مسلم ممالک میں دین کا کام اور جماعتیں

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : اپریل 2012

            کیا دین کاکام کرنے ’خود کو اچھا مسلمان بنانے یا آخرت کی کامیابی کے لیے کسی جماعت میں شامل ہونا یا جماعت بنانا ضروری ہے ۔ اس سوال کا جواب عموماً یہی دیا جاتا ہے کہ صرف ضروری نہیں بلکہ از حد ضروری ہے کیونکہ اکیلی بھیڑ کو بھیڑیا کھا جاتا ہے جبکہ ریوڑ میں بھیڑ محفوظ رہتی ہے یہی حال انسان کا ہے ۔ انسان کابھیڑیا شیطان ہے اور اکیلے انسان پر شیطان زیادہ حملہ آور ہوتا ہے جبکہ جماعت میں شیطانی حملے کے امکانا ت کم ہوتے ہیں اور اگر حملہ ہو بھی تو جماعتی بھائی بالآخر شیطان کو بھگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اور اس ضمن میں ان احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جن میں جماعت سے جڑ کر رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ بظاہر یہ کافی مضبوط دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی دو صدیوں سے عالمِ اسلام میں یہی روش چلی آ رہی ہے کہ جو بھی دین کا کام کرنا یا دین سے گہری وابستگی رکھناچاہتا ہے وہ یا تو پہلے سے موجود کسی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور یاخود ایک جماعت بناتا ہے اور پھر لوگوں کو ا س میں اکٹھاکرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن عملاً صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے ۔اگرچہ دو تین صدیاں بیت چکیں اور بہت سی جماعتیں اور گروہ وجود میں آ چکے مگر آج بھی مسلمانوں کے معاشروں میں عمومی طور پر صورتِ حال جوں کی توں ہے بلکہ جماعتوں کی وجہ سے انسانوں پر اللہ کا رنگ کم اور جماعتوں اور گروہوں کا رنگ زیادہ نظر آنے لگا ہے۔ اسی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ دین سے وابستگی یا دین کا کام کرنے کے لیے کسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کام کرنا خود انسان کی دینی یا اُخروی ترقی کے لیے خطرناک ہے کیونکہ آہستہ آہستہ اس سچے اور مخلص انسان پر جماعتی وابستگی اور عصبیت غالب آنا شروع ہوجاتی ہے اور دین بہت پیچھے رہ جاتاہے ۔اور پھر اسی قربانی والے انسان پر ایک وقت یہ بھی آتا ہے کہ جب وہ سمجھنے لگتا ہے کہ دین کی محبت سے مراداصل میں اپنی جماعت سے محبت کرنا ہے اور دین پر عمل کرنے کا مطلب جماعتی اکابر کے افکار پر عمل کرنا ہے۔اور اسی کی اگلی منزل وہ ہوتی ہے کہ جب اس کے لیے صحابہؓ اور اس امت کے جلیل القدر اسلاف پہ تنقیدکرنا اور سنناتو آسان ہوجاتا ہے مگر اپنی پارٹی یا گروہ کے اکابر پر تنقید کرنا یا سننا اسے گوارا نہیں ہوتا۔اور نتیجتاً شخصیت پرستی سے آزادی کے نعرے لگانے والا یہ شخص بھی اگر مقابر پرستی نہ سہی’ تو کم از کم اکابر پرستی میں ضرور مبتلا ہو جاتا ہے اور پھرتوحید کہیں دور کھڑی منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور یہ مختلف ‘‘پرستیوں’’ میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ایسی احادیث موجود ہیں جن میں جماعت سے جڑ کر رہنے کی تاکید کی گئی ہے مگر اس میں جماعت سے کیا مراد ہے اس پر جلیل القدر علما بہت بحث کر چکے ہیں اور ہمارے نزدیک اُن علما کا نقطہ نظر حضور ؐ کی مراد سے قریب تر ہے جو سمجھتے ہیں کہ جماعت سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی یا سیاسی نظم ہے ۔اور جو حضرات جماعت سے مراد ’ گروہ یا پارٹیاں لیتے ہیں ’وہ بھی یقینا مخلص ہیں او ر ان کا اخلاص بھی باعث اجر ہو گا مگر ہمارے خیال میں عملی تجربہ ان کے خیال کی غلطی واضح کر چکا ہے ۔

