سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : ستمبر 2013

ج : اگرچہ قرآنی آیات سے علاج کی کوئی بنیاد قرآن وسنت میں نہیں ہے اور اس کی بنیاد سراسر انسانوں کے اندازوں اور بعض لوگوں کے دعوے کے مطابق تجربے پر ہے۔ اس لیے اسے جائز اور ناجائز قرار دینے کا مسئلہ دو بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ قرآن وسنت میں کوئی چیز موجود ہو جس کی بنیاد پر اسے ناجائز کہا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس طریق کار میں کوئی ایسی چیز ہو جو اسلام کے اصولی یا عملی پہلوؤں کے خلاف ہو۔ قرآنی عملیات کو جادو قرار دے کر خلاف اسلام قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ ان کے ساتھ جو رسوم و آداب وابستہ کر دیے جاتے ہیں وہ محل نظر ہیں۔ اسی طرح قرآنی آیات کا یہ استعمال خود قرآن کے مقصد نزول سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا یہ پہلو بھی اسے پسندیدہ نہیں رہنے دیتا۔ پھر یہ کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کو تدبیر اور دعا کے اصول پر استوار کیا ہے اس طرح کے عمل اس کے بھی خلاف ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اصل میں یہ تینوں دعوے انسانی ہیں اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے اس کی بنیاد قرآن مجید اور حدیث میں نہیں ہے۔ اس طرح کی چیزیں پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی کیونکہ ان کے نتائج نکلنے کی شرح اتنی نہیں ہے کہ اسے طب یا انجینئرنگ کی طرح کا ایک باقاعدہ فن قرار دیا جا سکے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اللہ تعالی سب کی سنتے ہیں۔ نیک آدمی خدا کے پسندیدہ ہیں۔ اس سے توقع پیدا ہوتی ہے کہ ان کی دعائیں بھی اللہ قبول کرتے ہیں۔ یہ بات درست ہے لیکن اللہ تعالی کی طرف سے یہ کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے دعا قبول کرنے کے اصول ہیں وہ ان اصولوں کے مطابق ہونے والی دعا قبول کرتے ہیں۔ کوئی دعا ایسی نہیں ہے جو ان کی درگاہ میں نہیں پہنچتی۔

(مولانا طالب محسن)

ج : تصوف ایک علم ہے جس میں ایک حصہ ان کے نظام فکر کا ہے اور دوسرا حصہ ان کے نظام تربیت کا ہے۔ پہلا حصہ سب سلاسل میں مشترک ہے اگر کچھ فرق ہے تو وہ بہت معمولی ہے اور بالعموم طرز بیان کا ہے۔ دوسرا حصہ عملی ہے اور اس میں وظائف، چلوں اور ریاضت کے طریقوں کا فرق ہے۔اصولاً تو شیخ کی وہی حیثیت ہے جو کسی بھی فن میں استاد کی ہوتی ہے۔ لیکن تصوف میں شیخ کو کم وبیش وہی مقام دیا گیا ہے جو قرآن مجید میں حضور کو امتیوں میں دیا گیا ہے۔ یہ بات محل نظر ہے اور کسی بھی غیر نبی کا اپنی حدود سے تجاوز ہے۔مرنے کے بعد کسی روح کے لیے اس دنیا سے کوئی رابطہ ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : یہ سوال جس الجھن پر مبنی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہوتا ہے ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا ہوا ہے۔تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ ہمیں یہ اصولی بات معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے سب پہلے سے طے کر رکھا ہے تو پھر یہ آزادی بالکل بے معنی ہے۔ پھر جزا یا سزا یا وقوع قیامت یہ سب باتیں اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تدبیر کریں اور تدبیر کی کامیابی کے لیے دعا کریں۔ ہم ان آفات سے محفوظ رہنے کے لیے بھی دعائیں کریں جو دوسرے انسانوں اور قدرتی عوامل کی وجہ سے پیش آتی رہتی ہیں اور جن کا کبھی ہمیں شعور نہیں ہوتا اور اگر کبھی شعور ہو بھی تو ہم اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔حضور کی سکھائی ہوئی ایک دعا کے الفاظ ہیں:

