عورتیں اور مرغیاں

مصنف : قرۃ العین فاطمہ

سلسلہ : آرا و افکار

شمارہ : 2017 جنوری

آرا و افکار
عورتیں اور مرغیاں
قرۃ العین فاطمہ

چند سال پہلے کی بات ہے یونیورسٹی میں ہمارے شعبہ کو ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں مدعو کیا گیا۔ ہم چند طالبات ایک ٹیچر کے ساتھ اس پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچیں تو ہمیں ایک کیبن نما کمرے میں لے جایا گیا۔ وہ شخص جس نے دروازے پر انتہائی احترام سے ہمارا استقبال کیا اور کمرے میں بٹھایا، ساتھ والے کمرے میں گیا اور وہاں موجود کچھ لوگوں کو ہماری آمد کا بتایا ’’ مرغیاں آ گیاں نیں میں بٹھا دتا ایے’’ یعنی مرغیاں آ گئی ہیں میں نے انہیں بٹھا دیا ہے۔
اس طرح کے رویہ کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا جو بظاہر سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے عورتوں کے لیے روا رکھا جاتا ہے۔ معلوم نہیں باقی طالبات کی اس رویے پر کیا سوچ تھی اور کیا ردِعمل تھا، لیکن میرے لیے یہ اخلاقی طور پر انتہائی گری ہوئی بات تھی کہ وہ عورتوں کو مرغیاں کہہ کر ان کی تذلیل کر رہے تھے۔ ان کے نزدیک عورت کی کوئی عزت نہیں۔ یہ روز مرہ کا صرف ایک واقعہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں گفتگو کی ہمارے معاشرے کے مردوں کی ذرا بھی تربیت نہیں۔ عورتوں کے ساتھ مارکیٹوں، دفتروں، بسوں، ویگنوں اور ٹی وی چینلز پر جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم عورت کو درحقیقت کیا مقام دیتے ہیں۔
میری ایک دوست نے، جو ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں، ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کی میزبانی کرنا تھی۔ انہوں نے دو ماہ اس پروگرام پر کام کیا، اس کی ایک دو ریکارڈنگز بھی ہوئیں لیکن اس کے بعد انہیں صرف اس وجہ سے فارغ کر دیا گیا کہ وہ اسکارف اوڑھتی ہیں۔ ان کی جگہ آج کل وہ پروگرام ایک اداکارہ کر رہی ہیں۔ ایک اور دوست کو چینل میں صرف اس لیے نہیں لیا گیا کہ وہ سر پر دوپٹہ اوڑھتی تھیں۔ انہیں کہا گیا آپ کل ہی دوپٹہ اتار کر آ جائیں ہم آپ کو لے لیں گے۔
یہ واقعات غیرمعمولی نہیں ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر خواتین اپنے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ اور سر ڈھانپنے والی کوئی بھی خاتون اب آپ کو کسی ایک چینل پر نہ خبریں پڑھتی دکھائی دے گی نہ کسی پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے۔ اگر آپ عورت کے حق میں اتنے لبرل ہیں تو ایسی خواتین کو جو اپنی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس شعبے میں آنا چاہتی ہیں انہیں جگہ کیوں نہیں دیتے؟ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسری طرف ہمارے بچپن میں صرف ایک چینل پی ٹی وی ہوتا تھا۔ جس میں نیوز کاسٹرز سر پر دوپٹا اوڑھ کر خبریں پڑھتی تھیں۔ ڈراموں میں سر پر دوپٹا نہیں تو کم از کم لباس مکمل شلوار قمیض ضرور ہوتا تھا جو ہماری ثقافت کا آئینہ دار تھا۔ ڈرامے اتنے اچھے ہوتے تھے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ دھواں، الفا براوو چارلی، راہیں، کہر، ہوائیں، کشکول، افراتفری، زردپتے، عینک والا جن، یہ وہ ڈرامے ہیں جن کا عکس ابھی تک ہمارے ذہنوں پر ہے۔ ان کی کہانیاں ساس بہو کی لڑائیوں اور عشق بازی سے ہٹ کر تھیں۔ انہیں دیکھنے کے لیے لوگ ڈرامہ شروع ہونے کے وقت سے پہلے پہلے اپنے کام نمٹا لیا کرتے تھے۔ اْس وقت کے ڈرامے کسی ایک اچھے موضوع پر اور ایک مقصد کے ساتھ بنائے جاتے تھے اور ان میں موجود پیغام لوگوں تک ضرور پہنچتا تھا۔ لیکن اب جس بھی چینل کو دیکھیں ڈرامے کا صرف ایک مقصد ہے، آخر کار تمام مسائل سے گزر کر لڑکے نے ایک لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ گلیمر اور گلیمر کے پیچھے کھوکھلا چہرہ۔ میڈیا نے لوگوں کے رویوں، مزاجوں اور اخلاقی قدروں میں اتنا بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ ایک وہ دور تھا جب فلم دیکھنے کے لیے لڑکے والدین سے چھپ چھپ کر سنیما جاتے تھے۔ اب یہ دور ہے کہ انڈیا کی فحش فلمیں باپ بیٹوں کیا بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر پہ مبنی ڈرامے چلتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیا یہ لبرل ازم ہے؟
پہلے سر پر دوپٹے تھے، وہ گلے میں آئے، پھرگلے سے بھی غائب ہوئے اور پھر ایک دور آیا سلیولیس کا اور اپ سکرٹس اوربلاؤز کا۔ اسے کہتے ہیں سلو کلچرل پوائزننگ، ثقافتی کایا کلپ۔ فلموں، ڈراموں، اشتہاروں اور تھیئٹر کمپنیوں کی وارڈروب میں اس تبدیلی کا ہماری نئی نسل کو اب کوئی فرق محسوس بھی نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں اس میں کیا برائی ہے۔ کیا ہو گیا کسی نے عورت کو مرغی کہہ دیا۔ اوہو عورت خود کو اتنا کیوں ڈھانپتی ہے۔ اسے تو اپنے جسم پر فخر کرنا چاہئے۔ اس کا جسم اس کے لیے باعث شرم نہیں، دیکھنے والے کی نظر گندی ہے۔ بی بی آپ کے جسم میں کوئی گندگی نہیں۔ آپ سکون سے شارٹس میں گھومیں۔ کوئی آپ کو تاڑتا ہے تو اس کی نظر کا قصور ہے۔
واقعی یہ حقیقت ہے کہ جسموں کی بناوٹ میں انسان کا کوئی دوش نہیں، لیکن اسی جسم میں عورت اور مرد کے درمیان اللہ نے رغبت رکھی ہے۔ وہ جس نے انسان کو تخلیق کیا ہے وہ اس کی مشینری اور کیمسٹری سے بخوبی واقف ہے، اس کے افعال، جسمانی، جنسی اور نفسیاتی اسرار و رموز اور وظیفوں کو وہ بہتر سمجھتا ہے۔ اسی نے فحاشی سے بچنے اور معاشرے میں فحاشی کو پھیلنے سے روکنے کے جو طریقے بتائے ہیں یقیناً ان میں ہماری بھلائی اور فلاح ہے۔
اوریا مقبول جان کے جس کالم پر ہمارے چند دوستوں نے اتنا واویلا کیا ہے، کیا وہ میڈیا میں عورت کی ہونے والی تذلیل سے لاعلم ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ عورت کو کس طرح ایک پروڈکٹ اور اشتہاری ترغیب کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے؟ میرا نہیں خیال کہ وہ اس سے لاعلم ہیں۔ اس واویلے اور شور و غل نے مجھے اوریا مقبول جان کے کالم کو پڑھنے پر مجبور کیا اور میں نے اس کالم کو کئی بار پڑھا لیکن مجھے اس میں ایک بھی ایسی بات نظر نہیں آئی جو قابل اعتراض ہو یا جس میں انہوں نے کچھ ایسا لکھا جس سے عورت کی تذلیل ہوئی ہو۔ انہوں نے تو عورت کی ہونے والی تذلیل سے پردہ اٹھایا ہے۔ مجھے اوریا صاحب سے بہت سے نظریاتی اختلافات ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دانشوری کے نام پر انہیں گالیاں دیں، تذلیل کریں۔ اختلاف رائے ادب اور تمیز کے دائرے میں رہ کر کیا جانا چاہئیے۔ مجھے اوریا جان کے خلاف لکھے گئے کسی ایک کالم میں دلیل نظر نہیں آئی، صرف تذلیل تھی۔ کیا اب ہم حق بات لکھنا چھوڑ دیں؟
