توحید کے لیے دو عالم سے خفا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : نومبر 2012

اسحاق ناگی کی وفات پر مدیر سوئے حرم کے تاثرات

            کہا جاتا ہے کہ کسی بھی تصویر کو دیکھنے کے لیے مناسب فاصلے پرہونا ضروری ہے ۔زیادہ قریب ہونے کی صورت میں تصویر دھندلا جایا کرتی ہے اور صحیح نظر نہیں آتی۔البتہ ہر معاملے کی طرح اس میں بھی بعض استثنا ضرور ہیں۔ کچھ تصویریں زیادہ قریب ہونے کی صورت میں بھی نہیں دھندلاتیں بلکہ اور زیادہ دل میں اتر جایاکرتی ہیں۔ مرحوم ناگی صاحب کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تصویر کی طرح تھی ،جو اُن کے جتنا قریب ہوا، اتنا ہی وہ اس کے دل میں اتر گئے ۔ ۱۹۹۹ میں ، میں نے جب پہلی باران کو دُور سے دیکھا تھاتو وہ زیادہ اچھے نہ لگے تھے لیکن جو ں جوں میں ان کے قریب ہوتا چلا گیا وہ دل کے وادی میں اترتے چلے گئے ۔ان تیرہ چودہ برسوں میں ، میں نے ان کی شخصیت کے کئی روپ دیکھے ۔ ان کو بطور باپ بھی اپنے بچوں پہ شفقت پدری نچھاور کرتے دیکھا، انکو بطور حکیم بھی لوگوں کی شفا کے لیے پریشان ہوتے دیکھا، دوستوں کے کاموں کے لئے بھی ان کو دن رات ایک کرتے دیکھا، ان کو بطو ر سوشل ورکر بھی ان تھک کام کرتے دیکھا ، ان کو بطور مناظر بھی حریف کو چاروں شانے چت کرتے دیکھا ، ان کو بطور ہمدرد بھی اپنوں اور غیروں کی بے حسی پر کڑھتے دیکھا،اللہ کے حضور بھی سر بسجدہ دیکھا،توحید کے لیے بھی دو عالم سے خفا ہوتے دیکھا، دعوت کے میدان میں بھی شب و روز سرگرداں دیکھااور آخر میں بستر مرگ پہ بھی صبر واستقامت کے کو ہ گراں اور تسلیم و رضا کا عملی پیکر بنتے دیکھا۔غرض جہاں بھی دیکھا ان کا انداز جہاں سے نرالا دیکھا اور یہی وجہ تھی کہ میرے دل میں ان کا بے حد احترا م تھا اور میں ان کی شخصیت کی ہمہ گیری کا مداح تھا۔لیکن اگر کوئی یہ پوچھے کہ ان سب میں وہ کو ن سی صفت تھی جو ان کی شخصیت پہ حاوی تھی تو میرے نزدیک وہ صفت ان کا خالص توحیدی ہونا اور داعی ہونا ہے لیکن اس معاملے میں بھی وہ سب سے الگ تھے ۔ باقی سب کا زور اس بات کو بیان کرنے میں صرف ہوجاتا ہے کہ مُردوں سے کچھ نہیں ہوتا لیکن ناگی مرحوم اس بات کے داعی تھے کہ زندوں سے بھی کچھ نہیں ہوتا، بس اللہ ہی سے سب کچھ ہوتا ہے ۔ وہ سب کے بغیر سب کچھ کر سکتا ہے اور باقی سب ، سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکتے اگر وہ نہ چاہے تو ۔

            علمائے حق کے وہ بے حد مداح تھے لیکن ان کو بھی وہ بُت بنانے کے قائل نہ تھے حتی کہ وہ علما جن کی تحریروں اور تقریروں کو وہ ساری عمر پھیلاتے رہے ان کو بھی وہ انسان ہی سمجھتے تھے اور ان کی غلطیوں پہ ٹو ک دینا اور ان کی نشاندی کر دینا ان کے لیے بڑی بات نہ تھی اور اُس معاشرے میں جہاں ہرایک کے پاس غیر مرئی بت موجودہوں، وہاں ایسی بات کرنا یقینا بڑے حوصلے اور یقین کامل کی بات ہے ۔

