انگریزی دور میں حکومت کی مخالفت

مصنف : صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بُگوی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : 2017 جنوری

 

تاریخ
انگریزی دور میں انگریزی حکومت کی مخالفت
صاحبزادہ ڈاکٹر انوار احمد بگوی

1857ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں کی مشترکہ جدوجہد اگرچہ کامیاب نہ ہوسکی تاہم انگریزوں نے آئندہ درپیش آنے والے خطرات کو بھانپ لیا تھا۔انگریزبرصغیرکے علاوہ دیگرمسلم ممالک پر بھی قبضہ کرنے کے منصوبے بناچکاتھا اس لئے اپنے اقتدار کو بچانے اورقبضہ بڑھانے کے لئے مسلمان اُس کا خاص نشانہ تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ایک تو مسلمانوں میں جہاد بنیادی عقیدے کے طورپر ایک بدیہی امر تھادوسرا وہ کئی سوسال تک ہندوستان کے حکمران رہ چکے تھے۔انگریزوں کی بداعتمادی اور اُن کے نشہ اقتدارکی بدمستی کے خلاف مسلمانوں کے دو رد عمل سامنے آئے۔ایک سرسید احمد خان مرحوم کا کہ نئے حکمرانوں کے ساتھ مفاہمت کی جائے،ان کو اسلام اور مسلمانوں سے متعارف کرایاجائے اور انگریزی زبان سیکھ کر مسلمان کاروبارِ سلطنت میں انگریز حاکموں کے دست و بازو بنیں۔دوسرا رویہ علماء کا تھا۔ہر دور کے صوفی مشائخ تو ہمیشہ برسراقتدارگروہ کے لئے دعاگورہتے ہیں۔ عوام اپنی مشکلات کے لئے اُن کے پاس خود چل کر آتے ہیں۔ ان کی خانقاہ کو حکومت اور حکمرانوں سے کیاکام۔ علماء نے انگریزی زبان،تہذیب اور علوم وفنون کے مقابلے میں اپنے درس ووعظ کے روایتی سلسلے کو قائم رکھا اور اپنے مدرسوں میں قلعہ بند ہوگئے۔مدارس عربیہ کایہ نظام تعلیم پہلے عالم،محقق،مہندس،شاعر،ادیب،مورخ اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پیداکرتاتھا،اب یہ محدود مذہبی تعلیم سے متعلق شعبہ جات یعنی مدرس،واعظ ،خطیب،محدث ،مفتی وغیرہ تک محدود ہوکررہ گیا۔گویا نصاب درس نظامی کا تھا۔متداول کتابیں اور ان کتابوں پر حاشیے صدیوں سے رائج چلے آرہے تھے۔درسی تعلیم کا سارازورفقہ پرتھا۔حدیث کی دہرائی تھی البتہ قرآن چند پاروں کی برکت تک محدودہوگیا۔انگریز،اس کی زبان تہذیب اوراُس کے آوردہ علوم وفنون بلکہ مشینی ترقی سے علماء کی نفرت کے بیسویوں واقعات ہیں جنہیں فخر سے دہرایاجاتاہے۔رہے مشائخ یعنی اصحاب پیری و مریدی وہ تعلیم و تہذیب سے عموماً لاتعلق تھے۔ ان کا خانقاہی سلسلہ اہل ثروت کا مرہون منت تھا اور عوام اپنی حاجات کے لئے اُن کے گرویدہ، سو سجادہ نشین مغلوں اور سکھوں کے لئے کبھی خطرہ رہے اور نہ اب انگریز کے لئے کسی پریشانی کا سبب بن سکتے تھے۔
انگریزی دور میں علماء کی تحریریں اور شاید تقریریں سب سے پہلے سرسید کی تفسیر اور ان کے نظریات کے خلاف نظر آتی ہیں۔انگریز ی زبان،علوم اور تہذیب کے خلاف اُن کی تحریریں یا تقریریں ریکارڈ پر نہیں ہیں۔ پھر اُن کی تحریریں اور تقریریں بیسویں صدی کے آخرمیں----جہاد اور ختم نبوت کے مخالف مرزا غلام احمدقادیانی صاحب کے خلاف دکھائی دیتی ہیں جب وہ مناظراسلام اور خادم اسلام کے جامے سے باہرنکل رہے تھے۔ ان دونوں محاذوں پر ہمارے گدی نشین پیروں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ یہ صرف ایک دفاعی حرکت تھی انگریز کے خلاف کوئی جارحیت نہیں تھی۔