ساتھ چلو یا گم ہو جاؤ

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : دسمبر 2012

            کچھ تو حقائق ہوتے ہیں اور کچھ تصورات ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں اور کئی نسلیں اور بہت سا وقت گزرنے کے بعد ایک دن ہمیں اچانک جھٹکا لگتا ہے کہ جسے ہم حقیقت سمجھ کر قبول کرتے رہے وہ تو محض ایک فسانہ ہے۔جیسے جب گلیلیو نے اعلان کیا کہ دنیا گول ہے تو پوپ اور اس کے حواری ہل کے رہ گئے جنہیں ڈیڑھ ہزار برس سے یہی معلوم تھا کہ دنیا چپٹی ہے۔گلیلیو قید خانے میں ڈال دیا گیا لیکن دنیا دوبارہ چپٹی نہ ہوسکی۔اور پھر کوپر نیکس کی اس خبر نے تو فکری زلزلہ برپا کردیا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں بلکہ ایک سیارہ ہے اور سورج زمین کے گرد نہیں گھومتا بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

            پھر ڈارون نے تو یہ اعلان کرکے انسانی نخوت کی پوری عمارت ہی اڑا دی کہ انسان کہیں الگ سے اور اچانک نمودار نہیں ہوا بلکہ حیوانی ارتقائی زنجیر کی ہی ایک ترقی یافتہ کڑی ہے۔اسی طرح ساڑھے تین ہزار سالہ یونانی تصور تو فکری سطح پر تیرہ سو برس پہلے ہی رسولؐ اللہ نے پاش پاش کردیا تھا کہ نسلی برتری بھی کوئی شے ہوتی ہے یا گورے کو کالے پر فوقیت حاصل ہے۔ مگر سائنسی لحاظ سے بھی یہ بات بیسویں صدی میں طے ہوگئی کہ رنگ کی بنیاد پر خود کو اعلی اور دوسرے کو گھٹیا سمجھنا ایک پست درجے کی بے وقوفی ہے۔ کیونکہ تمام انسان ایک ہی طرح کے جینز لے کر پیدا ہوتے ہیں اور کھال کے رنگ کا فرق کسی ایک انسانی جینز میں محض اعشاریہ صفر صفر صفر نو کے فرق کے سبب ہے۔لیکن کسی تصور کا سائنسی و فکری سطح پر ردّ ہونا اور انسانی ذہن کا اس تصور سے چھٹکارا پانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ تصور تو ایک منٹ میں مسترد ہوجاتا ہے لیکن اس سے انسان کی جان چھوٹنے میں بہت عرصہ لگ جاتا ہے۔جیسے افغانیوں سے انیسویں صدی میں جوتے کھانے کے باوجود برطانیہ میں، جاپانیوں سے انیس سو پانچ میں ہارنے کے باوجود روس میں، دوسری عالمی جنگ میں آریائی برتری کا ہٹلری بت ٹوٹنے کے باوجود جرمنی میں، بنگالیوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کے باوجود پاکستان میں، ویتنامیوں سے پِٹنے کے باوجود امریکہ میں آج بھی کوئی نا کوئی شخص، گروہ یا ادارہ نسلی و مذہبی تفاخر اور جنگجو نسل ہونے کے نشے میں لڑکھڑاتا رہتا ہے۔اگرچہ پچھلے تین سو برس میں یہ بات درجنوں بار طے ہو ہو کر کئی کئی شکلوں میں ثابت ہوچکی ہے کہ اگر کسی فرد یا قوم کو ترقی کرنی ہے تو پھر جذباتیت، اسلامی تفاخر، جھوٹی انا، کھوکھلے نظریاتی دعووں اور دنیا کو فتح کرنے کے نشے سے چھٹکارا پا کر عقل کی بنیاد پر پْرامن بقائے باہمی کے فلسفے کے تحت تعلیم و تربیت پر پورے وسائل لگاتے ہوئی ذہن کو توہمات کے قید خانے سے نکال کر مکمل تخلیقی آزادی دینی پڑے گی۔پھر بھی شوقِ جہالت ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ پھر بھی اپنے اپنے کنوئیں سے باہر دیکھنے کی یوں ہمت نہیں پڑ رہی کہ اندھیرے کی عادی آنکھیں ترقی کے سورج سے کہیں چندھیا نہ جائیں۔ پھر بھی اپنے گریبان میں جھانکنے اور اسے قابلِ عمل تصورات کی سوئی سے سینے کا حوصلہ نہیں پیدا ہو رہا۔ ڈر ہے کہ اگر بوسیدہ خیالات کی یہ پوشاک بھی پھٹ گئی تو چھپانے کو کیا رہ جائے گا۔بری خبر یہ ہے کہ اس گلا کاٹ دنیا کو خود ترسی کے مرض میں مبتلا لوگوں اور معاشروں سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی یعنی یا تو ساتھ چلو، یا پھر گمنامی کی دھول میں گم ہوجاؤ۔ فل سٹاپ۔۔۔

(بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام ۱۱ نومبر ۲۰۱۲)

پاکستان شاید بالغ ہوگیا!