اے اللہ مجھے اس شر سے محفوظ رکھ جس کا آپ نے فیصلہ کیا ہے، کیونکہ تو فیصلے کرتا ہے تیرے اوپر فیصلے نہیں ہوتے ۔یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ ہماری دعا سے اللہ کے فیصلے تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالی نے ہمیں یہاں آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔ آزمایش کے ضروری ہے کہ انسانوں کو خیر وشر کے انتخاب کی حقیقی آزادی حاصل ہو۔ وہ چاہیں تو اچھے اعمال کریں اور چاہیں تو بداعمالیا ں کریں۔ یہ آزادی بالکل محدود ہو جائے گی اگر انسانوں کو دنیوی معاملات میں فیصلے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ مطلب یہ کہ شادی، کاروبار، تعلیم، محنت، پرہیز، علاج، ہنر، طرز زندگی ،لباس ،رسم ورواج غرض زندگی کے بہت سے دائروں میں انسانوں کو آزادی دی گئی ہے۔ اصل میں یہ آزادی ہی ہمارا مقدر ہے۔ جسے اللہ نے اپنی قدرت کے بل پر جاری وساری کر رکھا ہے۔آپ کی بات بالکل درست ہے کہ شادی میں کئے گئے فیصلے بھی اسی آزادی کے تحت ہیں۔ لیکن یہ آزادی بعض اوقات صرف ارادے تک محدود رہتی ہے اور ایک انسان کو عمل کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی کی اس مداخلت کے پیچھے کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ایک انسان کو بہت سی آزمایشیں اس کے ماحول میں موجود انسانوں کے اعمال سے پیش آتی ہیں۔ لہذا مداخلت کرکے اس آزمایش کو مطلوب درجے تک رکھا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر الف ،ب کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلے اور ب کو قتل نہ ہونے دینا مقصود ہو تو ب کو مداخلت کرکے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن فیصلہ کرنے والا قتل کا مجرم بن جاتا ہے اور آخرت میں قتل کی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ایک بندے کے مستقبل کو بعض آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مداخلت کی جاتی ہے وغیرہ ۔اس وضاحت کو شادی کی مثال پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے زور زبردستی کی ہے انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے ایک حق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ الا یہ کہ وہ یہ مداخلت کرنے میں حق بجانب ہوں کہ بچوں کا فیصلہ غلط ہے اور اس سے ان کا نقصان ہوگا۔اس کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس معاملے میں مداخلت کرکے آئندہ کے لیے کسی آفت سے حفاظت کا بندوبست کیا ہو۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اس طرح کی کمیٹی سود کے بغیر نہیں چلائی جا سکتی اور سود کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں دھوکے کا عنصر بھی موجود ہے۔ یعنی لوگوں کو اصل حقیقت نہیں بتائی جاتی اور انھیں لالچ دے کر ان کے پیسے ذاتی استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کی شکل بھی جوئے سے ملتی ہے۔ان پہلوؤں کے ہوتے ہوئے یہ کمیٹی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔         

(مولانا طالب محسن)

