سوال جواب

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : 2016 جنوری

جواب:
جہاں تک کسی اچھی اور دل کش آواز کے اصولی طور پر مباح اور جائز ہونے کا تعلق ہے، چاہے وہ کسی انسان کے گلے سے نکلی ہو یا کسی ساز باجے سے، تو میرے فہم کی حد تک اس نکتے میں کوئی خاص اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس پر کم وبیش اتفاق ہے کہ اچھی آواز فی نفسہ ممنوع یا مذموم نہیں اور یہ کہ اس میں قباحت یا حرمت کا پہلو دراصل کسی زائد وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر موسیقی کے ساتھ کوئی فحش یا سفلی جذبات کو انگیخت کرنے والا کلام پڑھا جائے یا اسی مقصد کے تحت رقص وغیرہ کو ساتھ شامل کر لیا جائے تو ایسی موسیقی کی حرمت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اصل اختلاف اس میں ہے کہ وہ زائد وجہ کون کون سی ہو سکتی ہے جس کے پیش نظر موسیقی کو حرام کہا جا سکتا ہے۔ جمہور علما کے نزدیک ایک بڑی اور بنیادی وجہ موسیقی کا ’لہو‘ ہونا ہے، یعنی یہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان پر ایک خاص کیفیاتی لذت طاری کر کے اسے اللہ کی یاد سے غافل کر دیتی ہے۔ اب چونکہ یہ صورت کم وبیش ہر موسیقی میں پائی جاتی ہے، اس لیے جمہور علما دف کے علاوہ، جس کی اجازت حدیث میں منصوص طور پر بیان ہوئی ہے، باقی کسی بھی آلہ موسیقی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں۔ اس کے برعکس غامدی صاحب اور بعض دوسرے اہل علم فی نفسہ کسی چیز کے ’لہو‘ ہونے کو حرمت کی کافی دلیل نہیں سمجھتے، کیونکہ دل کو بہلانے والے بہت سے امور کی اجازت شریعت میں ثابت ہے، بشرطیکہ وہ دل کو بہلانے تک محدود رہیں اور انسان اس سے آگے بڑھ کر ان میں اس طرح کھو نہ جائے کہ دین ودنیا کے فرائض اور ذمہ داریوں سے ہی غافل ہو جائے۔ مزید برآں ’دف‘ کی اجازت حدیث سے ثابت ہونے کے بعد دوسرے آلات موسیقی کو فی نفسہ مباح تسلیم نہ کرنے کی بھی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ ایک دلکش اور سرور بخش آواز پیدا کرنے میں تمام آلات موسیقی شریک ہیں، چنانچہ اگر باقی آلات موسیقی کو بھی ’دف‘ پر قیاس کرتے ہوئے فی نفسہ مباح کہا جائے تو بظاہر اس میں کوئی مانع دکھائی نہیں دیتا۔
اسی طرح جمہور علما اور غامدی صاحب کے مابین اس ضمن میں بھی اختلاف ہے کہ آیا ایک بالغ عورت کی آواز کا غیر محرم مرد کے کان میں پڑنا فی نفسہ ممنوع ہے یا نہیں۔ جمہور علما اسے صرف ضرورت کی حد تک جائز سمجھتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ اور خاص طور پر گانے وغیرہ کی صورت میں موجب فتنہ ہونے کی وجہ سے اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس غامدی صاحب کے نزدیک غیر محرم کے لیے عورت کی آواز کا سننا فی نفسہ ممنوع نہیں ہے۔ بعض روایات وآثار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا غیر محرم عورتوں کی آواز میں غنا سننا مروی ہے۔ عام اہل علم کے نقطہ نظر کی رو سے اس اجازت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ آپ عام لوگوں کے بالمقابل فتنے سے خاص طور پر مامون ومحفوظ تھے یا پھر اسے لونڈیوں سے متعلق قرار دیا جا سکتا ہے جن کے لیے آزاد عورتوں کے مقابلے میں حجاب وغیرہ کے احکام نسبتاً نرم رکھے گئے تھے، تاہم غامدی صاحب اس اباحت کو اصولی طو رپر سب کے لیے عام سمجھتے ہیں۔
اس موضوع پر غامدی صاحب کی کوئی باقاعدہ اور مفصل تحریر میری نظر میں نہیں ہے اور مذکورہ توضیح بعض یادداشتوں اور استنباط پر مبنی ہے، اس لیے اس میں ان کے یا جمہور علما کے نقطہ نظر کی ترجمانی میں کسی خامی یا غلط فہمی کا پایا جانا بعید از امکان نہیں۔ بہتر ہوگا کہ اس موضوع پر دیگر تفصیلی تحریروں کا مطالعہ کر لیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)

 

جواب
انسانوں کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کی اطاعت کو ’کفر‘ صرف اس صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے جب وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی قانون سے ٹکراتا ہو اور اللہ کے قانون سے سرکشی کرتے ہوئے یا اسے عمداً نظر انداز کرتے ہوئے انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون کو اختیار کر لیا جائے۔ سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے اسی طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون (آیت ۴۴)
’’اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
یعنی کافر ہونے کا فتویٰ اس صورت میں ہے جب کسی معاملے میں اللہ نے کوئی قانون اتارا ہوا ہو اور انسان اس کے مطابق فیصلہ کرنے سے گریز کریں۔ اس سے واضح ہے کہ اس متعین اور محدود دائرے سے ہٹ کر جس میں اللہ نے شریعت کا کوئی ابدی قانون اتارا ہے، دوسرے کسی معاملے میں نہ تو انسان پر اپنے عقل وفہم اور تجربے کی روشنی میں قانون بنانے پر کوئی پابندی ہے اور نہ ایسے کسی قانون کی پیروی کو محض اس بنیاد پر کفر قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کا اتارا ہوا نہیں۔ قرآن مجید نے ’کفر‘ کا یہ فتویٰ ان یہود کے بارے میں دیا ہے جن کے پاس تورات موجود تھی او روہ اس کے احکام پر عمل کرنے
کے لیے پوری طرح آزاد تھے، لیکن اس کے باوجود اپنی خواہشات اور مفادات کی پیروی میں اس سے گریز کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ قرآن نے یہاں ’کفر‘ کا لفظ کفر عملی کے معنی میں استعمال کیا ہے نہ کہ کفر اعتقادی اور کفر قانونی کے معنی میں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ طرز عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کافرانہ طرز عمل ہے۔ جہاں تک دنیا کے ظاہری احکام کے لحاظ سے کسی کو کافر قرار دینے کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے اور جب تک کوئی شخص کسی تاویل کے بغیر کھلم کھلا اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کو قبول نہ کرنے یا انھیں مسترد کرنے کا اعلان نہ کر دے، اسے کافر قرار دینے اور اس پر کفر کے ظاہری قانونی احکام جاری کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
مذکورہ توضیح پیش نظر رہے تو واضح ہوگا کہ اگر مسلمان اپنے آپ کو کسی ایسی صورت حال میں پائیں جہاں قانون سازی کا کلی اختیار ان کے پاس نہ ہو، جیساکہ غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کی صورت حال ہے، اور وہ عملی مجبوریوں کے تحت شرعی قوانین پر عمل نہ کر سکیں تو ان پر مذکورہ وعید کا اطلاق نہیں ہوتا، البتہ ایسی صورت میں مسلمان اس بات کے مکلف ہوں گے کہ وہ اپنے امکان کی حد تک شرعی قوانین پر عمل کی کوشش کریں اور اس بات کی بھی جدوجہد کرتے رہیں کہ ریاستی قانون میں مسلمانوں سے متعلق معاملات میں شرعی احکام کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے۔ یہ جدوجہد اس معاہدۂ سکونت یا معاہدۂ شہریت کی شرائط کے دائرے میں ہونی چاہیے جس کے تحت مسلمان ان ممالک میں رہ رہے ہیں، کیونکہ ملک کے عمومی قوانین کو توڑ کر یا انھیں چیلنج کرتے ہوئے ایسی کوئی جدوجہد شریعت کی نظر میں معاہدے کی خلاف ورزی قرار پائے گی۔ میرے فہم کے مطابق جائز دنیوی اور دینی مصلحتوں کے تحت مسلمانوں کا غیر مسلم ممالک میں سکونت پذیر ہونا ازروے شریعت جائز ہے اور ایسی صورت حال میں جن شرعی احکام پر عمل کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہو، وہ ان کے مکلف نہیں ہیں۔ اسلامی شریعت کے کلی نفاذ کا میدان غیر مسلم ممالک نہیں، بلکہ مسلمان معاشرے ہیں، اس لیے اگربعض مسلمان غیر مسلم معاشروں کے قانون اور ماحول پر
اطمینان محسوس نہ کریں تو انھیں چاہیے کہ وہ کسی مسلم معاشرے میں سکونت اختیار کر لیں، نہ یہ کہ غیر مسلم معاشروں کے نظم اور قانون کو چیلنج کرتے ہوئے دین کی دعوت اور اس پر عمل کے ان مواقع سے بھی مسلمانوں کو محروم کر دیں جو انھیں اس ماحول میں میسر ہیں۔

(ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر)