ہم اپنے ہاتھوں، اپنے لاشے کب تک اٹھاتے رہیں گے؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : ستمبر 2012

 

    انٹر نیٹ پر موجود یہ ایک ویڈیو ہے جس میں غزہ (فلسطین) کے ایک قبرستا ن کا منظر دکھایا گیا ہے ۔ ایک چودہ پندرہ سالہ فلسطینی بچی ایک قبر کے سرہانے بیٹھی یہ بتارہی ہے کہ اس کے خاندان کے آٹھ افراد اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔وہ کہتی ہے کہ میرا ایک بھائی سکول سے واپس آ رہاتھا کہ راستے میں اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ دوسرا بھائی سکول جا رہا تھا کہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پھر یہ بچی بڑے ہی دکھ سے کہتی ہے کہ میں بھی کسی دن ایسے ہی، سکول آتے یا جاتے اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بن جاؤں گی۔اس کے چہرے پر ہویدا غم اور کرب دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر میں بھی حسرت ، افسوس اور غم کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہوں۔
    یہ ایک اخبار میں چھپنے والی تصویر ہے جس میں ۱۲ سالہ محمد کا باپ جمال الدرہ اپنے محمد کو اپنی کمر کے پیچھے چھپائے اسرائیلی فوجیوں کی منتیں کر رہا ہے کہ اس کے بیٹے کو نہ مارنا۔ اخبار لکھتا ہے کہ جمال پینتالیس منٹ تک اپنی سی کوشش کرتا رہا کہ اس کامعصوم بیٹا اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بننے سے بچ جائے مگر بے سود ۔ جما ل نے اپنے سینے پر بہت سی گولیاں کھائیں مگر وہ اپنے محمد کو بچانے میں پھر بھی کامیاب نہ ہوسکا۔گوشت پوست کی کمزور دیوار بھی بھلا لوہے اور بارود کا راستہ روک سکی ہے۔ اس باپ بیٹے کے چہرے کا کرب اور بے بسی دیکھ کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہوں۔صرف میں ہی نہیں مجھے یقین ہے کہ دنیا کا کوئی بھی صاحب دل اور درد مند باپ اس منظر کو دیکھ لے تو وہ اس کو مدتوں بھلا نہ سکے گا۔
    یہ ایک رسالہ ہے جس میں فلسطین کی ایک گلی دکھائی گئی ہے۔پھول سا بچہ اپنے ہاتھ میں چپس کا پیکٹ تھامے اپنے گھر کو جار ہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چپس کھا لے مگر گلی میں جا بجا کھڑے فوجیوں کی بندوقیں اس کا ہاتھ روک لیتی ہیں او ر وہ بڑی معصومیت سے بندوقوں کو دیکھنے لگتا ہے ۔ دکا ن سے گھر تک چند قدم کا فاصلہ وہ جس خوف اور اذیت کے سائے میں طے کرتا ہے وہ احساس مجھے بھی ایسی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ میں اپنا سر اپنے ہی ہاتھوں سے تھام لیتا ہوں۔
    یہ ایک ویب سائٹ ہے جس میں ایک پانچ چھ سالہ فلسطینی بچی اپنے تباہ شدہ گھر کے سامنے میز پر اپنے دو کھلونے رکھ کر بیٹھی ہے ۔ان میں ایک بلی ہے اور دوسرا ایک بھالو۔ وہ بچی ہر آنے جانے والے سے یہ کہتی ہے کہ اس کے کھلونے خرید لے تا کہ وہ اپنے اور اپنی ماں کے لیے روٹی خرید سکے۔ بمباری سے نہ صرف یہ کہ اس کا گھر تبا ہ ہوگیا ہے بلکہ اس کا باپ بھائی اور باقی سب بھی منوں مٹی تلے چلے گئے ہیں۔ اب ان کے پاس اتنا بھی نہیں کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ یہ معصوم سی بچی جس کی عمر تو کھیلنے کودنے کی ہے اپنی سی آخر ی کوشش کر رہی ہے کہ کس طرح وہ اور اس کی ماں جسم و جان کا رشتہ قائم رکھ سکیں۔پتا نہیں اس بچی کے کھلونوں نے پچھلے کئی دنوں سے مجھے کئی بار ،کیوں رلایا ہے۔ 