            پاکستان میں ماضی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے قابلِ سزا قرار دینے کی روایت بھی پڑ گئی۔ وہ بھی کیا دن تھے جب شیروانی ، وردی اور ٹائی سوٹ والے کالے صاحب گورے حکمرانوں کی استعمال شدہ کرسیوں کا دائرہ بنا کر آپس میں ہی میوزیکل چیئر کھیلتے تھے اور عوام صرف تالیاں پیٹنے یا اپنا ہی خون پینے کا کام کرتے تھے۔آئین تو تھا نہیں لہذا سارا کام اکڑ بکڑ بمبے بو کے فارمولے پر چلتا تھا۔کیا زمانہ تھا وہ بھی جب نئی نئی مملکت کے تیسرے گورنر جنرل ( غلام محمد ) کی اتنی دہشت تھی کہ ٹوٹی ہوئی اسمبلی کے سپیکر (مولوی تمیز الدین) کو صرف ایک آئینی پیٹیشن داخل کروانے کے لیے عدالت پہنچنے کی خاطر برقعہ اوڑھ کر سفر کرنا پڑا۔ اور کیسی تھی وہ عدالت بھی جو آئینی اہمیت کا کوئی بھی فیصلہ ‘انصاف بعد میں نوکری پہلے’ کے اصول کے تحت صاحبِ اقتدار کے چہرے کے رنگوں کی روشنی میں کرنے کی عادی تھی۔مگر جیسے ہی حاکمِ وقت بے اقتدار ہوتا جج شیر ہوجاتے۔ پھر یہی عدالت معزول کو غاصب (یحییٰ خان) قرار دے کر اپنی ہی پیٹھ تھپتھپاتی تھی۔اور کیا تھی وہ صحافت جو ایک قابض (سکندر مرزا) کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اقتدار چھیننے والے دوسرے قابض (ایوب خان) کی حرکت کو انقلاب کہنے پر اور دوسرے قابض سے اختیار لینے والے تیسرے قابض (یحییٰ خان) کے غصب کو انتقالِ اقتدار لکھنے پر مجبور ہوتی تھی۔اور کیسے تھے وہ سیاستدان جو سیٹی بجتے ہی شراکتِ اقتدار کی خیراتی قطار میں لگنے کی خاطر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرنے اور ایک ٹانگ پر کھڑے چلہ کاٹنے پر غیر مشروط آمادہ رہتے تھے۔ اور کیا تھیں عوامی اعتماد سے سرشار وہ منتخب اسمبلیاں جو جرنیلوں اور ان کی مہم جویانہ حکمتِ عملیوں اور ان کے بجٹ کے بارے میں ایک لفظ بھی منہ سے نکالنا ایسے معیوب سمجھتی تھیں جیسے پرانی وضع کی بیوی اپنے شوہر کا نام لینے سے کترائے۔زمانہ واقعی آگے بڑھ رہا ہے۔آج آپ کسی بیکری کے معمولی ملازم کو پیٹ ڈالیں ، یا کسی کو غائب کریں ، یا لوگوں کو خریدنے بیچنے کا کاروبار کریں، یا کسی بے گناہ بچی پر گولی چلائیں۔کوئی نا کوئی دیوانہ کہیں نا کہیں سے آپ کو ضرور تاک رہا ہے۔وہ اگر آپ کے منہ پر نہ بھی تھوک پایا تو آپ کے سامنے زمین پر ضرور تھوک دے گا۔ یہ بھی نہ کرسکا تو یاد ضرور رکھے گا۔اور پھر ایک دن ایک شاعر (حبیب جالب) نے کہا میں نہیں مانتا۔دوسرے دن ایک سیاستدان ( بھٹو) نے کہا میں بھی نہیں مانتا۔ تیسرے دن چند پاگل صحافیوں نے ٹکٹکی پر بندھے ہوئے کہا ہم نہیں مانتے۔چوتھے دن ایک ریٹائرڈ جرنیل ( اصغر خان ) نے کہا میں نہیں مانتا۔ پانچویں دن ایک جج ( افتخار چوہدری ) نے کہا میں نہیں مانتا۔ چھٹے دن ہر ہما شما کہنے لگا میں نہیں مانتا اور ساتویں دن یہ راز ہر جانب آشکار ہوگیا کہ بادشاہ کے کپڑے نہیں ہیں۔بادشاہ بھی ننگا ہو سکتا ہے۔۔۔وہ ننگا ہے۔۔۔ننگا ہے۔۔۔۔اور پھر یوں ہوا کہ میڈیا پہلے آزاد اور پھر بدتمیز ہوگیا۔پھر عدلیہ نے بھی دل پکڑا اور حاضر جناب کا طوق لوہار کی طرف اچھال دیا۔ اس کے بعد سیاست دانوں نے بھی دائیں بائیں دیکھا اور پھر ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولنا شروع کیا اور پھر ہر ایرے غیرے کو بھی معززینِ گذشتہ و حالیہ کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت ہوگئی۔آج طویلے میں کوئی گائے ایسی نہیں جو مقدس ہو۔ ہر وہ سانڈ جو ہر راستے پر بگٹٹ دوڑنے کا عادی ہے۔ وہ بھی جان گیا کہ اس کے نوکیلے سینگوں پر کسی کا بھی ہاتھ کبھی بھی پڑ سکتا ہے۔گزرے جمعہ کو پاکستان میں ماضی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے قابلِ سزا قرار دینے کی روایت بھی پڑ گئی تاکہ حال اور مستقبل کو بھی کان ہوجائیں۔یوں پاکستان بلا آخر پینسٹھ برس بعد ہی سہی قانونی بلوغت کے دور میں داخل ہوگیا۔

(بشکریہ ،بی بی سی ڈاٹ کام ۲۱ اکتوبر ۲۰۱۲)