انگریز نے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لئے ان تمام رخنوں کو سختی سے بند رکھا جہاں سے فکر اور اظہارکی آزادی آسکتی تھی۔ علماء اور مشائخ بھی حکومت کے جبراورقہرسے بخوبی واقف تھے اس لئے انہوں نے انگریز کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔پنجاب پر1849ع میں مکمل قبضے کے کئی سال بعد1856ع میں بادشاہی مسجد لاہورواگذار ہوئی اور اہالیان لاہور کو پہلی بار وہاں اذان ،نماز اورجمعہ پڑھنے کی اجازت مل سکی۔تب مولانا احمد الدین بگویؒ پہلے امام اور خطیب مقرر ہوئے۔
اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ملک کی باقی مساجد کا کیاحال ہوگا؟اس جبر اور ظلم کے خلاف کہیں کوئی آواز نہ اُٹھ سکی۔
برصغیر میں انگریز کی خفیہ پولیس یعنی سی آئی ڈی (Criminal Investigation Deptt) اور محکمہ اطلاعات (Information Deptt) ہر وقت مستعد اورچوکنے رہتے تھے۔عوام اور خواص کی تمام سرگرمیاں CID کی رپورٹنگ کی زد میں ہوتی تھی۔ CID کے ایجنٹ اور مخبر تمام طبقوں میں اور جگہ جگہ موجودہوتے تھے۔ کسی سادہ سے اخبار یا بے ضرررسالے کا ڈیکلریشن لینا جان جوکھوں کا کام تھا۔قلم اور قرطاس پر یہ پابندی پاکستان بننے کے بعد بھی کافی دیرتک قائم رہی۔ٹائپ رائٹررکھنا جرم تھا۔پرنٹنگ پریس کا License حاصل کرنامحال تھا۔ہرچھپنے والی تحریرپر پریس کانام اور اس تحریر کی پانچ کاپیاں حکومت کو بھیجنا لازمی تھا۔تحریر یا تقریر کے ذریعے حکومت یا انگریز کے خلاف ---- اشارۃ" کنایتہ " اظہار متعدد دفعات کے تحت سنگین جرم تھا۔قومی سطح کے جرائد میں ہمدرد،کامریڈ،الہلال،البلاغ ،زمیندار یہ چند نام ہیں جو ایک عام تحریر،سادہ سے اشعار چھپنے پر بند ہوئے اضافی ضمانت طلب ہوئی،ضمانت ضبط ہوئی،کاغذ کا کوٹہ بند ہوا۔ایڈیٹر اور پبلشر جیل میں گئے۔کانگریس اور احراراسلام کے اکثرلیڈر اپنی تقریروں اور تحریروں کی وجہ سے بقول مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ "کبھی ریل میں کبھی جیل میں " رہے۔ہندوستان کے کروڑوں کالے غلام،چند ہزار گورے انگریزوں کے قبضے میں تھے۔SHOاورDCجبراورہیبت کانشان تھے۔ ایک عوام کی تذلیل کے لئے اور دوسرا ہندوستانیوں کی کمائی سے لگان مالیہ ہتھیانے کے لئے۔غرض ہر طرف ضمیر کا سناٹااور جبر کا چلن تھا۔سرکار کی مرضی کے بغیرپتہ بھی نہیں ہلتاتھا۔ان حالات میں کون مائی کا لال- مولوی یا پیر- انگریز کے خلاف زبان کھول سکتا تھا ۔ ان پڑھ مفلوک الحال اور محروم عوام کس شمار میں تھے۔چنانچہ انگریز کی مخالفت یا اُس کے خلاف جدوجہد کا سوال ہی نہیں پیداہوسکتاتھا۔انگریز کو جس کام کی ضرورت ہوتی وہ نکلوالیتاتھا دھن،دھونس اوریا دھاندلی سے۔
برصغیر کا ایک وائسرائے جب پہلی بار کوئٹہ گیا تو بلوچستان کے تمام سرداروں نے اُس کی بگھی کو ننگے پاؤں،ننگے سر اپنے ہاتھوں سے دھکیل کراپنی تابعداری اور وفاداری کا ثبوت دیا۔ملکہ وکٹوریہ ، جارج پنجم وغیرہ کی تاجپوشی یا سالگرہ کے موقع پر پنجاب کے مشائخ-- تمام گدیوں کے پیروں اور کئی مولویوں نے اسے نذارنہ عقیدت پیش کیا۔سرکارپرستی اور انگریز نوازی میں کسی کی تخصیص نہ تھی۔نہ اہل جبہ ودستار کی اور نہ اہل مسند وسجادہ کی ۔تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!
