کینیڈا مریخ پر نہیں!

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : مئی 2012

            کینیڈا رقبے کے اعتبار سے اگرچہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے مگر آبادی ساڑھے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ستتر فیصد آبادی خود کو عیسائی کہتی ہے۔ان میں چوالیس فیصد کیتھولک اور بائیس فیصد پروٹسٹنٹ ہیں۔سترہ فیصد آبادی اپنا عقیدہ ظاہر نہیں کرتی۔ دو فیصد خود کو مسلمان اور ایک فیصد یہودی کہتے ہیں۔ہندو، سکھ، بودھ اور شنتو مذہب کے ماننے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔

            پھر بھی وہاں نہ تو کوئی مذہبی سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی ریاست کا کوئی سرکاری مذہب۔ سکولوں میں مسلمان بچوں کو اجازت ہے کہ وہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ بچیوں کا حجاب کوئی مسئلہ نہیں اور سپر مارکیٹوں میں حلال فوڈ کے علیحدہ شیلف ہیں۔کینیڈا کی اکثریت سفید فام یورپی نژاد ہے۔ چار فیصد لوگ جنوبی ایشیا سے ہیں۔ اتنے ہی چینی ہیں۔ ڈھائی فیصد سیاہ فام اور ایک فیصد کینیڈا کے اصلی اور قدیم باشندے ہیں لیکن کینیڈا میں کوئی نسلی جماعت بھی نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ قدیم باشندے بھی یہ نعرہ نہیں لگاتے کہ فلاں سنہ کے بعد کینیڈا آنے والے غیر ملکیوں کو باہر نکالو۔ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی یا فرانسیسی بولتی یا سمجھتی ہے لہذٰا یہی دو زبانیں سرکاری و عدالتی ہیں جبکہ چینی، اطالوی، جرمن، ہسپانوی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ کینیڈا کے قدیم فرزندانِ زمین کی گیارہ بولیوں کو بھی غیر سرکاری درجہ حاصل ہے۔ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ ابتدائی تعلیم کے دوران اپنی مادری زبان کا مضمون لے۔ اس قدر لسانی ہما ہمی میں لسانی جھگڑے ہو سکتے ہیں، مگر نہیں ہوتے۔پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی، لبرل پارٹی اور گرین پارٹی کا کوئی لسانی، قوم پرست، مذہبی یا ثقافتی ایجنڈا نہیں۔ صرف بلاک کیوبیکا ایسی پارلیمانی جماعت ہے جو کینیڈا کے فرانسیسی شہریوں کی علیحدہ لسانی، قوم پرست اور ثقافتی شناخت پر زور دیتی ہے اور فرانسیسی اکثریتی صوبے کوبیک کو علیحدہ ملک بنانا چاہتی ہے۔

            اس بارے میں کینیڈا میں دو ریفرنڈم ہو چکے ہیں اور دونوں میں بلاک کوبیکا معمولی اکثریت سے ہار چکا ہے لیکن اس نے نہ تو کبھی اپنی ہار کو رد کیا، نہ ہی مسلح جدوجہد کی بات کی اور نہ ہی وفاقی ڈھانچے کو کسی عدالتی یا بین الاقوامی فورم پر چیلنج کرنے کی دھمکی دی۔کینیڈا میں ہر سال ڈھائی لاکھ سے زائد تارکینِ وطن شہریت حاصل کرتے ہیں۔ ہر پانچواں کینیڈین ملک سے باہر پیدا ہوا ہے۔ ساٹھ فیصد تارکینِ وطن ایشیائی ممالک سے آتے ہیں۔ ان میں پاکستان جیسے ممالک کی فوجی و سویلین اشرافیہ کے املاکی رشتے دار بھی شامل ہیں۔ تارکینِ وطن جس شرح سے کینیڈا آ رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اب سے بیس برس بعد ہر تیسرا کینیڈین ایشیائی ہوگا۔ اس کے باوجود وہاں پہلے سے آباد باشندوں نے اب تک نعرہ نہیں لگایا کہ ایشیائی نا کھپن، سیاہ فاموں کا کوٹہ محدود کرو، کینیڈا کینڈینز کے لیے، چینیوں کے حامی سب حرامی۔حالانکہ جس ملک میں سفید فام اکثریت میں ہوں اور غالب مذہب بھی عیسائیت ہو۔ایسے ملک کو قطعاً حاجت نہیں کہ وہ ہر چھوٹے سے چھوٹے نسلی، لسانی و مذہبی گروہ کی حساسیت کو خاطر میں لاتا پھرے۔ مگر کینیڈا کی پارلیمنٹ نے انیس سو اکہتر میں کثیر الثقافتی پالیسی کو اپنے ڈھانچے کا ایک لازمی جزو قرار دے دیا۔اس پالیسی کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ایک ہی قسم کے لسانی، مذہبی، سیاسی و ثقافتی پودوں کی آبیاری سے جنگل تو کھڑا ہو سکتا ہے لیکن اس جنگل کو باغ بنانا ہو تو پھر طرح طرح کے پودوں کو پھلنے پھولنے کا مساوی موقع دینا پڑے گا۔اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کینیڈا میں رواداری و وسیع المشربی نے رفتہ رفتہ عمومی جڑ پکڑ لی۔ نائن الیون کے بعد تقریباً ہر مغربی یا غیر مسلم ملک میں مسلمان اقلیت اور اس کا عقیدہ مشکوک ہوگیا لیکن نائن الیون کے پانچ برس بعد فوکس کینیڈا نے ایک سروے کیا جس کے مطابق تراسی فیصد غیر مسلم کینڈین سمجھتے ہیں کہ ان کے مسلمان ہمسائے کینیڈا کے سماجی، معاشی اور ثقافتی ڈھانچے کا مثبت حصہ ہیں۔شاید انہی اقدار کی حوصلہ افزائی کے سبب انسانی ترقی کے معیار کے عالمی انڈیکس میں کینیڈا اس وقت چھٹے نمبر پر ہے۔

            کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کینیڈا اسی کرہِ ارض پر ہے اور اس کے باشندوں کی مریخ والوں سے بھی اب تک کوئی رشتے داری ثابت نہیں ہوسکی۔

(بشکریہ ، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ۱۸ مارچ ۲۰۱۲)