میرے ساتھ ہی کیوں؟

مصنف : جمیل اختر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : ستمبر 2012

            اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ مقدر ان پر اتنا نامہربان ہے، وہ سیدھا بھی کریں تو الٹا ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے ایک قدم بڑھاتے ہیں تو ان پر کامیابیوں کے سو دروزے کھل جاتے ہیں۔کیا ایسا ہوتا ہے یا پھر ہم ایسا سوچتے ہیں۔

            آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میرے گھر سے تقریباً دو سو گز کے فاصلے پرایک ٹریفک لائٹ ہے جو میرے کمرے کی کھڑکی سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ جب بھی میری اس پر نظر پڑتی ہے، وہ عموماً سبز ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی کہیں جانے کے لیے میں اپنی گاڑی پر نکلتا ہوں تو قریب پہنچتے ہی وہ سرخ ہوجاتی ہے۔ کئی بار جلدی میں ہونے کے باوجود میں سوائے انتظار کے کچھ نہیں کرسکتا۔ بات صرف اس ایک لائٹ کی ہی نہیں ہے۔ گھرسے نکلنے کے بعد ہائی وے لینے کے لیے مجھے سات ٹریفک لائٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جیسے ہی میں گھر سے نکلتا ہوں، ان ساتوں لائٹوں کو خبر ہوجاتی ہے کہ میں آرہا ہوں۔ ساتوں کے ساتوں ٹریفک سگنل میرے قریب پہنچتے ہی بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ سردیوں کی یخ راتوں میں ، جب ہر طرف برف کے انبار ہوتے ہیں اورسڑک پر میرے یا ایک آدھ اور گاڑی کے سوا کوئی اور نہیں ہوتا، تب بھی مجھے دیکھتے ہی سگنل لال ہوکر میرا منہ چڑھانے لگتے ہیں اور اس ٹھنڈ میں مارے غصے اور بے بسی کے میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ ہمارے گھر سے ہائی وے کا فاصلہ صرف ڈیڑھ میل ہے، لیکن منہ چڑھاتی سرخ بتیوں کی وجہ سے مجھے ہائی وے پکڑنے میں پندرہ منٹ اوربعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ہائی وے پکڑنے کے بعد میری پریشانی کئی گنا اور بڑھ جاتی ہے۔ اس جگہ سے میرا دفتر پندرہ میل ہے۔ اگر مجھے دن چڑھے جانا ہوتو یہ فاصلہ محض پندرہ سولہ منٹ کا ہے۔ مگر صبح چھ بجے کے اس سفر میں مجھے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ میں ٹریفک میں رینگتے ہوئے پیچ و تاب کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے سات بجے دفتر پہنچنا ہوتا ہے۔ جب تین بجے میں گھرکے لیے نکلتا ہوں توہائی وے پرگاڑیوں کی لمبی قطاریں پھر سے میرا منہ چڑھا رہی ہوتی ہیں۔ پھرجیسے جیسے میں آگے بڑھتا ہوں، میرا غصہ اور بلڈ پریشر بڑھتاجاتا ہے اور میں مسلسل یہ سوچتا رہتا ہوں کہ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتاہے؟ بیکر کے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ بیکر میرے گھر سے بھی پانچ میل پیچھے رہتا ہے لیکن جب میں دفتر پہنچتا ہوں تو وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا اطمینان سے کافی پی رہاہوتا ہے۔ مجھے دیکھ کروہ مسکراتا ہے اور دیوار پر لگے کلاک پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حسب معمول تم آج بھی لیٹ ہو۔ اس کا یہ انداز مجھے دن بھر بے چین رکھتا ہے اور بار بار یہ خیال آتا رہتاہے کہ آخر میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟میں ہائی وے کا ٹریفک پاٹنے کے کئی طریقے آزما چکا ہوں۔ چار لین کے اس ہائی وے میں داخل ہوتے ہی میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ سب سے آخری فاسٹ لین میں داخل ہوجاؤں۔ کسی طرح بچتے بچاتے میں فاسٹ لین میں پہنچتا ہوں تو اس میں چلتی ہوئی گاڑیاں رک جاتی ہیں اور پہلی لین کی گاڑیاں فراٹے بھرنے لگتی ہیں۔ میں چند لمحے تو صبر کرتا ہوں کہ ابھی ہماری لین بھی چل پڑے گی۔ لیکن جب وہ کینچوے کی طرح رینگنے سے باز نہیں آتی تو میں پہلی لین میں واپس جانے کی کوشش کرنے لگتا ہوں، جس میں گاڑیاں بہت تیز نہ سہی لیکن شریفوں کی طرح چل تو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن پھر ہوتا یہ ہے کہ کئی گاڑیوں سے جگہ دینے کی درخواست کرکے اور کئی ایک کے ہارن سن کر جب میں پہلی لین میں واپس آتا ہوں تو وہ رک جاتی ہے اور فاسٹ لین کی گاڑیاں بھاگنے لگتی ہیں۔ جیسے وہ میرے جانے کا ہی انتظار کررہی تھیں۔ اور میں اسٹیئرنگ پر مکے مارتے ہوتے یہ سوچنے لگتا ہوں کہ آخر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔بات صرف ٹریفک لائٹوں اور ہائی وے کی ہی نہیں ہے۔ باقی جگہوں پر بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ میرے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا ساشاپنگ ایریا ہے جہاں ایک بہت بڑا گروسری اسٹور ہے۔ روزمرہ ضروریات کی اکثر چیزیں وہاں سے مل جاتی ہیں۔ اسٹور کے سولہ کاؤنٹر ہیں۔ ٹرالی میں سامان بھرنے کے بعد میں اس کاؤنٹر کی طرف بڑھتا ہوں جس کی قطار سب سے چھوٹی ہوتی ہے۔ مگر پھر ہوتا یہ ہے کہ جب میں کاؤنٹر کے قریب پہنچتا ہوں تو قطار رک جاتی ہے کیونکہ مجھے سے اگلے گاہک کے پاس کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس پر یا تو کوڈ بار نہیں ہوتی یا سکینر اسے پڑھ نہیں پا رہا ہوتا یا پھر گاہک یہ اصرار کررہا ہوتا ہے کہ یہ چیز سیل پر ہے اور اس سے پوری قیمت کیوں لی جارہی ہے۔ اس تنازع کے حل میں کئی دفعہ آدھ گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ اس دوران اس لمبی قطار کے گاہک، جسے چھوڑ کر میں اس کاؤنٹر پر آیا تھا، اپنی قیمت چکا کر چلے جاتے ہیں اورمیں زمین پر اپنا پاؤں پٹختے ہوئے یہ سوچتا رہتا ہوں کہ آخر میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟گھنے سفید بالوں والا برائن ہماری گلی میں رہتا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزاررہاہے۔ شام کو جب میں سیر کے لیے نکلتا ہوں تو وہ اکثر اپنے کتے کی زنجیر پکڑے جاگنگ ٹریک پر تیز تیز چلتے ہوئے مل جاتا ہے۔ اسے باتیں کرنے اور اپنے ماضی کے قصے سنانے کا بہت شوق ہے۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے میں گروسری خریدنے گیا تو سٹور کے ایک کونے میں، جہاں لاٹری کے ٹکٹوں کی سات مشینیں لگی ہیں، برائن کھڑا ہوا مل گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولا کہ چلو دیکھتا ہوں کہ قسمت جوانی کی طرح بے وفا تو نہیں ہے۔ اس نے ایک مشین میں پانچ ڈالر ڈال کر لاٹری کا ایک ٹکٹ نکالا۔ جس پر اسے اسی وقت پانچ سو ڈالر مل گئے۔ اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی چمک دیکھ کر میرا دل بجھ گیا۔ اسی اسٹورکی اسی مشین سے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں لاٹری کے درجنوں ٹکٹ نکال چکا ہوں، لیکن مجھے کبھی ٹھینگا بھی نہیں ملا۔ آخر میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟کل صبح جب میں دفتر جانے کے لیے نکلا توبرائن بھی میرے ساتھ تھا۔ اسے واشنگٹن میں کوئی کام تھا۔ میں نے کہا کہ کہاں اپنی بوڑھی کارمیں مارے مارے پھرتے رہو گے، اکھٹے چلتے ہیں، میرے د فتر کے سامنے میٹرو اسٹیشن ہے۔ وہاں سے ٹرین پکڑ لینا۔ ہم ہائی وے پر پہنچے توحسب معمول گاڑیاں رینگ رہی تھیں۔ نصف راستہ طے کرنے بعد ٹریفک بالکل رک گئی۔ جب بہت دیرتک گاڑیاں نہ چلیں تو میں ریڈیو پرٹریفک چینل آن کیا۔ پتا چلا کہ کچھ آگے ایک بڑا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ سڑک صاف ہونے میں ایک گھنٹے سے زیادہ لگ سکتا ہے۔ میں نے اسٹیئرنگ پر زور سے مکہ مارتے ہوئے برائن کی طرف دیکھا اور کہا کہ آخر میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟وہ چند لمحے کھڑکی سے باہر تکتا رہا پھر بولا۔کیا اس سٹرک پر تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ہے؟