کیا اسلام کا سیاسی غلبہ فرض ہے

مصنف : ڈاکٹر عرفان شہزاد

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : 2017 جنوری

فکر و نظر
کیااسلام کے سیاسی غلبہ کاحصول فرض ہے ؟
ڈاکٹر عرفان شہزاد

شریعت اسلام کے جتنے بھی احکامات ہیں ان کے لاگو ہونے کا ایک اصول ہے۔ وہ یہ کہ اپنی شرائط کے ظہور کے بعد لاگو ہوتے ہیں۔ مثلا نماز کے فرض ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی بالغ ہوجائے، اسلام پر ایمان ہو، عقل درست ہو، ہوش میں ہو، نماز کا وقت ہوجائے، وغیرہ، اسی طرح، زکوۃ کے فرض ہونے کی شرط یہ ہے کہ دیگر شرائط کے ساتھ آدمی کے پاس فاضل دولت آ جائے ،جس کا ایک خاص نصاب یا حد بھی مقرر کردی گئی۔ اگر اس کا مال اس حد کو پہنچے اور اس کی ملکیت پر ایک سال بھی گزر جائے تو اس کو زکوۃ ادا کرنا فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح حج اور دیگر مالی واجبات بھی تب فرض ہوتے ہیں جب مال ایک خاص حد سے زیادہ جمع ہوجائے۔ یہی اصول شریعت کے تمام احکامات کے لیے ہیں۔
اس کے ساتھ دوسرا اصول یہ ہے کہ جب تک شرائط خود سے ظاہر نہ ہوں، کوئی حکم لاگو نہیں ہوتا، یعنی یہ فرض نہیں کہ مثلاً ،اگرکوئی بالغ نہیں ہے تووہ جلد بالغ ہونے کی کوشش کرے تاکہ شرعی احکامات پر عمل کرسکے، یا کسی کے پاس مال نہیں ہے تواس پر یہ فرض نہیں کہ مال اکٹھا کر ے تاکہ زکوۃ اور دیگر مالی احکامات پر عمل کر سکے۔ حالات جب تک خود پیدا نہ جائیں تب تک احکامات لاگو نہیں ہوتے۔ شریعت کے اس قاعدے پر کسی کا اختلاف نہیں۔
اب یہی اصول ، شریعت کے اجتماعی احکامات پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شریعت کے نفاذ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یعنی اگر مسلمان سیاسی اور سماجی حالات کے تحت کسی علاقے یا ملک میں برسرِاقتدار آ گئے ہیں تو ان پر شریعت کی رو سے خود بخود فرض ہو جاتا ہے کہ اسلام کے اجتماعی احکامات پر عمل درآمد کریں۔لیکن اگر حکومت ان کے اختیار میں نہیں، تو ان پر یہ ہرگز فرض نہیں کہ اسلامی اجتماعی احکامات پر عمل درآمد کے لیے حکومت حاصل کرنے کی جدوجہد کریں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ نابالغ پر بالغ ہونا فرض قرار دے دیا جائے یا غریب پر مال کمانافرض قرار دے دیا جائے تاکہ نماز ، زکوۃوغیرہ کے احکامات پرعمل کر سکیں۔
حکومت اور سلطنت حاصل کرنا ایک عقلی، فطری اور سیاسی معاملہ ہے، اس کا فیصلہ حالات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اب اگرمسلمان کسی علاقے میں سو فیصد آباد ی رکھتے ہیں تو لامحالہ حکومت ان کی ہی ہوگی، نتیجتًا شریعت کے اجتماعی احکامات پر عمل درآمد ان پر فرض ہوجائے گا۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جس طرح جان بوجھ کر نماز چھوڑنا ایک کافرانہ فعل قرار دیا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ایک کافرانہ روش ہوگی۔ تاہم، عام مسلمان حکومتوں کے غیر شرعی احکامات پر عمل نہ کرنے کے پابند ہیں، لیکن ایسے حکمرانوں کو حکومت سے ہٹانے کے لیے ان سے لڑنے کے مکلف نہیں بنائے گئے ہیں۔ البتہ ان کو معزول کرنے کے لیے پرامن طریقہ کار اگر کوئی ہوتو اختیار کرسکتے ہیں۔