            نیکی پھیلانا اور اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا ان کی طبیعت کا حصہ بن چکا تھا ۔اس زمانے میں جب کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے ، تب بھی ان کے بستر پر مختلف رسائل کے مضامین کی فوٹو کاپیا ں پڑی رہتی تھیں جسے وہ بیمار پرسی کے لیے آنے والو ں میں تقسیم کیا کرتے تھے حتی کہ ہسپتال جاتے ہوئے بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔ میں نے سوئے حرم کا آغاز کیا تو ان کو زیادہ پسند نہ آیا لیکن جب چند بار بغور مطالعہ کیا تو پھرایسے گرویدہ ہوئے کہ بستر مرگ پر بھی اس کی کاپیاں لوگوں میں بانٹا کرتے تھے اپنے مصائب اور تکالیف پہ صبر کرنا ان کے لیے مشکل نہ تھا البتہ کو ئی بات حق کے خلاف ہو جائے ،اس پہ ان سے صبر نہ ہوتا تھا اور وہ فوراً تحقیق کرنے لگ جاتے تھے ۔ کینسر نے معذور کردیا توفون ان کا واحد ساتھی تھا ، وہ فون پر دوستوں سے تحقیق کرتے رہتے ۔دن ہو یا رات انہیں اس بات کی پروا نہ ہوتی تھی ان پر یہ دھن سوار ہوتی تھی کہ یہ بات واضح ہونا نیند اور آرام سے زیادہ ضروری ہے مجبوراً بعض دوست فون بند کردیتے تھے۔

            ناگی صاحب اس ہیرے کی مانند تھے جو مٹی میں رُلتا رہا لیکن پھر بھی اس کی چمک دمک ماند نہ پڑی۔ یہی چیز ثابت کرتی ہے کہ یہ ہیرا،اصلی ہیر اتھا اور ان کے دوست اس بات سے آگاہ بھی تھے لیکن ان کی صلاحیتوں سے کام لینے سے کتراتے تھے کیونکہ ناگی صاحب کو مصالحت ، منافقت ، مداہنت اور مصلحت جیسی چیزوں سے کام لینا نہ آتا تھااس لیے کسی کو کیا مصیبت پڑی تھی کہ وہ ان کی بے روزگاری کا انتظام بھی کرے اور حق کے معاملے میں ان کی کھر ی کھری باتیں بھی سنے ناگی صاحب کی شخصیت کو بیان کرنا ہوتو اقبال کا یہ شعر بڑا موزوں نظر آتا ہے۔

 

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

قہاری ان کی یہ تھی کہ
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

غفاری ان کی یہ تھی کہ
ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم

قدوسی ان کی یہ تھی کہ
 حوروں کو شکایت ہے کہ کم آمیز ہے مومن

جبروت ان کا یہ تھا کہ
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں

 

            اللہ نے ان پر بڑ ا کرم فرمایا کہ کینسر جیسے تکلیف دہ مرض میں بھی ان کاذہن پوری طرح حاضر رہتا تھا، او ر ان کی یادداشت بھی بالکل صحیح کا م کرتی تھی ۔جسمانی تکلیف عموماً ذہن کو بھی بے بس کر دیا کرتی ہے لیکن یہاں یہ عالم نہ تھا۔ البتہ ان کی زندگی کے آخری چند روز بے بسی کے عالم میں گزرے ۔ میں جب ان کی وفات سے چند روز پہلے رمضان میں ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ غنودگی اور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے لیکن جب میں نے ان کو بلایااور کہا کہ ناگی صاحب کیا آپ نے مجھے پہچان لیا ہے تو انہوں نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا ‘‘ ہاں جی، شاہ جی میں نے پہچان لیا ہے ’’ اور یہ کہہ کر وہ پھر غنودگی کی حالت میں چلے گئے ۔مجھ سے ان کی یہ حالت زیادہ دیر دیکھی نہ گئی اور میں دل ہی دل میں یہ دعا کرتے ہوئے چلا آیا کہ مولا کریم یہ بندہ وہ بندہ ہے جس نے ساری عمر بندہ بن کر جینے کی کوشش کی ، تیر ااور صرف تیرا بندہ ۔ دو عالم اس سے اس بات پر خفا تھا کہ یہ اُن کا بن کر کیوں نہیں جیتا ؟لیکن اس کا اصرار تھا کہ یہ تیرا ہی بن کرجیے گا۔ یہ جوا ن تھا تو تیر ا تھا ، بوڑھاہوا تو تیرا تھا ، صحت مند تھا تو تیرا تھا ، بیما ر ہوا تو تب بھی تیرا تھا اور اب اگر یہ تیرے پاس آ رہا ہے تو تیرا ہی بن کر آرہا ہے اس کے ‘‘ تیرا ہونے ’’ کے‘‘ مان’’ کی لاج رکھنا ۔ اور جب چند روز بعد یہ خبر آئی کہ یہ بندہ اپنے مالک کے حضور جا پہنچا تو دل نے گواہی دی کہ اس کی روح کو عالم بالا میں لے جاتے ہوئے فرشتے یہ ضرورکہہ رہے ہو ں گے ۔یاایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبدی واد خلی جنتی۔

٭٭٭