اونٹ کادودھ اور پیشاب

مصنف : مولنا محمدحسن

سلسلہ : فہم حدیث

شمارہ : 2017 جنوری

فہم حدیث
اونٹ کا دودھ اور پیشاب
مولانامحمد حسن

دنیائے عرب میں رہتے ہوئے میرے علم میں یہ بات آئی کہ بعض عربوں کے ہاں اونٹ کے دودھ میں اس کا پیشاب ملا کر پینے کا رواج ہے ۔یہ بات میرے لیے انتہائی حیران کن تھی۔ جب بہت سے عربوں سے اس کی تحقیق کی گئی تو یہ بات سچ ثابت ہوئی ۔ اگرچہ ہر جگہ اور تمام عربوں میں اس کا رواج نہیں تا ہم بعض دیہاتی قبائل میں اس کا چلن آج تک قائم ہے ۔ اور ان کے ہاںیہ صدیوں سے چلا آر ہا ہے ۔ یہ نہ صرف اس علاقے میں بلکہ شام ومصر کے بعض علاقوں میں بھی موجود ہے ۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس عمل کا ماخذ ایک حدیث رسول ہے ۔چنانچہ مولانا محمد حسن اس حدیث کی وضاحت کرتے ہیں جس کے مدعا کو زبان کے بعض اسالیب کے نہ سمجھنے کی بنا پر غلط سمجھ لیا گیا ہے ۔(مدیر ) 

حدیث کی کئی کتابوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے کہ قبیلہ بنی عکل کے بعض لوگ اسلام قبول کر کے مدینہ ہی میں رہائش پذیر ہوگئے۔چند دنوں بعد انھیں مدینے کی آب و ہوا راس نہ آئی جس کی وجہ سے انھیں جلد کی ایک بیماری لاحق ہوگئی۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی اس بیماری کا حال بتایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دودھ مہیا کرنے کا مطالبہ کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ وہ یہ دودھ مدینے شہر میں نہیں دے سکتے البتہ اگر انھیں دودھ درکار ہی ہے تو یہ لوگ مدینہ کے نواحی علاقہ میں چلے جائیں جہاں صدقے کی اونٹھیاں موجود ہیں ان کا دودھ لے کر پیا جا سکتا ہے۔اس بات کو حدیث کی مختلف کتابوں میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
’’وامرھم ان یشربوا من البانھا وابوالھا‘‘ترجمہ:ان لوگوں کو کہا گیا کہ وہاں جا کر ان اونٹنیوں کا دودھ پی لیں اور پیشاب بھی۔
اونٹنیوں کا دودھ پی لیں یہ بات تو واضح ہے۔لیکن ساتھ پیشاب کا ذکر کیوں کیا گیا۔اس بات کو سمجھنے میں بہت سے اہل علم کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ( نعوذ باللہ ) آپ نے انھیں پیشاب پینے کی بھی ہدایت کی تھی۔درحالنکہ انسانی فطرت اس سے ابا کرتی ہے۔اس کی کراہت کی کوئی دلیل دینی کی بھی ضرورت نھیں۔اور اسی کراہت کی صراحت مختلف دوسری روایتوں میں بیان ہوئی ہے۔لھذا یہ تصور بھی نھیں کیا جاسکتا ہے کہ آپ اس طرح کی کوئی ہدایت کر سکتے ہیں۔
پھر آخر اصل بات کیا تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔اور جسے نہ سمجھنے کی بنا پراس قدر غلط نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ 
ہمارے نزدیک یہ بہت سادہ بات ہے۔ اور زبان کے عام قاعدہ کے مطابق ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جسے اردو میں ہم اکثر کہتے ہیں کھانا کھائیے اور پانی بھی ۔تو اس سے مراد ہوتی ہے کھانا کھائیے ،پانی بھی ہے ،اسے پی جیے۔
دو فعل جب کبھی زبان میں اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں تو ان میں سے ایک عام طور پر اس اعتماد سے حذف کر دیا جاتا ہے کہ مخاطب اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
عربی زبان میں اس طرح کی ترکیب کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت بطور مثال پیش ہے جس میں مخاطب کے ذہن پر اعتماد کرتے ہوئے بالکل اسی طریقے پر ایک فعل حذف کر دیا گیا ہے:ارشاد ہوا ہے:
وَالَّذِینَ تَبَو ءْ وا الدَّارَ وَالایمَانَ مِن قَبلھِِمترجمہ:"جو لوگ اِس دیار کو اِن سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان بھی"
یہاں دیکھیے ٹھکانہ بنانے کے بعد ایمان آیا ہے ،ایمان کو توٹھکانا نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔مضبوط بنانے کا فعل یہاں حذف ہو گیا ہے۔لہذا اس کا ترجمہ یوں ہوگا"جو لوگ اِس دیار کو اِن سے پہلے ٹھکانا بنائے ہوئے اور اپنا ایمان محکم کیے ہوئے ہیں۔"
اس طرح کی تراکیب کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:(یہ) اْسی طرح کی ترکیب ہے، جس طرح ’علفتہ تبنًا وماء(میں نے اْس کو چارہ کھلایا اور پانی پلایا) یا ’زججن الحواجب والعیونا‘، یا ’قلدنی سیفًا ورمحًا‘ وغیرہ مختلف ترکیبیں عربی میں معروف ہیں۔ اِس طرح کی ترکیبوں میں ایک فعل جو دوسرے مفعول سے مناسبت رکھنے والا ہو، محذوف ہوتا ہے جو قرینے سے سمجھ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ تینوں مثالوں میں ایک ایک فعل محذوف ہے۔ اِسی طرح اِس آیت میں بھی ایک فعل ’الاِیمَان‘ سے مناسبت رکھنے والا محذوف ہے۔ اگر یہاں ’احکموا‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی فعل محذوف مانیے تو پوری عبارت یوں ہو گی: ’تَبَوَّؤْ الدَّارَ وَاَحکَمْوا الاِیمَانَ‘، یعنی جنھوں نے پہلے سے گھر ٹھکانا بھی بنا رکھا ہے اور اپنے ایمان کو بھی مضبوط کر رکھا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۸/ ۲۹۴)
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو کہنا چاہتے تھے کہ دودھ پیو اور پیشاب بھی یعنی پیشاب زخموں پر لگا لو۔عرب جاھلی کی تاریخ میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ اس قبائلی تمدن میں اونٹ کے پیشاب کو زخموں پر بطور علاج لگایا جاتا تھا۔۔رسول اللہ نے بھی اسی قبائلی طب کے رائج طریقہ کی جانب انھیں توجہ دلائی تھی۔
یہی اصل بات تھی جو اس روایت کے مخاطبین کو سمجھنے میں بھی کوئی مشکل پیش نھیں آئی۔کیونکہ جس چیز کو پینے کا مطالبہ بنی عکل کے لوگوں نے کیا ہے وہ دودھ تھا۔ اسی کے جواب میں انھیں دودھ پینے کا کہا گیا ہے۔لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی کہ فلاں جگہ جا کر دودھ پی لو تو بنی عکل نے اس بات کو بالکل صحیح سمجھا اور جو عمل کیا، روایات میں اس کی تصریح بھی آگئی ہے کہ "فشربوا من البانھا"یعنی انھوں نے جو چیز پی وہ صرف دودھ ہی تھا۔
***