لیکن اگر مسلمان ایک مخلوط معاشرے (یعنی جہاں مسلم اور غیرمسلم اکھٹا رہتے ہوں) میں رہتے ہیں تو چاہے وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں،دونوں صورتوں میں حکومت میں ان کی شمولیت سراسر سیاسی اور سماجی حرکیات کے ماتحت ہونی چاہیے تاہم ہر صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ اپنی کمیونٹی کے اجتماعی معاملات کو شریعت کے اجتماعی احکامات کی روشنی میں طے کریں، اگر وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے تو گناہگارہوں گے۔اور اگر اس سلسلے میں انہیں غیرمسلم آئین یا قوانین کی پابندی کا سامنا ہے تو اس کے لیے ان پر لازم ہے کہ حکومت کو اپنا موقف بیان کریں اور اس کے لیے پرامن جدو جہد کریں۔ حدیثِ مبارکہ کے مطابق،جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہناافضل جہاد ہے، یہی ان کا افضل جہاد ہوگا۔ اب اگر ان کی با ت نہیں مانی جاتی اور ان کو شریعت پر عمل درآمد کرنے نہیں دیا جا تا تو ان پر لازم ہے کہ اس علاقے کو چھوڑ کرکسی دوسری جگہ چلے جائیں، جہاں وہ شریعت پر عمل کرسکیں۔ اور اگر وہ اس ہجرت پر بھی قادر نہ ہوں تو صبر سے کام لیں ، اس پر بھی وہ اللہ کے نزدیک اجر پائیں گے، گناہگار نہیں ہوں گے۔
یہ جو کچھ عرض کیا گیا ہے، قرآن مجیدکی واضح نصوص سے ثابت ہے اور اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ ہے کہ شریعت کے انفرادی احکامات کا جو اصول ابتدا میں بیان کیا گیا ، اسے شریعت کے اجتماعی احکامات میں نہ برتنے کی کیادلیل ہے؟ یعنی شریعت کے اجتماعی احکامات پر عمل کرنے کے لیے، اس کی شرط کے ظہوریعنی حکومت کے حصول کو فرض قرار دینے کی دلیل کیاہے؟ اس پر کون سی نص (قرآن و سنت) دلالت کرتی ہے؟ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ انفرادی احکامات پر عمل کرنے کی شرائط کا برپا کرنا فرض نہیں ، جیسے نابالغ پر بالغ ہونا اور غریب پر مال کمانا کہ وہ ان شرائط کی وجہ سے لاگو ہونے والے احکامات پر عمل کرسکے، اگر یہ فرض نہیں تو شریعت کے اجتماعی احکامات کی شرط، یعنی حکومت برپا کرنا فرض کیسے ہوگیا؟ جب کہ اس پر قرآن کی کوئی نص ہمارے علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ مسلم یا غیرمسلم کی حکومت کے جبر کی صورت میں اگر شریعت پر عمل کرنے کی کوئی صورت نہ رہ جائے تونصوص کے مطابق ہجرت فرض ہے، لیکن یہ کیسے فرض ہوا کہ ہجرت کے بجائے لڑ بھڑ کر حکومت حاصل کی جائے؟
تیسری بات یہ کہ اگر کوئی غیرمسلم حکومت اپنے مسلم شہریوں کوشریعت پر عمل کرنے کی اجازت اور سہولیات بھی دے رہی ہو، اس کے باوجود بھی اس حکومت سے ایک مسلم حکومت قائم کرنے کے لیے لڑنا کیسے جائز یا واجب ہوسکتا ہے اور اس کی کیا دلیل ہے؟
چوتھی بات یہ کہ اگر کوئی مسلم حکومت جو مکمل طور پر اسلامی نہ ہونے کے باوجود اپنے مسلم شہریوں کو شریعت کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی آزادی اور سہولیات دے رہی ہو، اس کے خلاف لڑنے کی دلیل کیا ہے ؟ 