    یہ عراق کی بیس سالہ نادیہ ہے جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے ان کے گھر گئی تھی۔ وہاں امریکی فوجیوں نے تلاشی کے بہانے دھاوا بول دیا۔گھر والوں کے ساتھ یہ بھی پکڑی گئی۔ اور پھر چھ ماہ تک امریکی فوجیوں نے نہ صرف یہ کہ اس کی عصمت دری کی بلکہ شدید تشدد اور اذیت کا نشانہ بھی بنایا۔ اس کہانی کوخود ایک امریکی اخبار نے شائع کیا ہے ۔
    اس طرح کی دو چار یا دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں تصویریں، کہانیاں اور مناظر،عرب دنیا میں چھپنے والے انگریزی و عربی اخبارات و رسائل کی صورت میں او رانٹر نیٹ پرموجود ویب سائٹس اور ویڈیوز کی شکل میں پچھلے کئی دنوں سے میرے سامنے ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر کبھی تو میں رونے لگتا ہوں اور کبھی سوچنے ۔کبھی بے بسی سے ہاتھوں کو مسلنے لگتا ہوں تو کبھی غصے میں اٹھ کر ٹہلنے لگتا ہوں اور جب کچھ بھی بس نہیں چلتا تو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے لکھنے لگتا ہوں۔میرے جیسا کمزور انسان اور کربھی کیا سکتا ہے؟
    نہ جانے مجھے، یہ کیوں لگتا ہے کہ امریکی و اسرائیلی ظلم کا شکار ہونے والے یہ سب بچے، میرے بچے ہیں، یہ سب مائیں ،میری مائیں ہیں یہ سب بہنیں ،میری بہنیں ہیں ،یہ سب بھائی، میرے بھائی ہیں ۔سوچتا ہوں میں ان کی کیسے مدد کر سکتا ہوں؟
     میں نے بہت سے دانشوروں کے دروازے پر دستک دی ، بہت سے مذہبی رہنماؤں سے پوچھا اور بہت سے مفکرین کی رائے معلوم کی، سب نے کہا ہم بدلہ لیں گے ۔ہم بھی ان ظالموں کو گولی سے اڑا دیں گے۔ہم بھی انہیں تباہ وبرباد کر کے رکھ دیں گے ۔ یہ سن کر میری سوچ کے سائے اور گہرے ہو گئے ہیں، اورمیں پہلے سے بھی زیادہ پریشان ہو گیاہوں ۔
     سوچتا ہو ں کہ یہ سب کچھ تو پچھلے تیس چالیس برس سے ہو رہا ہے ۔ مگر نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ہمیں کو اپنے لاشے اپنے ہاتھوں اٹھانے پڑتے ہیں ، ہمارے ہی خون سے ابو غریب سیراب ہوتاہے ، ہماری ہی ہڈیوں سے فلوجہ تشکیل پاتا ہے اور ہمارے ہی جسموں سے غزہ کے قبرستان آباد ہوتے ہیں۔ ہمیں ہی سری نگر ، کابل اور وزیر ستان کا دکھ سہنا پڑتا ہے ۔ آخر کیوں؟اور ادھر ظالم ہے کہ دن بدن آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ 
    سوچتا ہوں کہ ہم نے کتنے لشکر ، کتنے جیش ، کتنی جماعتیں ، کتنی تنظیمیں ، کتنے القاعدہ ، کتنے فدائی اس کے لیے تیار کیے مگر ہر بار ہماری ہی مائیں روئیں ، ہمارے ہی بچے یتیم ہوئے ، ہمارے ہی گھر اجڑے ، اور ہمارے ہی شہر برباد ہوئے ۔ظالم کا اگر گیابھی تو آٹے میں نمک برابراور اس سے ظالم کو کیا فرق پڑتا ہے!
