سفید گلاب سے سفید کفن تک

مصنف : روبینہ فیصل (ٹورنٹو کینیڈا)

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : مارچ 2012

            ہم جب پاکستان سے نکل کر دنیا میں کہیں بھی جاتے ہیں تو ہم اپنے ماں باپ کا نام نہیں بتاتے بلکہ اپنے نام سے بھی پہلے یہ بتاتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔۔۔۔ارفع کریم مرحومہ کے الفاظ۔۔۔۔2006میں جب یہ چمکتی آنکھوں والی دنیا کی سب سے کم عمر مائکرو سوفٹ سر ٹیفائڈ بچی بل گیٹ کے دعوت نامے پر امریکہ پہنچی ،ملاقات کے بعد امریکی صحافی کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس نے کہا پاکستان میں سب نیگٹیو نہیں ہے۔ اور اس سے پہلے بل گیٹس کو ہنستے ہوئے بتاتی ہے کہ دیکھا آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی عورتیں کام نہیں کرتیں ، وہ شائد امریکہ کی عورتوں سے زیادہ کام کرتی ہیں۔

             وہ چاہتی تھی کہ اس جیسے اور بہت سے بچے پاکستان کی سر زمین سے نکل کر جد ید دنیا کی تیز رفتار دوڑ میں شامل ہوں۔ بڑے بڑے دولت مند ، پروفیشنلز اور جاگیر دار اتنی بڑی بات نہیں سوچ سکے۔ جس کو شہرت ، دولت یا علم ملتا ہے وہ اس پر سانپ کی طرح بیٹھ جاتا ہے یا تو اپنا پیٹ بھرتا رہتا ہے اور یا اپنے بال بچوں کا ۔سطحی لوگ مہارتیں بانٹنے میں دولت بانٹنے سے بھی زیادہ کنجوس ہوتے ہیں۔۔فیصل آباد کے ساتھ چھوٹے سے گاؤں میں اتنے بڑے دل اور دماغ کو لے کر پیدا ہوئی جو بہت لوگوں کا کھلے اور بڑے بڑے ملکوں میں جا کر بھی نصیب نہیں ہوتا۔ وہ ان بچوں میں کمپیوٹر کی تعلیم عام کرنا چاہتی تھی جن کو پڑھنے کے لئے درسی کتب بھی میسر نہیں ہیں۔ وہ شاعری بھی کرتی تھی شائد اسی لئے اپنے سے زیادہ دوسروں کا درد محسوس کرتی تھی۔ اگر اس کے ماں باپ اسے ٹیکنالوجی میں ہی الجھے رہنے دیتے ، اس کو بلھے شاہ اور اقبالیات کی تعلیم نہ دیتے تو شائد وہ بھی صرف اپنا ہی سوچتی ، اپنی ماں سے محبت بھی نہ کر سکتی ، باپ کی سالگرہ پر نظم نہ لکھ پاتی ،ستاروں سے اور گلاب کے پھولوں سے باتیں نہ کرتی ،پاکستان کو اپنی ماں نہ کہتی۔ پاکستان کا وقار بلند کرنے کی کوشش نہ کرتی ، ان بچوں کے لئے کچھ نہ کرنا چاہتی جو تعلیم کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔

            لوگ کہتے ہیں اس ننھی سی بچی کو خدا نے خوبصورت چہرہ ، دلکش آواز اور اعلیٰ دماغ کے ساتھ پیدا کیا تھا۔میں کہتی ہوں اللہ نے اس کا دل بڑا پیارا بنایا تھا۔ جو دل کائنات کے حسن کو محسوس بھی کرے ، جو اس کی بد صورتی کو دور کرنے کے لئے کمپیوٹر آگے رکھ کر بھی سوچے ، اور جس کے آگے صرف اس کی ذات ہی نہ کھڑی ہو ،وہ پوری قوم کا سوچتی ہو۔یہ احساس کی دولت نہ کسی ٹیکنا لوجی سے حاصل ہوتی ہے ، نہ کسی سائنس کی برانچ میں اس کا تذکرہ ہے۔یہ خدا کی طرف سے ایک ایسا تخفہ تھا جسے میں اس کے دماغ سے بھی زیادہ بڑا تصور کر تی ہوں۔

            بل گیٹ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اسے بتا رہی ہے کہ دیکھا پاکستانی عورت۔میں اس جملے کے سحر سے باہر نہیں نکل سکی۔اور یہ وہ چیز ہے جس کے لئے ہمیشہ میں نے قلم گھسیٹا۔بیرون ِ ملک بیٹھے برائے نام پاکستانی جو لبرل دانشورہیں پاکستان کا جو خاکہ مغربی میڈیا میں بیٹھ کر کھینچتے ہیں اس کے حساب سے یہاں کے لوگوں میں پاکستانی عورت کاتصور کچھ اسطرح سے بنتا ۔ باپ ، بھائی ، روز مارتے ہیں ،زیادہ غصہ آئے تو قتل کر دیتے ہیں۔عورتیں جاہل اور کم عقل ہیں۔ ان کو سخت قسم کا پردہ کروایا جاتا ہے۔عورتوں کی شادیاں قرانِ پاک سے ہوتی ہیں۔عورتیں خاص قسم کے پھلوں کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایسے واقعات دنیا میں کہیں بھی رونما ہوسکتے ہیں لیکن پاکستانی دانشور خود جا جا کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ صرف پاکستان میں ہوتے ہیں۔ ارفع نے ایک صحافی سے کہا پاکستان کو مثبت امیج کی ضرورت ہے۔ پلیز اس کا نیگٹو امیج بہت ہوگیا۔وہ دس سا ل کی عمر میں یہ بات کہہ رہی تھی ، اور ہم ساٹھ ساٹھ سال کے ہو کر بھی یہ بات نہیں سمجھ پائے۔

            ارفع ہمیں سولہ سال کی عمر میں چھوڑ کر چلی بھی گئی۔ یہاں کہیں خبر نہیں تھی ، کوئی شور و غل نہیں تھا ، کینڈا کا میڈیا خاموش ، ہمارے پاکستانی کینڈین دانشور خاموش ، بہت سوں کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ارفع کریم رندھاوا ، جو دنیا میں ایک ریکارڈ قائم کر چکی ہے ،ہے کون ؟۔ اس کی موت پر کسی دانشور نے کیمرے کے آگے جا کر مغربی دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ ارفع کریم پنجاب پاکستان میں پیدا ہونے والی کیا چیز تھی ۔ اس کی موت پر کسی چینل میں خبر نہیں تھی کہ پاکستانی عورت یہ بھی ہوتی ہے ۔ مجھے یاد ہے سوات کی ایک جعلی یا اصلی موبائل فون سے بنی ویڈیو نکلی تو ہر طرف ایک آگ پھیلی ہوئی تھی ۔ میں اس دن جہا ں جہاں بھی گئی چاہے کوئی پاکستانی تھا ، یا انڈین یا گوراہر زبان پر فقط یہی چرچا تھا۔میری پاکستانی دوست نے آکر کہا دیکھا پاکستان کی کتنی بدنامی ہے ۔ انڈین نے کہا یہ بھی کوئی بات ہے سسر سے پوچھے بغیر گھر سے نکلی تو مارنا شروع کردیا ۔ کالی نے ہنستے ہوئے کہا تم لوگ اتنے بے حس ہو ۔ گوری نے کہا کیا یہ سچ ہے تمھارے مرد اتنے ظالم ہوتے ہیں۔ میرے چاروں طرف سوال تھے۔ پھر ٹی وی پر ہمارے سکالرز بیٹھے ساری دنیا کو پیغام دے رہے تھے یہ تو کچھ نہیں آؤ اس سے بھی زیادہ گھناؤنے کرتوت پاکستان کے بتا تے ہیں۔

            چودہ جنوری بروز ہفتہ 2012 میں ادھر ادھر پھرتی رہی ، جم بھی گئی ، کلاس میں بھی گئی ، پاکستانی لوگ بھی ملے ، انڈین بھی ملے ، کالے بھی گورے بھی۔ میری آنکھوں میں بار بار آنسو آرہے تھے۔میں انہیں پی رہی تھی اور سوچ رہی تھی خبر پھیل گئی ہوگی ۔ دنیا میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے والی بچی دنیا سے رخصت ہوئی ہے ۔سب کو پتہ چل چکا ہوگا اور ان میں سے کسی نے بھی مجھ سے پوچھا تو مجھ سے رونا کنٹرول نہیں ہوگا۔ مگر یہ کیا ہر طرف روٹین کی باتیں ہورہی تھیں۔ کسی نے مجھ سے افسوس نہ کیا ، کسی نے مجھ سے سوال نہ کیا۔سب کے پاس باری باری جا کر میں کھڑی ہوئی۔ پھر تنگ آکر میں نے پاکستانی دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ارفع کریم بچ نہیں سکی۔اس نے پوچھاوہ کون ؟۔میرے آنسو آنکھوں میں ہی خشک ہوگئے۔میں نے انڈین لڑکی کی طرف منہ کر کے ارفع کی قابلیت کے ْگن گانے کی کوشش کی ، اس نے بے نیازی سے ہوں ہاں کیا جیسے یہ کوئی بہت بڑی بات نہ ہو ۔ اور ساتھ کھڑی گوری کا دھیان دوسری طرف لگا دیا کہ وہ کہیں سن نہ لے کہ پاکستانی عورت پاکستان میں سارا وقت چادر سے منہ سر لپیٹے ، گھر کے مردوں کی مار کھانے اور ان کے بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام بھی کر تی ہے۔

            اس دن میرے غم میں شریک ہونے والا ایک بھی فرد مجھے نہیں ملا۔ میں اس خبر کے لئے تنہا اس لئے تھی کہ ارفع کو اس کے باپ یا بھائی نے عزت کے نام پر قتل نہیں کیا تھا ، کسی مولوی کے فتوی کا نشانہ نہیں بنی تھی۔وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے جس میں اس کا فوجی باپ شانہ بشانہ اس کے ساتھ چلا ، ملک کے فخر کا باعث بنی ۔ پاکستانی عورت کے مقام کو اونچا کرنے کا باعث بنی ،اس لئے اٹھائیس دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے باوجود اپنے ہی لوگ مجھ سے پوچھتے ارفع کون ارفع کریم۔۔۔وہ تھی جو عورت کی آزادی کا امیج میرے ذہن میں ہے بالکل ویسی ، میک اپ سے بے نیاز چہرہ ، عاجزی کی تصویر ، جس کو نہ اپنے حسن کی پروا ہ ، نہ دماغ کی ، نہ شہرت کی ، جو دوسروں کے لئے کچھ کرنے کی تڑ پ لئے جیتی رہی ہو۔اس وقت پاکستانی عورت دنیا کے کسی بھی کونے میں ہے۔یہ عورت کی آزادی کا پیغام ارفع ہمیں دے گئی ہے ،اسے سمجھے۔اعلی تعلیم ، اعتماد اور دوسروں کا درد۔ یہ پاکستانی عورت کی آزادی نہیں ہے کہ جس کی گونج ہمیں ایک اور فوجی کی بیٹی کے مادر پدرانڈیا میں آزاد فوٹو شوٹ سے ملتی ہے۔ کپڑے پہننے یا اتارنے سے آزادی کا تعلق نہیں ہے۔ آزادی کا تعلق سوچ کی اس سطح پر آنے سے ہے جہاں سے ہم اس عورت پن سے نکلیں جس کا کام مردوں کو لبھانا ہوتا ہے ،یہ آزادی نہیں ، نہ نظر آنے والی صدیوں پرانی بیڑی ہے اس بیڑی سے آزاد ہونا آزادی ہے۔ایک شخص کی آزادی کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس کے فیصلوں کا اثر دوسرے افراد پر کیسا پڑتا ہے۔آپ اپنے گھر والوں کا ، معاشرے کا احساس تو کریں۔

            ارفع ،اور اس جیسی بے شمار بچیاں جن میں ایک اور کمپیوٹر جنئیس مائکرو سافٹ سرٹیفائڈ ۱۱ سالہ، سرگودھا ،پاکستان کی بچی اروبا راؤ۔یہ پاکستان کا فخر اور پاکستانی عورت کی آزادی کا ثبوت ہیں۔ وہ ثبوت جن پر پاکستان کا تمسخر اڑانے والے آنکھیں بند کر لیتے ہیں ، اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ ذکر گول ہی رہے۔ارفع کی سوچ ، اس کا مشن رکنا نہیں چاہیئے۔ اس کے الفاظ ، اس کا زندگی کا ڈھب یہ ہماری بچیوں میں پھیلنا چاہیئے۔ہماری قوم کو ایسی پر اعتماد عورتیں چاہییں۔ہماری قوم کو عورتوں کی ایسی آزادی چاہیئے۔ورنہ وہ جو تنہا سفید گلاب ( ارفع کی نظم ) طوفان کے آگے کھڑا تھا جھک جائے گا ، سفید کفن تک سکڑ کے رہ جائے گا۔ اور ارفع کی زندگی کے سولہ سال ہماری تاریخ سے نکل جائیں گے۔

٭٭٭