پاکستان جیسی ریاست جو ایک مخلوط معاشرے پر مشتمل ہے، جہاں اسلامی معیشت کے ساتھ سودی بینکاری اور اسلامی عدالتی قوانین کے ساتھ غیر اسلامی عدالتی قوانین بھی رائج ہیں اور کسی پر پابندی نہیں کہ وہ کس قانون کے تحت اپنے معاملات کے فیصلے کرواتا ہے، ایسی حکومت کے خلاف لڑنے کا جواز کیا ہے؟ اب جو مسلمان اپنی مرضی سے اسلامی قوانین کو چھوڑ کر غیر اسلامی قوانین کے مطابق عمل کرتا ہے تو گناہگار وہ خود ہے اور اس کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے اجتماعی احکامات پر عمل کرے۔ اس کے ساتھ یقیناً حکومت کو بھی یہ بات باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ مسلمان شہریوں کو اس کا پابند کرے کہ شریعت کے مطابق اپنے اجتماعی احکامات طے کریں، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو کسی طرح بھی کافر قرار نہیں پاتی، جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیت، وَمَن لَّم یَحکْم بِمَا اَنزَلَ اللّہْ فَْاولئکََِٰ ہْمْ الکافِرْونَ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں ، سے سمجھا گیا ہے، اور نہ اس سے اس بنا پر لڑنا جائز ہو جاتا ہے۔
پانچویں بات یہ کہ اگر کوئی مسلم یا غیر مسلم حکومت مسلم کمیونٹی کے پرامن رہتے ہوئے بھی ظلم اور جبر کے ذریعے ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننے کے درپے ہو، تو اس صورت میں شریعت مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتی ہے۔
اگر یہ دلیل دی جائے کہ رسول اللہﷺ ہمارے لیے نمونہ عمل ہیں۔ اور چونکہ آپ بھی اپنے دشمنوں پر جہاد کے ذریعے غالب آئے اس لیے ہمارے لیے بھی یہی کرنا فرض ہے تو عرض ہے کہ انبیا کے جو قصص قران میں بیان ہوئے ان کا مقصد ہمیں یہ اسوہ حسنہ مہیا کرنا ہے کہ مختلف حالات میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے، اس کا تعلق تشریع سے زیادہ تذکیر سے ہے۔ تاہم جہاں جہاں خدا کسی چیز کو مستقل شریعت بنا دینا چاہتا تھا وہاں اس نے اسے حکم کی صورت میں بیان کیا۔ چنانچہ وہ شریعت بن گیا۔ محض حالات پر عمل کرنا فرض نہیں ہوتا۔ اسی طرح رسول اللہ کی مبارک زندگی کے جو واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان کا ایک حصہ صرف تذکیری ہے تشریعی نہیں۔ البتہ اس میں جن باتوں کو خدا نے تشریع کا درجہ دینا تھا اسے حکم کی صورت میں بیان کیا ہے۔ تو جس چیز کا حکم نہیں دیا گیا اسے تذکیر کی بجائے تشریع سمجھ لینا غلط فہمی ہے۔ رسول اللہ نے جس طرح حالات کے تحت ہجرت فرمائی، اسی طرح حالات کے تحت ہی جہاد فرمایا، شریعت نافذ کی وغیرہ۔ ہم پر بھی اسی طرح اپنے اپنے حالات کے مطابق اسوہ رسول پر عمل فرض ہے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کے احکامات انفرادی نوعیت کے ہوں یا اجتماعی ، اپنی شرائط کے ظہور کے بعد فرض ہوتے ہیں، تاہم ان شرائط کو برپا کرنا ہرگز فرض نہیں، اسی اصول کی روشنی میں یہ کہنا درست ہو گا کہ شریعت کے اجتماعی احکامات پر عمل مسلمان حکومت اور مسلمان کمیونٹی پر فرض ہے، لیکن اس کے لیے ،حکومت کا حصول فرض نہیں کہ جس کی
خاطر ہتھیار اٹھائے جائیں اور جانیں دی یا لی جائیں۔ حکومت کے بغیر بھی ان احکامات پر عمل ممکن ہے، جیسا کہ دنیا کے بہت سے غیر مسلم اور مخلوط ممالک میں عملاً ہو رہا ہے۔***