ماہنامہ " روح بلند" لاہور اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک وسیع النظر اور تحقیق پسند جریدہ ہے۔مارچ 2016ع کے شمارے میں حافظ خورشید احمد قاری استاد شعبہ اسلامیات گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کا ایک مضمون " برصغیر کے برطانوی راج کی مخالفت میں صوفیائے سیال شریف کا کردار"کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ برصغیر کے حاکمانہ تناظر اور انگریز کے طرز حکمرانی کے حوالے سے عقید ت نے حقیقت کو چھپادیاہے۔ چنانچہ مضمون میں مندرج واقعات اور ان سے اخذ کردہ نتائج بدیں وجوہ خلاف واقعہ ہیں:
1. فوزالمقال کے مولف محمد مرید احمد چشتی اصلاً مرید اور معتقد ہیں،محقق اور عالم نہیں ہیں۔انہوں نے ہررطب ویابس کو حسن عقیدت سے چوم کر زینت قرطاس بنا دیاہے۔اگر وہ واقعات اور بیانات کی تحقیق کر لیتے تو اُن کی تالیفات ملفوظات نہ بنتیں،ایک علمی اور سوانحی اثاثہ ہوتا۔
2.(تحصیل) خوشاب(ضلع شاہ پور) کے گاؤں سَرکی کا واقعہ1924ع میں پیش آیا۔خواجہ محمد ضیاء الدین سیالویؒ (1927-1887ع( اور مولانا ظہور احمد بگوی ۱۹۰۰۔۱۹۴۵ ئمجلس خلافت کے دورے پر تھے۔مولانا نے انگریزوں کی فوج میں ملازم مسلمان ہندوستانی سپاہیوں کی ان" خدمات "کا بتایا جوانہوں نے جنگ میں عرب مسلمانوں کے خلاف سرانجام دیں۔مشتعل ہو کر چند مقامی نوجوانوں نے وہ سرکاری پتھر اکھیٹردیاجس پراُن مقامی ملازم پیشہ افراد
کے نام لکھے ہوئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف زیادتیوں کاارتکاب کیاتھا۔مولانا کی تقریر انگریزوں کے خلاف نہ تھی۔ ملازم مسلمانوں کی کرتوتوں کے بارے میں تھی تاہم مقدمہ چلا اور مولانا کی بطور سز اچند ماہ کے لئے زبان بندی اور نقل وحرکت بند ہوگئی۔ خواجہ سیالویؒ کا اس معاملے سے کوئی تعلق تھا اور نہ ان پر کوئی مقدمہ قائم ہوا۔مقدمہ کی پیشیا ں مولانا اور اُن کے عم زادمولوی رشید احمد بگوی مرحوم نے ہی بھگتیں(تذکار بگویہ جلداول 427)۔
یادرہے مولانا بگویؒ تحریک خلافت میں ضلع شاہ پورکے پہلے سیاسی قیدی تھے جنہوں نے 1922 ع میں بطور معتمد(جنرل سیکرٹری)مجلسِ خلافت ضلع شاہ پور (سرگودھا)ایک سمری ٹرائل کے بعدڈیڑھ سال کی قید بامشقت کی سز کاٹی۔
3. انگریزی دورمیں یہ ناممکن تھا کہ کسی جگہ ہندوستان کی انگریز ملکہ کا بت موجود ہو،کوئی ہندوستانی اسے ہٹانے کا حکم دے اور حکومتی مشینری خاموش رہے۔آج کے دورمیں بھی حکومت کیWRIT ہمیشہ مقدم ہوتی ہے۔یہ واقعہ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔انگریزی دور میں یہ بت جگہ جگہ کھڑے کئے گئے تھے۔
4. ضلع شاہ پور کے ڈی سی کی جانب سے ایک تحصیلدار متحدہ پنجاب کے گورنر کا پیغام لے کر جائے اور زرعی مربعوں کی پیش کش کرے اور ہندوستانی رعایا وہ آفرٹھکرا دے۔یہ اعتراف خدمت تھا یا اظہار عقیدت ؟یہ حکایت بالکل بے بنیاداور بے حقیقت ہے۔اس مقصد کے لئے جاگیردار مرید ومعتقدموجود تھے۔
