آج کا سبق

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اگست 2012

 

    استاد کلاس روم میں داخل ہوا ، اور اس نے کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔اب وہ طلبا کی طرف متوجہ ہوا او ر کہنے لگا ، تم میں کوئی ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر چھوٹا کردے ۔سب طالب علم خاموش تھے ۔ آخر ایک طالب علم نے کہا کہ سر، یہ ناممکن ہے ۔ اس کو چھوٹا کرنے کے لیے اس کو مٹانا پڑے گا جبکہ آپ اس کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں۔استاد نے پھر کلاس کا جائزہ لیا ۔ سب بچو ں کے چہروں پر یہی جواب لکھاتھا۔استا د نے پھر کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پہلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑ ی ،ایک اور لکیر کھینچ دی۔بچے حیران رہ گئے کیونکہ انہیں صاف نظر آر ہا تھا کہ پہلی لکیر چھوٹی ہو گئی ہے جبکہ اسے نہ چھیڑ ا گیا ہے نہ چھوا گیا ہے ۔استاد نے کہا ، بیٹا ، اس لکیر کا یہی پیغام ہے کہ ہم زندگی میں دوسروں کی لکیریں مٹائے بغیر بھی اپنی لکیر بنا سکتے ہیں اس کے لیے نہ کسی کی لکیر مٹانے کی ضرورت ہے ، نہ چھوٹا کرنے کی۔ گویا ہم دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر بھی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
    اس کلاس روم کے سبق کو آج وطن عزیز کی چھیاسٹھویں سالگر ہ پر ہر شعبہ زندگی میں بار بار دہرانے اور یاد کروانے کی ضرورت ہے ۔ہمار ے سیاست دان ، ہمارے مولوی ،ہمارے علما ، ہمارے عسکری رہنما، ہمارے فنی ماہرین ،ہمارے تاجر ، ہمارے صنعت کا ر ،ہمارے عوام، ہمارے خواص سب کے سب اپنی اپنی لکیروں کو بڑاثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر دوسروں کی لکیریں مٹا کر۔ اگر ہم انفرادی ، اجتماعی ، قومی ، ملی اور عالمی سطح پر دوسروں کی لکیروں سے حسد کرنے کے بجائے اور انہیں مٹانے کے درپے ہوئے بغیر اپنی اپنی لکیر کھینچنے پہ توجہ دیتے ، اسی کو لمبا کرتے ، اسی کو گہرا کرتے اور اسی میں رنگ بھرتے تو یقین جانیے ، آج کچھ کہے بغیر دنیا میں ہماری ہی لکیر نمایاں ہوتی ۔
    چھوٹا ،چھوٹا ہوتا ہے اور بڑا ، بڑا،البتہ اس کے لیے خود کو بڑا بنانا پڑتا ہے او ریہ ایک صبر آزما سفر ہے ۔ بڑ ا بننے کے لیے یہ ہر گز لازم نہیں کہ دوسرے کو چھوٹا بھی ثابت کیا جائے ۔اگر آپ واقعی بڑے ہیں تو ایک وقت آئے گا کہ دنیاخود ہی آپ کو بڑا ماننے پرمجبور ہو گی ۔یاد رکھیے کہ دوسروں کے سر کا ٹ کر بڑابننے کی ہر کوشش آپ کو بالآخر چھوٹا بنا دے گی۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ تاریخ کا سبق یہ ہی ہے اور ‘آج ’کے ماتھے پہ لکھا ہوا سبق بھی یہی۔