میں نے اسلام کیسے قبول کیا؟

مصنف : نور محمد (رام پھل)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : ستمبر 2012

سوال : آپ اپنا تعارف کرایئے ؟

جواب : میرا پرانا نام رام پھل ہے، میں میرٹھ ضلع کے ایک گاؤں دادری کے گوجر گھرانے میں پیداہوا، پتاجی ایک چھوٹے کسان تھے، تقریباً ۲۵ سال ہوئے، ان کا دیہانت (انتقال ) ہوگیا تھا، مجھے میرے اللہ نے تیرہ چودہ سال پہلے ہدایت دی، میں نے پھلت آکر آپ کے والد صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور میری مرضی سے انہوں نے میرے بڑے بھائی کے نام پر میرا نام نور محمد رکھا۔

سوال : آپ کے بڑے بھائی بھی مسلمان ہوگئے تھے؟

جواب : جی ہاں ! اصل میں مسلمان وہی ہوئے تھے اور مجھے ان کے صدقے میں ہدایت ملی۔

سوال : ذرا تفصیل سے اپنے قبول اسلام کا واقعہ سنائیے؟

جواب : میرے ایک بڑے بھائی جے پال تھے، وہ کھتولی میں میرٹھ والے لا لا ؤں کے یہاں ملازم تھے، ان کے یہاں کولھو کریشر کا بڑا کاروبار تھا، بھائی صاحب بڑے مذہبی سجن اور رحم دل آدمی تھے، کسی دکھی آدمی کو دیکھ نہیں سکتے تھے، کسی زخمی جانو رکو دیکھ کر وہ بہت پریشان ہوجاتے، بڑے بھاوک (جذباتی) سے آدمی تھے، پھولوں، پودوں کو دیکھتے تو مچل جاتے، ستاروں کو دیکھتے تو بے تاب ہوجاتے، اٹھ کر بیٹھ جاتے، ساری ساری رات مالک کی تعریف کرتے رہتے تھے، ان کے کارخانہ کے پاس پھلت کے دو لوگوں کی دوکان تھی، جو فرنیچر وغیرہ بناتے تھے، ان کی دوکان پر آپ کے ابی (مولاناکلیم صاحب) کبھی کبھی آیا کرتے تھے، بھائی صاحب بھی ان سے ملتے دوچار لوگ جمع ہوجاتے، تومولاناصاحب دین کی باتیں کرتے، میرے بھائی بھی نیچے بیٹھتے۔ ان کو توجہ سے سنتے اسلام کی باتیں ان کے دل کو بہت بھاتیں، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ ان کو خیال ہی نہ تھا کہ یہ شخص ہندو ہے۔ اگست کے مہینہ میں کھتولی میں چھڑیوں کا میلہ لگتا تھا ۱۹۹۰؁ء میں میلہ لگ رہا تھا، مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ میں سڑک سے جارہا تھاتو قسیم الدین نے تیز آکر مجھے سلام کیا اور کہا کہ دادری کا ایک گوجر میرٹھ والوں کے کارخانہ میں رہتا ہے، وہ آپ سے ملاقات کے لئے تڑپ رہا ہے، آپ پانچ منٹ اس سے مل لیں، مولانا صاحب آکر دوکان پر بیٹھے اور اندر کارخانہ سے ہمارے بھائی کو بلا لائے، بھائی صاحب نے مولانا صاحب سے کہا کہ مولانا صاحب میں نے ایک سپنا دیکھا، دیکھاکہ ایک بہت خوبصورت سنہرا راتھ (رتھ) ہے جیسے سونے کا ہو، اس پر بہت سارے حضرات یعنی مولانا لوگ بیٹھے ہیں اور آپ اس رتھ کو چلا رہے ہیں، سامنے ایک بڑا محل ہے، بہت خوبصورت جس پر ہیرے جڑے ہوئے ہیں، قمقمے سجے ہوئے ہیں، اس کے آٹھ دروازے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سورگ ہے، میں نے یہ سنا تو میں بھی رتھ میں لٹکنے لگا مگر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اتار دیاکہ تو ہندو ہے، تو اس حال میں سورگ میں نہیں جاسکتا، آپ سب لوگ سورگ میں چلے گئے اور میں روتا ہوا کھڑا رہ گیا، یہ کہہ کر بھائی صاحب مولانا صاحب سے چمٹ گئے اور خوب روئے، مولانا صاحب آپ نے مجھے سورگ میں جانے کیوں نہیں دیا، آپ کا کیا بگڑ جاتا؟ مولانا صاحب نے ان کو تسلی بھی دی اور کہا کہ بھائی مجھے تو اس خواب کا پتا بھی نہیں، مجھے کسی کو سورگ سے روکنے کا حق بھی نہیں، اصل میں سورگ سے آپ کو اس نے روکا جو سورگ کا مالک ہے۔ اس کا قانون یہ ہے کہ اس نے صرف ایمان والوں اور مسلمانوں کے لئے سورگ بنائی ہے،سچی بات یہ ہے کہ جو انسان ایمان نہ لائے اور مسلمان نہ ہو، اس کو تو اس دنیامیں رہنے کا حق ہی نہیں ہے، اس کو سنسار کی نیشنلٹی ہی نہیں، غیر ایمان والا باغی اور غدار کی طرح دنیا میں رہتا ہے، اس دنیا کا مالک ایک اکیلا خدا ہے اور اس نے اپنی دنیا کے لوگوں کے لئے ایک قانون اسلام اپنے سچے نبیﷺ کے واسطہ سے بھیجا ہے، جو آدمی اس اکیلے مالک کو نہ مانے اور اس کے بنائے ہوئے قانون اسلام کو نہ مانے وہ تو اللہ کا باغی اور غدار ہے، اس کو اس دنیا میں رہنے کا حق حاصل نہیں، پھر وہ سورگ میں کیسے جاسکتا ہے اگر آپ کو سورگ میں جانا ہے تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجائیے، آج تو خواب دیکھ کر اتنا پچھتارہے ہو موت کا کچھ پتا نہیں کب آجائے، موت کے بعد اگر خدا نہ خواستہ آپ مسلمان نہ ہوئے تو یہ خواب حقیقت بن جائے گا اور پھر یہاں لوٹ کر بھی نہیں آسکتے۔ بھائی صاحب نے کہا کہ دادری جیسے گاؤں میں آج کے فسادات کے دور میں اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو میرے گھر کے لوگ مجھے مارڈالیں گے۔ مولانا صاحب نے کہا، مار ڈالیں گے تو آپ شہید ہوجائیں گے اور بھی جلدی جنت میں جائیں گے۔ بھائی صاحب نے کہا اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو مجھے گھر چھوڑ نا پڑے گا، پھر میں کہاں رہوں گا؟مولانا صاحب نے کہا کہ آپ پھلت آجائیے اور ہمارے یہاں رہئے۔ بھائی صاحب نے کہاکہ میں دو چار روز میں گھر والوں سے کہہ کر آؤں گا۔ مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ ملاقات کرکے وہ پھلت چلے آئے، خیال تھا کہ دو چار روز میں جے پال بھائی پھلت آئیں گے، مگر وہ نہیں آئے، نومبر کے آخر میں ایک روز مولانا صاحب ظہر کی نماز کے لئے نکلے، تو دیکھا جے پال بھائی صاحب باہر بیٹھے ہیں، کچھ پھل وغیرہ لے کر آئے ہیں۔ مولانا صاحب سے گلے ملے اور بولے مولانا صاحب !آپ سوچتے ہوں گے دھوکہ دے گیا، اصل میں میرے نام کچھ زمین تھی میری ماں ہے میں نے سوچا کہ ماں کی سیوا بھی ان کا حق ہے، میں یہاں سے چلا جاؤں گا ان کی سیوا کا کیا ہوگا ؟ میں نے اپنے بھتیجے کو بلایا اور اس کو قسم دی اور اس سے وعدہ لیا کہ میں اپنی ساری زمین تیرے نام کرتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تو میری ماں یعنی اپنی دادی کی دل سے سیوا کرے گا، وہ راضی ہوگیا۔ زمین اور گھر کا حصہ اس کے نام کرانے میں اتناوقت لگ گیا، اب میں آگیا ہوں مجھے مسلمان ہونے کے لئے کیا کرنا ہے ؟ مولانا صاحب ان کو اپنے ساتھ مسجد میں لے گئے اور ان کو غسل کا طریقہ بتا کر مسجد کے غسل خانہ میں نہانے کے لئے کہا۔ پھلت میں ایک عرب جماعت آئی ہوئی تھی جماعت سے دوچار منٹ پہلے مولانا صاحب ان کو مسجد کے اندر والے حصہ میں لے گئے اور جا کر کلمہ پڑھوایا۔ مسجد کے صحن میں، دھوپ میں جماعت کے لوگ بیٹھے تھے سب دیکھنے لگے کہ اجنبی کو اندر کیوں لیجا رہے ہیں ؟ جماعت کھڑی ہو گئی، مولانا صاحب نے بھائی صاحب کا نام نور محمد رکھا۔ اپنے برابر میں جماعت میں کھڑا کر لیا، کسی طرح نماز پڑھی نماز پڑھ کر گھر آئے کھانا وغیرہ کھایا، عصر کی نماز میں پھر مسجد گئے، نماز میں عرب لوگوں کو دیکھا، وہ بھائی صاحب کو بہت اچھے لگے، بھائی صاحب رات کو ان کے ساتھ رہے۔ اگلے روز اتوار کا دن تھا جماعت میرٹھ جا نے والی تھی، بھائی صاحب نے مولانا صاحب سے کہا کہ میرا دل اس جماعت کے ساتھ جانے کو چاہ رہا ہے۔ مولانا صاحب نے امیر صاحب سے جو گجرات کے رہنے والے تھے بھائی صاحب کا تعارف کرایا اور ان کی خواہش کا ذکر کیا، امیر صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور بہت اصرار کے باوجود مولانا صاحب سے خرچ وغیرہ بھی نہیں لیا، جماعت میرٹھ چلی گئی۔ تین چار روزکے بعد مولانا صاحب نے بھائی صاحب کی خبر لینے کے لئے ایک حافظ صاحب کو میرٹھ بھیجا تو معلوم ہوا کہ جماعت میرٹھ پہنچی پیر کے روز صبح فجر کے بعد مذاکرہ اور نماز وغیرہ یاد کرانے کے لئے نور محمد کو تلاش کیا گیا تو کسی نے بتایا کہ آج شاید انھوں نے فجر کی نماز بھی نہیں پڑھی، وہ اندر تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے۔ تلاش کے لئے ایک ساتھی اندر مسجد میں گئے، تو دیکھا کہ سہ دری کے برابر میں ایک الگ حصہ ہے اس میں سجدہ میں پڑے ہیں، ساتھی نے آواز دی مگر انھوں نے نہیں سنی، خیال کیا کہ سجدہ میں نیند آگئی ہے مگر ہلا یا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آغوش رحمت میں سوچکے ہیں۔ کل نو نمازیں فرض اور ایک تہجد انھوں نے پڑھی، جو سنتا اس موت کی تمنا کرتا، ظہر کی نماز میں ان کو میرٹھ میں دفن کردیا گیا،

سوال : ہاں ہاں یہ واقعہ ابی اکثر سنایا کرتے ہیں، وہ آپ کے بھائی کا واقعہ ہے؟ آپ اپنے اسلام کی بات بتایئے؟

جواب : بھیا !اصل میں ہم لوگوں کا اسلام تو بھائی صاحب کے ایمان کا صدقہ ہے ایک زمانہ تک ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے، مگر وہ میرے لڑکے کے سپنے میں بہت آتے تھے۔ زیادہ تر اسلامی لباس میں ٹوپی، کرتے اور ڈاڑھی کے ساتھ ایک بار میرے بیٹے کو خواب دکھائی دیا۔بھائی صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ بیٹا میں نے ساری زمین جائیداد تیرے نام کی ہے، تو میرا ایک کام کردے، ایک درجن کیلے لے کر پھلت میں بڑے مولانا صاحب کے پاس پہنچا دے۔ وہ صبح کو اٹھا اور کھتولی سے کیلے خریدے اور پھلت گیا۔ مسجد کے ملاجی اس کو آپ کے گھر لے کر گئے مولانا صاحب لکھنؤ گئے ہوئے تھے، وہ کیلے مولانا صاحب کے بہنوئی کو دے آیاکہ مولانا صاحب سے کہنا کہ دادری والے جے پال نے یہ کیلے بھیجے ہیں، ایک بار اس کو خواب میں آکر مولانا صاحب کو ایک کلو مٹھائی پھلت جاکر دینے کو کہا، وہ مٹھائی لے کر گیا۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے محبت یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، بھائی نور محمد مرنے کے بعد جنت سے بھی تحفے بھیج رہے ہیں۔ ایک بار ہمارے گاؤں میں جھگڑا ہوگیا ایک بڑے اور طاقت ور آدمی نے کچھ غریبوں اور کمزوروں پر بہت ظلم کیا، میرا دل بہت دکھا ہوا تھا، رات کو دیر تک نیند نہیں آئی، من من میں مالک سے شکایت کرتا رہا کہ مالک جب سب کچھ دیکھتا ہے، تو یہ اتیاچار کیوں ہوا۔ رات کودیر سے نیند آئی، سپنا دیکھا لوگوں کی بھیڑ ایک طرف کو جارہی تھی، میں نے معلوم کیا کہ یہ بھیڑ کہاں جارہی ہے، اچانک بھائی صاحب کو دیکھا، انھوں نے کہا یہ بھیڑ پھلت جارہی ہے، مسلمان ہونے اور مسلمان ہوکر سورگ میں جانے، رام پھل جلدی کر ورنہ تو پیچھے رہ جائے گا، جلدی جاجلدی، پھلت جاکر مولانا صاحب سے کہنا کہ مجھے مسلمان بنادو، تاکہ میں بھی سورگ میں چلا جاؤں، میں تو اپنے مالک کے کرم سے سورگ میں آگیا ہوں، آنکھ کھل گئی سپنے مجھے بہت کم دکھائی دیتے ہیں، مگر اس سپنے نے مجھے بے چین کردیا، صبح ہوئی تو میں پھلت پہنچا، بڑی مسجد گیا، ملاجی صاحب مجھے مولانا صاحب کے یہاں لے گئے مولانا صاحب کہیں گئے ہوئے تھے، معلوم ہوا کہ رات میں آجا ئیں گے، رات تک انتظار کیا، مگر مولانا صاحب نہ آسکے صبح کو سوکر اٹھا تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب رات ڈیڑھ بجے آئے ہیں، پیر کا دن تھا مولانا صاحب کا پھلت رہنے کا دن تھا، صبح سے لوگ آنا شروع ہوگئے، مولانا صاحب سے ملاقات کر کے جا تے رہے میرا نمبر دیر میں آیا نو بجے میری ملاقات ہوئی میں نے معلوم کیا کہ آپ جے پال جی دادری والوں کو جانتے ہیں، انھوں نے کہا خوب، وہ میرے پاس آئے تھے اور ان کے اسلام کا پورا واقعہ بتایا، میں نے اپنا خواب سنایا، مولانا صاحب نے مجھے مبارکباد دی اور بتایا کہ آج ہی رات میں انھوں نے بھی خواب دیکھا کہ نور محمد بہت اچھے لباس میں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا چھوٹا بھائی رام پھل آرہا ہے، اس کو مسلمان ہوئے بغیر جانے مت دیجئے، مولانا صاحب نے میرا نام معلوم کیا اور کہا آپ نور محمد کے چھوٹے بھائی رام پھل ہیں ؟ مولانا صاحب سے بغیر بتائے نام سن کر مجھے اپنے خواب کے اور سچا ہونے کا یقین ہو گیا، میں نے مولانا صاحب سے خود بھی مسلمان ہونے کو کہا مولانا صاحب نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مجھ سے کہا کہ اگر آپ اسلامی نام رکھنا چا ہیں تو نام بدل سکتے ہیں، نام بدلنا کوئی ضروری نہیں، اصل میں دل کا بدلنا ضروری ہے، میں نے کہا کہ آپ میرا نام ضرور رکھ دیں اور اچھا ہے کہ جو نام لے کر میرے بڑے بھائی سورگ میں گئے ہیں، میرا نام بھی وہی رکھ دیں۔ کیا میرا نام نور محمد رکھا جا سکتا ہے ؟ مولانا صاحب نے کہا کوئی حرج نہیں اور میرا نام نور محمد رکھ دیا، ایک روز رہ کر میں اپنے گھر دادری چلا آیا، میں نے اگلے روز اپنی بیوی سے پورا حال بتا یا وہ بہت ناراض ہوئی اور اس نے میرے خاندان والوں کو بتا دیا میرے چچا گاؤں کے پردھان تھے، گاؤں میں پنچایت ہوئی، کئی لوگوں نے کہا کہ اس کا منھ کا لا کر کے گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالو، کسی نے کہا اس کو گولی مار دو، یہ کافر ہوگیا، ہمارے گاؤں کے ایک رٹائرڈ پرنسپل بھی اس پنچایت میں تھے، انھوں نے کہا یہ زمانہ تر کوں ( دلائل) کا ہے، آپ اس کو سمجھاؤ اور یہ ثابت کرو کہ یہ ہندو دھرم، اسلام سے اچھا ہے، زبردستی سے آپ اس کے دل کو نہیں بدل سکتے، اچھا ہے آپ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ وہ بہت معززآدمی تھے، ان کے سمجھانے سے پنچایت ختم ہوئی، میری ماں نے مجھے بہت سمجھایا، ان کا خیال تھا کہ پھلت والوں نے اس پر جادوکر دیا ہے، وہ اتار کے لئے مجھے پھلاؤ دہ لے گئیں، چیر مین صاحب جو بڑے عامل سمجھے جاتے ہیں، ان کے پیروں میں پڑگئیں کہ میرے بیٹے پر جادوکرا دیا گیا وہ کافر ہو گیا آپ مجھ پر دیا کرو، انھوں نے ماں کو تسلی دی، اس پر کوئی جادو نہیں مالک کی لہر ہے، آپ بھی پھلت والوں سے جاکر ملیں وہ بہت مہان آدمی ہیں، وہ ہر دکھیارے کی مدد کرتے ہیں، وہاں سے ہم دونوں لوٹے میں نے ماں کو بہت سمجھایا کہ ماں آپ بھی مسلمان ہوجاؤ، سب سے زیادہ ہمارے چچا پر دھان جی کو دکھ تھا، وہ کہتے تھے کہ رام پھل نے برادری میں منھ دکھا نے لائق نہیں چھوڑا، عاجز آکر انھوں نے ایک دن پو رنیما کے بہانے ایک دعوت کی، میں نے خواب میں آپ کے والد کو دیکھا، مولانا صاحب مجھے کہہ رہے ہیں کہ پورنیما کی دعوت میں کھیرکا جو پیالہ تمہارے سامنے ہے، اس میں زہر ہے، اسے مت کھانا، دعوت ہوئی تو میں نے خواب کا منظر سامنے پایا میرے چا چا نے میرے آگے کھیر کا پیالہ رکھا میں نے روٹی کھانا شروع کی اور موقع پا کر وہ پیالہ چا چا کے سامنے کردیا، ان کو پتہ نہیں لگا، دوتین چمچے انھوں نے کھائے ان کا حال بگڑ گیا، الٹیاں شروع ہوگئیں فوراََ ان کو میرٹھ لے کر گئے مگر وہ بچ نہ سکے اور ان کا دیہانت ہوگیا ان کے کریا کرم سے فارغ ہوکر میں پھلت آیا مولانا صاحب سے سارا قصہ سنایا اور معلوم کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا کہ اس کھیر میں زہر ملایا گیا ہے، مولانا صاحب نے کہا کہ غیب کی بات اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، اللہ اپنے بندوں کو بچاتے ہیں اور ایمان والے کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے، اسکی صورت میں اپنے فرشتوں کو بھیج کر رہبری کرتے ہیں، اس کو مہربان رب کہتے ہیں، گھر جاکر میں نے اپنی ماں کو بھی سارا قصہ سنایا، میرے کا پھر (کافر ) ہونے کے باوجود چاچا کی یہ دشمنی ان کو بہت بری لگی اور وہ اسلام سے قریب ہوگئیں، چاچا کے دونوں لڑکے اب میری جان کے دشمن ہوگئے اور میں نے روز روز کے جھگڑوں سے بچنے کے لئے گاؤں چھوڑدیا، پھلت جاکر رہنے لگا، میرے گھروالے پھلت جاکر پیچھا کرتے تھے مگر ان کا کوئی بس وہاں نہیں چلتا تھا۔

سوال : آپ پھلت کتنے دن رہے؟

جواب : میں تین سال سے زیادہ پھلت رہا، وہاں نماز وغیرہ یاد کی، ذکر کرتا تھا اور آنے جانے والے مہمانوں کی خدمت کرتا تھا۔

سوال : سنا ہے آپ پھلت میں رہتے تھے، تو نماز میں بہت روتے تھے ؟

جواب : بھیا میں کیا روتاتھا (روتے ہوئے) ایک گندے ناپاک قطرہ سے بنے انسان کو اتنے بڑے مالک کے سامنے جانامل جائے اور اپنے پیارے اللہ سے ملاقات نصیب ہوجائے، تو رونا تو پڑے ہے، داروغہ تھا نے میں بلائے تو کیا حال ہوجاتا ہے، مالک کے سامنے جاکر کیا حال ہونا چاہئے، جہاں میں نے نیت باندھی میرے دل میں خیال آیا کہ یہ گندانور محمد اور کہاں آپ کا دربار، مسجد میں جاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے مالک کے، جو میرا محبوب بھی ہے قدموں میں سر رکھ رہا ہوں، مولانا صاحب نے مجھے نماز کے ساتھ نماز کا ترجمہ بھی یاد کرایا تھا مجھے یہ خیال ہوتا تھا کہ نماز میں التحیات اور درود کیوں ہے؟ ایک روز مولانا صاحب نے بیان کیا کہ معراج میں ہمارے نبی کے صدقہ میں ہمیں اللہ سے ملاقات کا یہ موقع نصیب ہوا، اس لئے نماز کے آخر میں معراج کا وہ مکالمہ اور نبی پر درود پڑھ کر ہمارے نبیﷺ کا احسان یاد کیا جاتا ہے، میرے دل کو یہ بات بہت لگی اب میرا دل التحیات اور درود شریف میں بہت بھر بھر کر آتا ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ پیارے نبیﷺ کی روح بھی مجھ سے خوش ہے۔

سوال : سنا ہے کہ آپ کو حضور اقدسﷺ کی کافی زیارت ہوئی ہے؟ ایک آدھ خواب سنایئے۔

جواب : میں الحمدللہ درود اور التحیات بہت دل سے پڑھتا ہوں اور جب سے حضور اقدسﷺ کی زیارت بھی مجھے خوب ہوئی ہے، سب سے پہلے جب مجھے حضور اقدسﷺ کی زیارت ہوئی، آپ کے ابی جیسے ہیں، ذرا عمر کچھ زیادہ اور رنگ صاف ہے اور مجھ سے فرمارہے ہیں کہ جا اپنی ماں کو کلمہ پڑھوادے، وہ تیار ہے اور تیرا انتظار کررہی ہے، میں نے صبح کو مولانا صاحب کو بتایا، مولانا صاحب نے مجھے گھر جانے کامشورہ دیا، میری ماں بہت بیمار تھی میں نے ڈاکٹر کو لا کر دکھایا، میں ان کی خدمت کے لئے گھر رک گیا، میرا بیٹا بھی ان کی بہت سیوا کرتا تھا، ان کو دستوں کا مرض ہو گیا تھا باربار کپڑے خراب ہوجاتے تھے میں اپنے ہاتھوں سے اس کو نہلاتا اور کپڑے وغیرہ دھوتا، اسلام قبول کرنے سے پہلے میری ماں سے میری نہیں بنتی تھی، وہ میری اس خدمت سے مجھ سے بہت متاثر ہوئی اور ان کے دل میں خیال آیا کہ مسلمان ہو کریہ ایسا ہوگیا ہے، میں نے موقع دیکھ کر ان سے مسلمان ہونے کو کہا،وہ تیار ہوگئی، میں نے ان کو کلمہ پڑھایا اور ان کا نام فاطمہ رکھا اللہ کا کرم ہے کہ وہ اچھی بھی ہوگئیں، گاؤں والوں کو میرا گاؤں میں آنا اچھا نہیں لگا، وہ میرے ساتھ دشمنیاں کرتے رہے، کئی بار مجھ پر حملہ بھی ہوئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے مجھے بچالیا، میں نے پھلت جاکر مشورہ کیا مولانا صاحب نے مجھے گاؤں چھوڑ نے کو کہا، میں اپنی ماں کو لے کر میرٹھ میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر رہنے لگا، شروع میں کمرہ کرایہ پر لے لیا بعد میں مولانا صاحب نے مجھ سے کہا اسلام روزگار میں سب سے زیادہ تجارت کو پسند کرتا ہے، ہمارے نبیﷺ نے بھی تجارت کی ہے، میں نے سبزی کی تجارت شروع کی، اس کے بعد مولانا صاحب نے لوہے کی تجارت میں نفع ہونے کی حدیث سنائی، تو میں نے کباڑیے کی دکان کھول لی، میرا کام بہت اچھا چل گیا، میرا بیٹا بھی میرے یہاں آکر مسلمان ہوگیا، گاؤں والوں کو میرا پتہ معلوم ہوگیا وہ میرٹھ میں بھی میرا پیچھا کرتے رہے، میرے چاچا کے بڑے بیٹے نے ایک بدمعاش کو دس ہزار روپئے مجھے گولی مارنے کے لئے دیئے، میں نے خواب میں حضورﷺ کی پھر زیارت کی کہ کل تمہیں مارنے کے لئے بدمعاش آئے گا، اس کا نام محمد علی ہے، وہ کالی پینٹ اور نیلی قمیص پہنے ہوگا، اس سے کہنا کہ محمد علی ہوکر ایک رام پھل کے ‘نور محمد’ بننے پر مجھے مارنے آئے ہو، میں رات کو دوکان بند کرکے جانے والا تھا، وہ شخص آیا میں نے فوراً اس سے کہا کہ محمد علی ہوکر ایک رام پھل کے ‘نور محمد’ بننے پر مارنے آئے ہو، وہ حیرت میں پڑ گیا، اس نے حیرت سے پوچھا، تمہیں میرا نام کس نے بتایا، میں نے کہا اس نے بتایا جو سارے سچوں کا سچا ہے، جس نے دنیا کو سچ سکھلایا ہے، میں نے اس کو رات کا خواب بتایا، اپنی قبول اسلام کی داستان سنائی، وہ چمٹ کر مجھ سے رونے لگا، میرے ہاتھ میں ریوالور دے کرکہنے لگا، ایسے پیارے نبیﷺ کے نام کو بد نام کرنے والے محمد علی سے تم رام پھل کتنے اچھے ہو، ایسے کمینے کو زندہ رہنے کا حق نہیں، لو میرے پیٹ میں گولی ماردو، میں نے اس سے کہا گولی مارنے سے کام نہیں چلے گا، سچی توبہ ہر گناہ کا علاج ہے، اللہ سے توبہ کرو اور جماعت میں چلہ لگاؤ، اس نے وعدہ کیا وہ صبح کو میرے یہاں آیا، میں اس کو لے کر حوض والی مسجد گیا اور وہ مجھ سے قرض لے کر جماعت میں چلا گیا، مرکز میں مجھے ایک جماعت کے ساتھی نے وہ جگہ دکھائی، جہاں میرے بھائی نے تہجد کی نماز میں مسجد میں انتقال کیا تھا، میں رات کو مسجد میں رکا، تہجد اسی جگہ پڑھی دیر تک مسجد میں اس امید پر پڑارہاکہ شاید یہی جنت کا دروازہ ہے، مجھے مسجد میں نیند آگئی اور نبیﷺ کی زیارت ہوئی، فرمایا، جنت اہل ایمان کے لئے ہے، مگر ابھی تمہیں بہت کام کرنا ہے، آنکھ کھل گئی میں سوچ میں پڑ گیا مجھ گندے کو کیاکام کرنا ہے میں سوچتا رہتا تھا، کیا میں بھی کچھ کام کر سکتا ہوں، پیارے نبی کا کچھ کام۔۔۔ میرٹھ میں بھی میرے لئے رہنا مشکل ہوگیا مولانا صاحب سے مشورہ کیا، تو انھوں نے مجھے میرٹھ چھوڑنے کا مشورہ دیا، پہلے پنجاب، پھر ہریانہ، مگر میرا کام نہ جم سکا، قرض بڑھتا گیا، مجھے کسی نے کانپور جانے کا مشورہ دیا، مولانا صاحب نے استخارہ کو کہا، اتفاق سے مولانا کے ایک جاننے والے کانپور سے آگئے اور میں ان کے ساتھ کانپور آگیا، الحمدللہ چار سال میں یہاں میرا لوہے کا کام سیٹ ہوگیا، سارا قرض بھی اتر گیا، پہلے میں نے اپنے بیٹے کی شادی کی اور اب گذشتہ سال ایک بیوہ سے میں نے مسلمان کرکے شادی کرلی ہے، اس کے چھ بچے بھی میری تربیت میں مسلمان ہیں۔

سوال : ماشاء اللہ بہت مبارک ہے، آپ مسلمانوں کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب : ایک تو درخواست میری آپ سے ہے اور میں نے یہ سفر مولانا صاحب سے دعا کی درخواست کے لئے کیا ہے اور سب مسلمانوں سے بھی دعا کی درخواست ہے کہ میں نے اپنے ساتھ ایک دعوتی ٹیم بنائی ہے، جس نے ایک تو بنگالی خانہ بدوشوں اور ایک مدھیہ پردیش کے بھیل لوگوں میں دعوت کا کام شروع کیا ہے، اصل میں میرا ایک چلہ تو جمنا نگر میں لگا وہاں پر جگہ جگہ بنگالی لوگوں کی کچی پکی بستیاں ہیں ان میں اس وقت ہمارے مولانا صاحب کے ساتھی کام شروع کررہے تھے اور ایک چلہ کھنڈوہ کے علاقہ میں لگا، وہاں پر اسی طرح کی آبادی بھیلوں کی رہتی ہے، وہاں پر میں نے محسوس کیا کہ ان لوگوں میں کام کیا جائے تو فوج کی فوج مسلمان ہو سکتی ہے کانپور میں سیٹ ہوکرپچھلے سال میں نے دس سفر کئے، مجھے اللہ سے امید ہے کہ لاکھوں لاکھ لوگ انشاء اللہ مسلمان ہوں گے، میری تمام مسلمانوں سے درخواست ہے کہ ایسی نہ جانے کتنی آبادیاں ہوں گی اگر سنجیدگی سے کوشش کی جائے تو کتنے لوگ دوزخ سے بچ سکتے ہیں، اپنے اپنے حالات کے لحاظ سے دعوت کی فکر کرنی چاہئے۔

سوال : بہت بہت شکریہ ! نور بھائی آپ بڑے خوش قسمت ہیں،آپ ہمارے لئے بھی دعاکریں ۔

جواب : پیارے بھیا، ایسا احسان فراموش کون ہوسکتا ہے، جو آپ کے اور آپ کے گھرانے والوں کے لئے دعا نہ کرتا ہو، روتے ہوئے، رواں رواں آپ کے گھرکے احسان میں دبا ہوا ہے، میں اپنی کھال کی جو تیاں بنادوں تو آپ کے گھر کے احسان کا بدلہ ادا نہیں کرسکتا اللہ تعالی قیامت تک آپ کے گھرانے کو پورے عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے رکھے۔

سوال : آمین، ہمارے گھرانے کا کچھ نہیں، اصل میں تو اللہ کی طرف سے آپ کے لئے ہدایت کا فیصلہ ہوا ۔

جواب : ہاں میرے اللہ کا تو اصل کرم ہے ہی،

سوال : اچھا ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اللہ حافظ فی امان اللہ

 جواب : وعلیکم السلام، اللہ حافظ

مستفادازما ہ نا مہ ارمغان، جو لا ئی، اگست ۲۰۰۵؁ء