آپ کی گلی کیا کرتی ہے

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2012

            آپ کی گلی کیا کرتی ہے ؟اگر یہ سوال مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ کہنے کو توبیچاری کچھ نہیں کرتی مگر نہ کرتے ہوئے بھی بہت کچھ کرتی ہے۔آئیے آپ کو اس سے ملوائیں تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ کیا کیا ہے جو نہیں کرتی ۔

            دن ہو یا رات ، صبح ہو یا شام میری گلی کبھی فارغ نہیں رہتی، کچھ نہ کچھ ضرور کرتی رہتی ہے ۔

             علی الصبح کا منظر ملاحظہ فرمائیں۔ علی الصبح موصوفہ خاکروب کو بلا تی ہے اور جانے اِن دونوں میں کیا طے پاچکا ہے کہ جنا ب خاکروب کبھی بھی اِس کے جسم سے مٹی اتارتے وقت تھوڑے سے پانی کا چھڑکاؤ کرنابھی گوارا نہیں کرتے ۔ مجھے یقین ہے کہ اِس میں میری گلی کی رضا اور خوشی شامل ہے کیونکہ جب میں اپنی گلی سے پوچھتا ہوں کہ اگر تمہارے جسم پر کچھ پانی وانی ڈال کر خاکروب صاحب صفائی کردیں تو تمہارا کیاجاتا ہے جبکہ ہم لوگ مٹی سے بچ جاتے ہیں۔ جانتے ہیں وہ کیا کہتی ہے؟کہتی ہے کہ‘کبھی تم نے اپنا منہ جھاڑو سے صاف کروایا ہے؟ اور وہ بھی جب تمہارے منہ کو گیلا کر دیا گیا ہو؟’’اور میں اپنا سا جھاڑو نہیں بلکہ منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔

            کچھ دیر بعد ہی ہمارے، آپ کے ،سب کے بچے سکولوں کالجوں کے لیے جاتے ہیں تو اس وقت میری گلی چھوٹے بچوں کی جیب بن جاتی ہے۔ میرے بچے کھائیں ٹافی یا کوئی سونف سپاری، میں اُن کوکبھی اجازت نہیں دیتا ہوں کہ گھر میں کسی بھی جگہ اُن کے کاغذ پڑے نظر آئیں تو بچے سکول جاتے جاتے گلی کی جیب میں یہ سب ڈال جاتے ہیں اور ڈالیں بھی کیوں نہ؟ جب اُن کے ابا حضور صبح ہی گاڑی باہر نکالتے ہیں تو اُن کی گاڑی میں پڑے استعمال شدہ ٹشو پیپر، کھانے پینے کے کے ڈبے، پانی کی خالی بوتلیں بھی تو میری گلی ہی سنبھالتی ہے۔

            تھوڑی دیر بعد آپ سبزی والے ریڑھی والے اور تانگے والے کو میری گلی کے فراخ سینے پر کھڑا دیکھ سکتے ہیں اور نہ صرف یہ ، بلکہ گدھے کو بڑے اعتماد کے ساتھ بول و براز میں مصروف بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ کوئی میرے سینے پر ایسے کسی کام کا خیال بھی کرے تو میں اُس کو ساری زندگی معاف نہ کروں پر جانے یہ گلی موصوفہ کا ظرف کتنا کشادہ ہے کہ ان کو کبھی بھی اِس عمل سے تکلیف نہیں پہنچی ۔

            اور اب وقت آتا ہے ہمارے گھر کی صفائی ستھرائی کا۔گلی کا ہر گھر یا کم از کم ہر گھر کی گاڑی روز نہاتی ہے اور مجھے فخر ہے اپنی گلی پر کہ میری گلی یہ سارا پانی بھی سمیٹ لیتی ہے اور کبھی شکایت نہیں کرتی کرے بھی تو کس سے کہ اس کا کون ہے ؟ البتہ یہ سب کی ہے۔

            اب بچے سکولوں سے واپس آ چکے ہیں ۔چھوٹے تو یونیفارم بدلے بنا گلی کی آغوش میں کبھی دائیں کبھی بائیں مٹی اور ریت کے اُن ذخیروں سے، جو میری گلی کے انمول خزانے ہیں، اپنی جیبوں بھرتے اور ایک دوسرے کے سروں پہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اب بھلا میری گلی اِن بچوں سے اپنا حصہ کیوں نہ لے ؟اور جو بچے ذرا بڑے ہیں وہ اپنے گیند بلے کے ساتھ گلی کے جسم میں کبھی کہیں تو کبھی کہیں وکٹ لگانے کے لیے سوراخ کرتے یا سفید چونے کے ساتھ وائیڈ بال اور باؤنڈری کے نشان لگانے کے ساتھ ساتھ مختلف گھروں کے چہروں کو بھی اپنی گیند کے نقش و نگار سے خوبصورت بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

            لو بھئی ہو گئی شام۔ سب اپنے اپنے کام کاج سے واپس لوٹتے ہیں۔ میری گلی کبھی برا نہیں مانتی چاہے آپ اِ س میں جہاں کہیں بھی اپنی گاڑی ، موٹر سائیکل یا سائیکل کھڑی کر دیں۔لیکن میری اس شفیق گلی کو مشکل کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے جب میں عین درمیان میں بڑے ٹھاٹھ سے اپنی گاڑی کھڑی کر کے جاتا ہوں اور وہ مجھے انکار نہیں کرتی پرجب ہمسائے تشریف لاتے ہیں انکار وہ ان کو بھی نہیں کر سکتی مگر کیا کرے ، اس کا سینہ اتنا کشادہ نہیں ہے کہ دو گاڑیا ں ایک ہی وقت میں عین درمیان میں کھڑی ہو کر اپنے ٹھاٹھ دکھا سکیں اورپھرہمسائے محترم، ہمیں نہیں ’گلی کو کوستے ہیں اور یہ پھر بھی چپ رہتی ہے ۔

            اب وقت آتا ہے چوپال لگنے کا۔ ہم سب اپنی اپنی کرسیاں نکال کر گلی پر براجمان ہوجاتے ہیں ۔ اور گلی شرم سے ہمیں آج تک نہیں بتاسکی کہ خواتین کا راستہ بھی یہی ہوتا ہے۔

             رات ہوتی ہے تو میری گلی کبھی روشن نہیں ہو پاتی کیونکہ روشنی میں اس کے رات کے دوست نہیں آتے ۔اور یہ ہیں چند بلیاں اور ڈھیر سارے کتے شامل جو خوب شور و غوغا کرتے ہیں اوراتنی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ سونا دوبھر ہوجاتا ہے ۔کبھی کبھار اپنے مالک سے ناراض کوئی گدھا بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ اب میں گلی سے کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں کرپاتا کیونکہ میں خاکروب والے سوال کا جواب ابھی تک ہضم نہیں کر پایا.

            اور جب ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب آتی ہے تویہی گلی سٹیڈیم بن جاتی ہے ۔

            اوربڑا مشکل وقت وہ ہوتا ہے جب میری گلی کے کسی گھر میں کوئی اِس جہان سے کوچ کر جاتا ہے یا پھر کوئی میلاد مناتا ہے ،یا پھر کسی کی بارات آ جاتی ہے اور یا کوئی بھولے سے ولیمے کر ڈالتاہے تو ایسے میں کوئی بھی صاحب گلی کے سارے حجم پر اپنی دریاں بچھا کر یا کرسیاں لگا کر قابض ہوجاتے ہیں اور گلی ہم سے شرمندہ شرمندہ نظر آتی ہے مگر آفرین ہے اس گلی پر کہ یہ باقی سب لوگوں کی ناگواری کو تو برداشت کرلیتی ہے مگر جن کے گھر کوئی خوشی یا غمی ہوتی ہے اُن کو ناراض نہیں کرتی۔ آخر ہماری اس گلی نے ہی تو ہماری خوشی ، غمی میں سب سے زیادہ شامل ہونا ہوتا ہے۔

            اچھا جناب تو اب آپ بتائیے کہ آپ کی گلی کیا کرتی ہے ؟