5. یہ ناممکن ہے کہ کسی مقفل مسجد کے باہر اس کے مرکزی دروازے پر دو برطانوی سپاہی پہرہ دے رہے ہوں اور ڈی سی یا پولیس کپتان کی اجازت کے بغیر تالہ توڑدیاجائے اور قانون حرکت میں نہ آئے۔پھر یہ واقعہ کب اورکہاں پیش آیا۔سپاہیوں کا کیارد عمل تھا؟کوئی حوالہ؟
6.یہ ناممکن ہے کہ انگریز حاکم ضلع زیارت کے لئے سیال شریف آئے اور خواجہ سیالویؒ ملنے سے انکارکردیں۔ان کے انکارسے تو آستانہ سیال شریف کے زمیندار اور جاگیردارمتوسلین کی نوکری خطرے میں پڑگئی ہوگی۔انکاراور وہ بھی ایک صاحب سجادہ کا یہ توعام مروت کے بھی منافی ہے۔
7. خواجہ صاحب کے پالتو کتے کا نام جارج اور اگر گنتی میں پانچواں ہے تو جارج پنجم ہی ہوسکتاہے ۔کتوں کے حوالے سے ایسی بات کو انگریز آج بھی MIND نہیں کرتا۔ لیکن "روشنی کے لئے برطانوی ساختہ لالٹین (LANTERN) کا عدم استعمال یا کسی مقامی سرکاری ملازم کا لنگرشریف کے برتنوں میں کھاناکھالینا یا صرف چھولینا " اورحکم پرتوڑ دینا۔صحیح رپورٹنگ نہیں ہے۔ایک خدا دوست صوفی تو کہاں عام انسان بھی ایسا نہیں کرتا۔ خواجہ صاحب کے جاگیردار اورزمیندار معتقدضلعی اور صوبائی انگریز حکام کے بھی مصاحب اور حاشیہ بردارتھے۔کیا ان کے برتن بھی اچھوت ہوگئے تھے؟اتنی نفرت کے بعد غلط کاروں کی اصلاح کیسے ممکن ہوتی؟
8. تحریک ہجرت پر تحقیقی مواد میسر ہے۔بعض لوگوں کی آپ بیتیاں بھی موجود ہیں۔خانقاہ سیال شریف کی مجوزہ Contributions پرکام کیاجاسکتاہے۔اس سلسلے میں جو تحریریں البتہ میری نظروں سے گذری ہیں اُن میں خواجہ سیالویؒ یاخانقاہ سیال شریف کا کہیں ذکرنہیں ملتا۔
9. حکیم علی محمد(مختصر دہلوی)خوشاب کے اعوان تھے۔جب ایک بار میں نے انہیں بھیرہ میں دیکھا تو پاجامہ،شیروانی اورترکی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔پان رغبت سے اور کثرت سے چباتے تھے۔سیلانی طبع اور مجلسی آدمی تھے۔دہلی،بمبئی اور سرگودھا میں مجربات خاص کا مطب کرتے تھے۔خواجہ سیالویؒ کے معتقد اوراُن کی زندگی پر " حیات الضیاء"کے نام سے کتاب لکھوانے کے خواہشمندتھے ۔وہ شاعری بھی کرتے تھے۔ حکیم صاحب خود یا مولانا محمدذاکر بگویؒ کے ساتھ وہ کبھی افغانستان نہیں گئے کیونکہ 1916ع میں مولانا محمدذاکر بگویؒ لاہورمیں وفات پاچکے تھے اور حکیم صاحب ابھی کم سن تھے۔البتہ آخرالذکر کی وفات کے بعداُن کے بھائی مولانا محمد یحییٰ بگویؒ م1957ضرورایک بار کابل گئے تھے جہاں مولانا محمد ذاکر بگویؒ کے مریدوں خصوصاً ڈاکٹر عبدالعزیزمرحوم نے انہیں مدعو کیاتھا۔راقم نے مولانا محمد یحییٰ ؒ کابرٹش پاسپورٹ دیکھا ہے۔افغانستان کا ویزہ اور داخل و خارج تمام اندراجات فارسی زبان میں تھے۔
10. خواجہ ضیاء الدین ثالث سیالویؒ - طبقہ مشائخ کے ان چند اصحاب میں سے تھے جو قومی درد رکھتے تھے۔مسلمانوں کی بہتری چاہتے تھے۔وہ دل وجان سے تحریک خلافت میں شریک تھے۔خواجہ صاحب تحریک کی تنظیمی، تحریکی،تقریری یا تحریری سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوتے تھے لیکن آپ نے برصغیر کی اس عظیم تحریک میں دامے،درہمے،سخنے اورقدمے بہت شاندار حصہ لیاتھا۔خواجہ صاحب کی خدمت اور عزیمت کا شرف(CREDIT) آپ کے بااعتماد معتقد اورخادم مولانا ظہور احمد بگویؒ کوجاتاہے۔وہ خواجہ صاحب کے معتمد ،نقیب،سیکرٹری اور نمائندہ تھے۔ضلع سرگودھا کی منجملہ سرگرمیوں میں وہ خواجہ صاحب کی معیت اورشفقت میں ہمہ تن مصروف رہے۔ ہرکام میں وہ ان سے رہنمائی اور مدد لیتے تھے۔1926ع کے سفر دیوبند میں مولانا خواجہ صاحب کے ساتھ تھے۔علمائے دیوبندنے اُن کاپرجوش استقبال کیا۔وہاں قیام کے دوران ایک تقریب میں خواجہ صاحب کی طرف سے مولانانے جوابی تقریر کی۔خلافت کی اکثر مجالس اور جلسوں میں خواجہ صاحب کی طرف سے اظہار خیال مولانا بگوی ہی کرتے تھے۔(بحوالہ تذکاربگویہ جلداول و سوم)
11. انگریز سرکار نے خلافت کی تحریک میں مسلمانوں کے جوش وخروش اور سرگرمیوں میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔واقعہ کربلا کی طرح مسئلہ خلافت بھی انگریزوں کی فہم سے
کچھ باہرتھا۔واقعہ یہ ہے کہ انگریز کو ترکی خلافت کی حیثیت اوراتا ترک کے حوالے سے اس تحریک کے انجام کی پہلے سے خبر تھی۔
12. یہ بات بالکل بے بنیاد اورنادرست ہے کہ پیر مہرعلی گولڑویؒ نے زیورات اور تربیت یافتہ گھوڑے ترکوں کو دیئے تھے۔وہ تو تحریک خلافت کے سرے سے خلاف تھے۔وہ خلافت اور موالات دونوں تحریکوں کے مخالف تھے۔اس لئے ان کا حلقہ ارادت بھی دونوں تحریکوں کے مخالف رہا۔
13. واقعہ یہ ہے کہ پیر صاحب گولڑویؒ تحریک خلافت کو ناپسند کرتے تھے۔خواجہ سیالویؒ کے ساتھ اُن کی عام شکررنجی بھی رہی اور اس موضوع پر خط وکتابت بھی۔
1923 ع میں سیال شریف کے سالانہ عرس کے موقع پر خواجہ صاحبؒ نے مولانا محمد اسحاق مانسہرویؒ کو شرکت کی دعوت دی اور خلافت کی حمایت میں تقریر کرنے کو کہا۔مولانا مانسہرویؒ نے پیر صاحب گولڑویؒ کو چیلنج دیا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں وہ اُن کے ساتھ خلافت اور ترک موالات پر مباحثہ کریں۔ پیرصاحب کے بااثر اور جاگیردار مریدوں نے اس بات کا بہت برامنایا۔انہوں نے نقضِ امن کی آڑ میں مقامی پولیس کی مدد سے مولانا مانسہرویؒ کو ہتھکڑیاں لگوادیں۔پولیس نے چالان مکمل کیا۔عدالت میں مقدمہ چلا ،وکیل پیش ہوئے، سزاہوئی اور مدت سزا پوری کرنے کے بعد وہ جیل سے رہاہوئے۔
(تذکار بگویہ جلد سوم ص679) 
یہ اختلاف صلح پر منتج نہیں ہوا بلکہ دیر تک علاقہ راولپنڈی میں اس اختلاف کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔
14.خواجہ صاحب سیالویؒ نے ترک موالات یا ہندو مسلم مواخات کے لئے الگ سے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔ جو فتویٰ جاری ہوا وہ اصلاً ایک استفسار تھا جو مولانا ظہوراحمد بگویؒ نے لکھا،مولانا محمد حسینؒ نے بصورت فتویٰ اس کا جواب تحریرکیا ۔ اس تحریر پرممتاز علمائے ہندؒ بشمول (علمائے دیوبند)اور خواجہ سیالویؒ نے توثیقی اور تائیدی دستخط کئے۔مولانا بگویؒ نے اس تحریرکو مرتب کر کے مجلس خلافت سرگودھا (شاہ پور)جانب سے بابومنوہرلعل الیکٹرک پرنٹنگ پریس سرگودھا سے۱۹۲۰ میں شائع کیا۔اس کتابچے کا عنوان تھا
" فتویٰ درجواز ہندومسلم اتحاد"
قومی اور مرکزی فیصلوں کی روشنی میں1926ع میں مولانا بگویؒ نے بطور معتمد مجلس خلافت بھیرہ ضلع شاہ پور ایک " فتویٰ عام" جاری کیا۔اس فتویٰ میں پرامن
تحریک ترک موالات کے حوالے سے جمعیت علمائے ہند اور ہندوستان کی دیگر بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں اور مرکزی مجالس کی قراردادوں کا خلاصہ 6 نکات کی صورت میں شائع کیاہے۔ اس خلاصہ میں سرکاری خطابات کی واپسی،سرکاری عدالتوں کی بجائے قومی پنچائیتوں سے فیصلے،سرکاری جلسہ جلوس میں عدم شرکت،بچوں کی سرکاری کی بجائے قومی مدارس میں تدر یس،سرکار کو رقوم قرض دینے کی ممانعت اور بدیشی (غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اندراج ہے۔ 
15. پاکستان کا کوئی شہری بشمول وزیر اعظم اور دیگر حکمران ٹیکس چوری تو کرسکتے ہیں لیکن ٹیکس لگنے کے بعد دینے سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا انکار بغاوت کے مترادف ہوتاہے۔انگریز دورمیں یہ کیسے ممکن ہے کہ خواجہ صاحب سیالوی ؒ ایک بڑے زمیندار ہوتے ہوئے لگان کی مد میں حکومت کو کبھی پھوٹی کوڑی بھی ادا نہ کریں اور بغیر سزا آزاد پھرتے رہیں ایسی لاقانونیت تو قابل تعزیر ہے۔قانون میں اس کی کوئی معافی نہیں ہوتی۔
16. ایسا کوئی فتویٰ ریکارڈ پر نہیں ہے جس کے مطابق "خواجہ صاحب سیالوی نے برطانوی حکومت کی فوج اور پولیس میں ملازمت کو حرام قراردیاہو"۔یہ تو انگریز سرکار کے خلاف کھلی بغاوت ہوتی جو انگریز کوقطعاً قابل قبول ہوتی اور نہ خواجہ صاحب کے ان مریدوں کو جو سرکاری ملازمت میں تھے یا سرکار کے خطاب یافتہ اور انعام یافتہ کرسی نشین تھے۔ یہ لوگ تو سرکار کو خبریں اور اطلاعات دینے کے علاوہ لام بندی میں فوجی رنگروٹ بھی مہیاکرتے تھے۔
17. اس میں کوئی شک نہیں کہ خواجہ صاحب تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے زبردست حامی تھے مگر آپ انگریزوں کے خلاف نہیں تھے اور نہ ہی ریاست کے صحیح یا غلط قانون کے خلاف بغاوت کرسکتے تھے۔ایسا ہوتاتو پھر وہ شہادت کا رتبہ پاتے یادریابعبور شور یا جزائر انڈیمان میں قید ہوتے یا شیخ الہندکی طرح 
مالٹا میں!چنانچہ یہ بات عقل سے بعید ہے" کہ سرکار انگلیشہ کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں خواجہ صاحب کا نام سب سے نمایاں تھا "اوریہ کہ" پنجاب کے گورنر ڈگلس میکلیگن کی ملتان کی رہائش گاہ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کا منصوبہ خود خواجہ صاحب کے حکم پر بنایاگیاتھا اور وہ تینوں دہشت گردمرید پکڑے بھی گئے مگر خواجہ صاحب کا بال بھی بیکانہ ہوا"نہ خواجہ صاحب ایسا کرسکتے ہیں اور نہ انگریزایسی چشم پوشی کرسکتاتھا۔
18.خواجہ صاحب ایک نیک نفس،درددل رکھنے والے اور ملت کے ہمدرد تھے۔وہ صاف گو اور صاف دل شخصیت کے مالک تھے۔اُن کی مجلس میں بیٹھنے والے سرگودھاکے جاگیردار اورخطاب یافتہ زمیندار سرکارکے بے تنخواہ مخبر تھے۔ انگریز کو مزید مخبری کے لئے الگ سے CID ملازم بھجوانے کی کیا ضرورت تھی۔خواجہ صاحب کے پاس ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری شدہ لائسنس کے مطابق اسلحہ ہوتاتھا جو شکارکے لئے استعمال کیاجاتا۔اس سے زیادہ اسلحہ غیرقانونی شمارہوتا۔
19. خانقاہ سیال شریف اوردارلعلوم دیوبند میں " کلمہ مشترکہ" انگریز کی مخالفت نہیں تھی بلکہ دونوں کے درمیان تعلق کی وجہ علم کی محبت، مسلمانوں کی خدمت اور حنفیت کے ساتھ دلی لگاؤ تھا۔ 
20. CID یعنی انگریزوں کی خفیہ پولیس کی مبینہ رپورٹ جو ماہنامہ"ضیائے حرم" کے"شمس العارفین" نمبر میں شائع ہوئی تھی اس کی تائید دیگر تاریخی شواہد اور زمینی
حقائق سے نہیں ہوتی۔راقم نے " تجزیہ رپورٹ" کے عنوان سے تذکاربگویہ جلد سوم صفحہ660-1میں لکھا ہے۔
تجریہ رپورٹ:درج بالا رپورٹ پر نہ تو کوئی تاریخ یا حوالہ درج ہے اور نہ یہ پتاچلتاہے کہ یہ رپورٹ کس نے لکھی اور کس ذریعے سے کہاں پہنچی۔اس رپورٹ کو کس سطح کے آفیسر نے دیکھااور کیا حکم صادر کیا۔اس رپوٹ کے بعض مندرجات سراسرجھوٹ اوراتہام پر مبنی ہیں مثلاً حکومت کے خلاف نفرت پھیلانا،رضاکار فورس کے علاقائی آرگنائزر،ملتان میں انگریز گورنر پنجاب کی رہائش کے بنگلہ کو تباہ کرنے کی سازش وغیرہ۔بعض امور میں مبالغے کی آمیزش ہے۔بعض باتیں بالکل درست بھی ہیں مثلاً پیروکاروں کے نام،تحریک خلافت میں ذاتی دلچسپی وغیرہ۔
واقعہ یہ ہے کہ پولیس کی خفیہ رپورٹس خصوصاً ایک اہم شخصیت کے بارے میں عام طورپر ایک اکیلی نہیں ہوتیں۔یہ بار باراور مختلف ذرائع سے بھیجی جاتی ہیں۔جب الزامات
بہت سنگین نوعیت کے ہوں تو پولیس کے ساتھ سپیشل برانچ اور فوج کی خفیہ ایجنسیاں بھی پیچھے لگ جاتی ہیں۔درج بالا رپورٹ توخواجہ صاحبؒ پربغاوت اور قتل کی سازش کالزام عائد کرتی ہے جس کا تصور بھی انگریز حکومت برداشت نہیں کرسکتی تھی۔رپورٹ کا یہ کہنا" قابل سماعت اور بلاضمانت جرائم" کے تحت وارنٹ جاری کئے گئے تھے مگر حکومت پنجاب نے کینسل کر دئیے تھے۔ظاہر ہوتا ہے کہ خلافتی سرگرمیوں پر انگریز کا قانون شاید حرکت میں آیا تھا مگر حضرت کے سرکاردربار کے مقتدر مریدوں نے اسے بے اثر بنادیاتھا۔