ہماری ثقافت یہ نہیں کہ بیٹیاں گھروں سے باپ کی منشا کے بغیر نکلیں۔ کامیابی اور ناکامی تو بعد کی بات ہے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ تو یہی ہے کہ جس نے درست باتوں پر والدین کی نافرمانی کی اس نے ہمیشہ نقصان اٹھایا۔ ہاں جو ان کی رضامندی سے، انہیں قائل کر کے کیا اس میں کامیابی ملی۔ والدین کی رضا و رغبت سے کئی معاشرتی قباحتوں اورنقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ کیا آپ کو ملتان کی اس لڑکی کا حال معلوم نہیں جو اپنے والد کی مرضی کے بغیر کرکٹ کھیلنے نکلی اور اسے جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔ اس کے ساتھ کیا کیا ہوا خودکشی کر کے اس نے ان سب رازوں کو اپنے ساتھ دفن کر لیا۔ میٹھا زہر اچھا ہی لگتا ہے۔ بظاہر وہ اشتہار ہمیں رلا دے گا۔ لیکن پسِ پردہ وہ ہماری بچیوں کو یہ ترغیب دے رہا ہے کہ باپ کی کوئی اوقات نہیں، اس سے پوچھے بغیر جو مرضی کرو، کامیاب ہو جاؤ گی۔ مجھے اس نوجوان نسل کا حصہ ہوتے ہوئے اوریا مقبول جان سے اور ان جسے دوسرے سئینرز سے بیحد شرمندگی ہے کہ انہوں نے جو ایشو اٹھایا وہ عورت کو عزت اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا، لیکن اس پر انہیں ایک طوفانِ بدتمیزی اور گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے اوریا جان سے اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے شرمندگی ہے جوسچ لکھتے ہیں لیکن ان کے سچ کو متنازع اور متضاد بنا کر سچ کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ میڈیا سے متاثر، میڈیا میں شامل ہونے والی غریب گھرانوں کی لڑکیاں جن کے پیچھے کوئی کھڑا نہیں ہوتا ان کو کس کس طرح استعمال کیا جاتا ہے اس سے سب لوگ آگاہ ہیں۔ حیرت ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ افسوس صد افسوس! نئی نسل کو یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جو قومیں اپنے بڑوں کی روایات کی پاسداری نہیں کرتیں، ان کا احترام نہیں کرتیں وہ بہت جلد زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ دانستہ یا نادانستہ، اشتہاری میڈیا ہمیں اسی زوال کی طرف دھکیل رہا ہے۔
معلوم نہیں اوریا کے خلاف لکھنے میں پہل کس نے کی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ہماری قوم بھیڑ چال کا شکار ہے۔ جس کسی نے بھی لکھا، ذرا سی ہوا دی اور سب سوچے سمجھے بغیراسی رخ پر بہنے لگے۔ ہر طرف اوریا اوریا بلکہ عوریا عوریا ہونے لگی۔ لکھنے والوں سے درخواست ہے کہ جوش کے ساتھ ہوش کی بھی ضروت ہوتی ہے۔ محض نکتہ چیں نہ بنیں بلکہ بھیڑ چال سے باہر نکل کر اپنا نقطہ نظر بنائیں اور دلیل سے
اختلاف کریں۔ گندی زبان استعمال کرنے سے آپ لبرلز میں نہیں، بداخلاق لوگوں میں ضرور شمار ہونے لگتے ہیں۔ میں دوپٹا اوڑھتی ہوں میں اس کے حق میں ہزار بار لکھوں گی لیکن میں نقاب والی کو کبھی خود سے کمتر سمجھوں گی نہ پیش کروں گی۔ میں اس کے لیے اسلام کی تعلیمات میں اپنی مرضی کا ردوبدل بھی نہیں کروں گی۔ کیونکہ میں اس کا احترام کرتی ہوں، صنفی بھی اور شخصی بھی۔ میں اوریا مقبول کی رائے کا بھی احترام کرتی ہوں۔ مجھے ان سے اختلاف بھی ہے کہ اس حقیقت کے باوجود عورت کو میڈیا میں محض ایک پراڈکٹ سمجھا جاتا ہے انھوں نے ایسا کالم کیوں لکھا جس سے ان لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہے جو یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ عورت اور مرغی میں کیا فرق ہے اور معاشرے میں عورت کا اصل مقام و 
مرتبہ کیا ہے۔***

*دین اورکلچر*
برصغیر کا ایک گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دعوت دین دو مختلف ذرائع سے ہوئی. ایک صوفیاکے ذریعے اور دوسرے علما کے ذریعے. ان دونوں کی دعوت میں جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ صوفیا کی سپیشلایزیشن تزکیہ و اخلاق ہے جب کہ علماکی فقہ وشریعت۔ کار دعوت پر اس کے اثرات یوں مرتب ہوتے ہیں کہ صوفیا جس معاشرے میں جاتے ہیں وہاں کے کلچر، رسم و رواج کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے اسے دعوت کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔ بر صغیر میں صوفیا نے یہاں کے طریق عبادت یعنی موسیقی وغیرہ کو اسلامی عقائد کی زبان دے کر، اور ہندی تصوف کا مرجع تبدیل کر کے اس خام مواد کو اسلام کی عمارت کی تشکیل کے لیے استعمال کیا جو یہاں وافر مقدار میں موجود تھا۔ جیسے ازمنہ وسطی کے مسلمانوں نے یونان، ہند اور فارس کی سائنس کو مشرف باسلام کر لیا تھا۔ دوسری طرف علما کے پاس فقہی جزئیات کی شکل میں عرب یا ماورا ء النہر کا کلچر تھا اور انہوں نے اصل دین اور کلچرل دین میں امتیاز کرنے کی کوشش کے بجائے یہ کوشش کی کہ اپنا وہی عرب یا سنٹرل ایشیا کا کلچر رائج کر دیا جائے۔جس کا مرتب ذخیرہ ان کے پاس موجود تھا۔ شاہ ولی اللہ جیسا عبقری جو اصل دین اور عرب کلچر میں واضح خط امتیاز کھینچتا ہے یہاں اپنے حلقہ احباب میں عرب کلچر پروموٹ کرنے پر مصر رہا ہے ۔ یہی بات مجدد الف ثانی کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً اردو بولنے والے پاکستان میں جہاں بھی آباد ہیں اپنے کلچر اور زبان کا تحفظ کرتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں سعودی اثرات بڑھنے سے بدوانہ کلچر کو اسلام کا حوالہ مل گیا۔ علمی طور پر بات آسان ہے کہ کتاب اللہ اور اس کی تبیین یعنی سنت متداولہ ہی دین ہے باقی کلچر ہے۔تاہم اہل علم کی ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو خالص علمی اور سائنٹفک بنیادوں پر دین اور کلچر میں خط امتیاز کھینچ سکے ۔میری رائے یہ ہے کہ اگر علمی بنیادوں پر یہ فرق کر کے مغرب میں اس اساس پر دعوت دین کا کام کیا جائے تو کامیابی کے بے پناہ امکانات ہیں۔ (ڈاکٹر طفیل ہاشمی)