            بیسویں صدی میں عالم اسلام میں عموماً اور برصغیر میں خصوصاً کچھ جید لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اس امت کو ایک مقصد پر اکٹھا کرنے کی سعی کی اور یہ کوشش کی کہ لوگوں میں شخصیت پرستی جنم نہ لینے پائے مگر عملًا صورت حال بالکل مختلف رہی آج انہی کے قائم کردہ پلیٹ فارم بھی اکابر پرستی کا مجموعہ بن کر رہ گئے ہیں۔وائے ناکامی متاع کارواں ہی لٹ گیا ۔دین کا درد اور دین کی محنت عام کرنے والے گروہ ایک خاص مسلک کے پرچارک بن گئے ’رسول کے غلام کہلانے والے پیروں اور اماموں کے غلام بن گئے ’ اوراسلامی نظام کی طرف بلانے والے بہت سے اور نظاموں کا مرکب بن کر رہ گئے ۔ تنظیموں ’جماعتوں ’ گروہوں’ پارٹیوں اور حلقوں کی بقا مقصد اول قرار پائی اور دین کی بقا ثانوی حیثیت ا ختیار کر گئی ۔ہرجماعت اورہر گروہ کے نزدیک دین کی وہی تعبیر مقبول اور معتبر ٹھہری جو اس کے بزرگوں نے کی ہے اورباقی سب مردود۔ اور یہ سب بھول گئے کہ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو تھامے رکھو گے ’گمراہ نہیں ہو گے’ ایک قرآن اوردوسرے سنت۔دعوی سب کا قرآن اور سنت ہی کا ہے مگر وہ جو ’اُن کے بزرگ کہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن تو اصل میں وہ قرآن ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کے ترجمے اور تفاسیر تو علما اور بزرگو ں کی فہم ہے۔ کوئی بھی ترجمہ اور تفسیر اصل قرآن نہیں ہے یہ قرآن کی ایک خاص فہم ہے اس لیے سب کو ایک خاص فہم پر جمع کرنے کی سعی کرنااورصرف اُسی کو حق کہنا جس کو آپ حق سمجھتے ہیں’ہمار ے نزدیک ایک جسارت ہے۔             ہمارے خیال میں کرنے کا پہلا کام لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف بلانا ہے اور اس کے بعد انہیں فہمِ قرآن و سنت کے تمام موجود افکار سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے بعد فیصلہ اُن پر چھوڑ دینا ہے کہ جس فہم کووہ بہتر سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں۔کرنے کا دوسرا کام لوگوں کو سمجھانا ہے کہ وہ قرآن وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی رضاکو پانے کی فکر کرتے رہیں۔ اللہ کے دین کو سمجھنے کی کوشش اور سعی بہر حال مطلوب ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مختلف مسالک کے علما اور بزرگوں سے رابطہ رکھیں۔حق کو سمجھنے اور پانے کی کوشش کرتے رہیں اور کسی شخصی غلامی کا طوق گلے میں نہ ڈالیں کہ طوقِ محمدیﷺ کے بعد ہر طوق ہیچ ہے ۔کرنے کا تیسرا کام لوگوں کو یہ بتاناہے کہ اللہ کا رنگ تو ایک ہی رنگ ہے یعنی اسلام یاقرآن وسنت (ان الدین عنداللہ الاسلام۔۔۔ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ) باقی سب نیلے ’ پیلے ’چٹے ’ کالے ’ سرخ وسفید لوگوں کے بنائے ہوئے رنگ ہیں۔ جماعتوں ’گروہوں’ شخصیات اور بزرگوں سے وابستگی کچا رنگ ہے ’ ایک ہی پکا رنگ ہے اور وہ ہے محمد رسول اللہﷺ کا رنگ ۔ اور اس رنگ میں رنگنے کے لیے ہمارے نزدیک قدیم صوفیاکا طریقہ زیادہ بہتر ہے یعنی انسا ن اپنے تزکیے اور طہارت کی ہر ممکن سعی کر ے اور جو بھی اس کے پا س آئے اسے اللہ سے متعلق کرنے کی سعی کرے نہ کہ اپنی ذات سے متعلق ۔ اور جب اللہ مقصودو مطلوب بن جائے تو یقینا ہر وہ انسان اچھا لگنے لگے گا جو قرآن و سنت کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ کی طرف چلنے والاہو گا قطع نظر اس کے کہ وہ ہماری جماعت یا پارٹی سے تعلق رکھتا ہے کہ نہیں ۔ اور اگر صرف اپنی پارٹی اوراپنے گروہ کا فرد اچھا لگتا ہے تو مطلب صاف واضح ہے کہ مقصود و مطلوب پارٹی اور گروہ ہے’ اللہ نہیں۔اوراگر ایسا ہے توپھر ہر پیر کے مرید ’ ہر جماعت کے کارکن ’ ہر تنظیم کے ممبر ’ہر گروہ کے ساتھی اور ہر حلقے کے بھائی کوچاہیے کہ یہ دعا کثرت سے کیا کرے کہ یا اللہ تو میرا بن جا او رمجھے اپنابنا لے’ اور یا اللہ جو میرے پاس بیٹھے وہ تیرا بن جائے ’ جو میری بات سنے وہ تیرا بن جائے اور جو مجھے دیکھے وہ تیرا بن جائے ۔ یا اللہ کوئی مجھے جانے نہ جانے’ سب لیکن تجھ کو جانیں ’ یا اللہ کوئی مجھے چاہے نہ چاہے’ سب لیکن تجھ کو چاہیں۔امید ہے اس دعا کی برکت سے اللہ جماعتی تعصب سے آزاد کر کے اسے اپنے رنگ میں رنگ لیں گے اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے ۔۔۔!

(صبغۃ اللہ و من احسن من اللہ صبغۃ)