رپورٹ اگر جزواً بھی درست ہو تویہ ضرور ظاہرکرتی ہے کہ حضرت خواجہ ضیاء الدین سیالویؒ نے تحریک خلافت اور کانگریس کی تحریک ترک موالات میں نہ صرف حصہ لیا تھا بلکہ مقامی جاگیرداروں اور گدی نشینوں کے اثرورسوخ کے باوجود اپنے حلقہ اثر کی پوری رہنمائی کی تاکہ وہ ہند کی آزادی اور مسلمانوں کے مرکز خلافت کی بحالی کے لئے کام کریں۔ اس قومی مقصد کے لئے خواجہ صاحب محترم نے سرگودھا کی مجلس خلافت کی سرپرستی کی۔مالی اور اخلاقی طور پر تحریک کی مدد کی۔اپنے رفقاء کے ساتھ ضلع شاہ پور کے مختلف مقامات کے دورے بھی کئے۔
مولانا ظہوراحمد بگویؒ مجلس خلافت کے معاملات اور مشکلات میں ہمیشہ خواجہ صاحب سے رہنمائی اورمددلیتے تھے۔ 
(تفصیلات کے لیے دیکھئے تذکاربگویہ جلد اول صفحات449 تا465)۔
جیسا کہ پہلے ذکرہوا،برصغیرکے مشائخ زیادہ تر تصوف کے مشاغل اور عوام کے ساتھ رابطے میں مشغول ہوتے تھے۔ دینی علوم کے فاضل اور غیر ملکی حالات سے باخبر اورمسلم ممالک کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے خال خال تھے۔خواجہ صاحب سیالویؒ کی زندگی انہی جذبوں سے عبارت تھی۔آپ دینی علوم کے فاضل ہونے کے علاوہ تردید عیسائیت کا شوق رکھتے تھے تزکیہ نفوس اور اصلاح عوام تو اُن کامنصبی فریضہ تھا۔سیال شریف میں دارالعلوم شمس الاسلام کا آغاز آپ کے دورمیں ہوا جسے تجویز مولانا محمد ذاکر بگویؒ نے کیاتھا۔آپ نے خانقاہ میں خاندانی لائبریری کووسعت دی اور اہم کتابوں کا اضافہ کیا۔لیکن یہ تاثر دینا کہ خواجہ صاحب ہروقت اور ہر جگہ انگریز کے خلاف محاذ آرائی پر کمربستہ رہتے تھے صریحاً غلط ہے۔نجی محافل میں ازراہ مزاح کوئی بات یاتذکرہ خانقاہ کا ضابطہ اصول نہیں تھا۔ آپ کے مریدوں میں شاہ پور کے نون،ٹوانے، قریشی،سردار اور دیگر جاگیردار اورزمیندارلوگ تھے جو سرکار انگلشیہ سے مراعات،خطابات اور انعامات یافتہ تھے۔وہ تو خوابوں میں بھی انگریزوں کے تسبیح خواں ہوتے تھے ۔وہ انگریزوں کے جوتے سیدھے کرتے بلکہ اُن کے گھوڑوں اور کتوں کی خدمت بجالانے کے لئے بھی ہروقت تیاررہتے تھے۔انگریز کی چاکری میں وہ ہر قدم اٹھا سکتے تھے۔چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کا پیرخانہ ملکہ وکٹوریہ،بادشاہ جارج اور دیگر انگریزوں سے نفرت کرتا اوربرابھلاکہتاہواور وہ نمک خوار ٹھنڈے پیٹوں اپنے آقاؤں کی تذلیل برداشت کرتے یا انگریز کی نوکری کو داؤں پر لگاتے۔سومعاملہ بس اسی قدر ہے:
پیراں نمی پرند مریداں می پرانند
عقیدت اور حقیقت میں حدفاصل رکھنا علم اور اخلاق کا تقاضہ ہے جس کے لئے محقق کا مریدنہ ہونااورغیرجانبداراورصداقت شعار ہوناضروری ہے۔***