    سوچتا ہوں کہ کیوں نہ ہم اپنی پالیسی تبدیل کر دیکھیں۔ کیوں نہ ہم مان لیں کہ ہم کمزور ہیں۔ ہم بکھری ہوئی ،منتشر اور پراگندہ خیال قوم ہیں ۔ ہم ردعمل کی نفسیات کا شکار ہیں۔ہم اپنی عظمت رفتہ کو شارٹ کٹ سے حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ ہمارے رہنما ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر کوئی درخت لگا کر اس کا پھل بھی خود ہی کھانا چاہتا ہے۔
    کیوں نہ ہم تسلیم کر لیں کہ ہم علم و فن میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ کیوں نہ اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ ہم نے ایمانی قوت کھو دی ہے اور مادی قوت کے راستے بھی ہماری کرپشن اور بددیانتی نے مسدود کر رکھے ہیں۔ 
    کیوں نہ ہم یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ ہم قحط الرجال کا شکار ہیں ۔ ہماری ماؤں نے وہ لیڈر جننے بند کر دیے ہیں کہ جو نہ بکتے تھے نہ جھکتے تھے ۔اب ہمارے ہر لیڈر کی ایک قیمت ہے فرق ہے تو بس ان کی قیمت کا ،کسی کی کم ،کسی کی زیادہ۔ ایسے میں کیا ہمارے فدائی حملے ، ہمارے پتھر ، ہمارے غلیل ، ہمارے خود ساختہ بم، ٹینکوں ، راکٹوں ، میزائلوں اور سیٹلائٹ کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ہم پتھر پھینک کر زیادہ سے زیادہ ایک سر پھوڑتے ہیں اوروہ اس کے جواب میں پورا گھر ، پورے کا پورا گاؤں اور پورے کی پوری بستی اڑا ڈالتے ہیں۔کیا بدلہ لینے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم اپناسب کچھ لٹا بیٹھیں اور دشمن کا جائے مگر بال برابر۔ہمارانقصان تو ہو زیادہ سے زیادہ اور اس کا ہو کم سے کم۔
    سوچتا ہوں کہ اصل حل یہ ہے کہ حکمت عملی کے تحت ہم ہارمان لیں ، شکست تسلیم کر لیں۔ ہم یہ جان لیں کہ عقل مندی یہ ہوتی ہے کہ موجود وسائل اور قوت کو اس طرح کام میں لایا جائے کہ وہ زیادہ وسائل اور زیادہ قوت کے حصول کاذریعہ بنیں نہ کہ موجود وسائل اور قوت کو بھی ضائع کر دیا جائے ۔ہمارے پاس جو کچھ ہے، نہ صرف یہ کہ ہم اسے بچالیں بلکہ ان کو کام میں لاکر اور بھی حاصل کرلیں۔جب کہ اس وقت ہم جو کچھ ہے اسے بھی لٹانے پہ تلے بیٹھے ہیں۔ ہم میں جو جہا ں ہے وہ اس پیغام کو عام کرے کہ ہمیں ایک عرصہ تک خامو ش رہ کر چلتے رہنا ہے ۔ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے عظمت کی بنیاد بننا ہے ۔ اور اپنی نسلوں کو یہ سمجھانا ہے کہ دشمن سے بدلہ لینے کا وقت تب ہوتا ہے جب اس کے برابریا کم از کم اس سے نصف طاقت کے مالک بن جائیں اور اس دوران میں بدلہ یہی ہوتا ہے کہ اپنی ساری توجہ ایمانی و مادی طاقت کے حصول پرصرف کر دی جائے۔     
    سوچتاہوں کہ میں لوگوں سے کہوں کہ، لوگو آؤ جو کچھ ہے کم از کم اسے تو بچالو۔ ٹھنڈ ے دل سے غور کرو ۔ اگر ہم نے سب ضائع کر دیا تو ہمیں پھر صفرسے شروع کرنا پڑے گا۔کیا یہ بہتر نہیں کہ ہمارے پاس جو دس بیس ہے اس سے شروع کر لیں۔ لوگو، جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو اور انہیں مناسب وقت کے لیے اٹھا رکھو۔
    سوچتا ہوں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے یقینا بہتر ہوتی ہے مگر اس وقت جب شیر کے اپنے بچے محفوظ ہوں۔اگر سارے گیدڑ شیرکی پوری نسل ہی تباہ کر دینے پر تلے ہوں تو پھر شیر کی بہادری یہ ہے کہ خود ذلت کی زندگی گزار کے اپنی نسل کو بچالے اور انہیں یہ سبق دے جائے کہ گیدڑوں کو ایسا سبق سکھانا ہے کہ وہ پھر کبھی کسی تنہا شیر کی طرف بھی دیکھنے کی ہمت نہ کریں۔ 
     جی چاہتا ہے کہ ایسی آواز لگاؤں جو عالم اسلام کے کونے کونے تک پہنچ جائے ۔مگر کیسے؟میں جانتا ہوں کہ میری آواز تو ایک کمزور آواز ہے ! لیکن سوچتا ہوں نہ ہونے سے تو یہ کمزو ر آوازبھی بہر حال بہتر ہے ۔اور پھر یہ بھی تو ہے کہ میرا کا م تو آواز لگانا ہے پہنچانا تو قادر مطلق کا کام ہے۔وہ آج پہنچائے یا کل اور یا پرسوں۔یہ اس کی حکمت ازلی و ابدی بہتر جانتی ہے ۔وہ اسی کو پہنچا دے یا اسے کل کسی طاقتور آواز کاراستہ بنادے ۔ یہ بھی وہی جانتا ہے ہمارا کام تو یہ ہے کہ 
ہر حال میں آواز لگاتے رہو ازہر
صحرا میں اذانوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے