کو یہ ٹریننگ ان کے اس پیار نے دی ہے جو انہیں اپنے بچوں سے ہے تو پھر سوچتاہوں کہ ہاں اگر ایسا ہی پیار انہیں اپنے والدین سے ہو گیا تو پھر انہیںیقیناًکوئی مشکل پیش نہ آئے گی لیکن شاید ایسا پیار عام طو ر پر ہوتا نہیں کیونکہ بچے یہ پیار بجائے والدین کی طرف لوٹانے کے، اپنے ہونے والے بچوں کو لوٹا دیتے ہیں ۔شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انتہائی زورد ار انداز میں کہا کہ و قضی ربک الا تعبدو ا الا ایا ہ وبالوالدین احسانا۔۔۔۔۔۔خوش نصیب ہے وہ اولاد جو اللہ کے اس فرمان کے بغیر ہی سمجھ جائے لیکن اگر نہیں سمجھتی تو کیا اللہ کا یہ حکم انہیں سمجھانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔۔۔۔!