ج : آپ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مالی پریشانی بہت سی پریشانیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے اس کا حل ہونا ضروری ہے۔آپ ذرا تصور کیجیے کہ حضور کے زمانے میں اگر حضورﷺ سے یہی سوال کیا گیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کیا جواب دیتے۔ آپ کی سیرت کی کسی بھی کتاب میں ہمیں کسی طرح کا وظیفہ بتانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بہت غور طلب بات ہے۔ حدیث کا مستند ذخیرہ ہو یا قران مجید کی 114 سورتیں ہمیں اس طرح کی کوئی چیز کیوں نہیں ملتی۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ کہ اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے کوئی وظیفہ کیا جائے اس کا کوئی تعلق قرآن وسنت سے نہیں ہے۔یہ اگر کوئی علم ہے تو بعد میں دریافت ہوا ہے۔ ہم لوگ قرآن وسنت کی روشنی میں دین بیان کرتے ہیں۔ لہذا ہمارا اس طرح کے فنون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قرآن و حدیث سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ارادہ و عمل کی آزادی دی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا تھا کہ انسانی زندگی میں نتائج کو سعی و جہد پر منحصر کر دیا جائے۔ اس میں معاش بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں اصل الاصول یہ ہے کہ ہم اپنی سعی کی خامیوں کا جائزہ لیں اور اس کو اپنے امکان کی حد تک بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔لیکن یہ کوشش اپنی کامیابی کے لیے بہت سے موافق امکانات کی محتاج ہے۔ یہ امکانات دیکھے بھی ہیں اور ان دیکھے بھی ہیں۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ اپنے بل پر انھیں میسر کر سکے اس کے لیے صرف دعا کا راستہ ہے۔چنانچہ میں آپ کو بھی یہی تجویز کروں گا کہ آپ اپنی سعی کا جائزہ لیں اس میں وہ کمیاں جو آپ اپنی محنت اور عمل سے دور کر سکتے ہیں انھیں دور کریں اور ان کے کامیاب ہونے کے اللہ سے دعا کریں۔

جو لوگ اللہ کے ساتھ بندگی، شکر اور صبر کے ذریعے جڑے رہتے ہیں اور بندوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھتے ہیں اللہ ان کی غیب سے مدد کرتا ہے اور ان کے معاملات عزت سے انجام پاتے رہتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

ج : ایصال ثواب میں کوئی آدمی اپنے کسی کار خیر کا اجر دوسرے کو منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات اس سے بالکل مختلف ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی مغفرت کی دعا کرے۔ پہلی صورت میں بندہ اصل میں اس اصول کو مانتا ہے کہ میری نیکی کا اجر دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے اور دوسری صورت محض سفارش ہے۔ پہلی صورت کی کوئی دلیل قرآن میں موجود نہیں اور دوسری صورت یعنی دعا کے حق میں متعدد نصوص ہیں۔دعا کا نفع بخش ہونا دعا کی قبولیت کے اصولوں پر قائم ہے۔        

(مولانا طالب محسن)

ج : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانا کھانے کے حوالے سے جو کچھ منقول ہے میرے مطالعے کی حد تک یہ ہے:

1۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا

2۔ دائیں ہاتھ سے کھانا

3۔ اپنے آگے سے کھانا

4۔ مشروبات میں پھونک نہ مارنا

کھانا کھانے کے دوران میں گفتگو نہ کرنا میرے مطالعے میں اس مضمون کی کوئی روایت نہیں ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے بولنے میں گلے میں لقمہ پھنسنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے بڑے ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ غالباً اسی بات نے بڑھتے بڑھتے وہ صورت اختیار کر لی ہے جو آپ نے بیان کی ہے۔ میرے خیال میں سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بس یہ خیال رکھیں کہ لقمہ منہ میں صحیح جگہ پر ہو۔           

(مولانا طالب محسن)

ج : معراج کا واقعہ ایک معجزہ ہے اور معجزہ مادی قوانین کے مطابق نہیں ہوتا۔ اس لیے انسانی ذہن کی گرفت سے باہر ہے۔ سائنس کی جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ مادی قوانین کے فہم میں ہوئی ہے۔ ماورائے مادی امور مسائل نہ اس کی پہنچ میں ہیں اور نہ اس کا موضوع۔یہ معاملہ اللہ تعالی کے امر سے وقوع پذیر ہوا تھا۔ اور اس کے ماننے کی بنیاد مخبر پر ہمارا یقین ہے۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اگرچہ انسانی عقل ان مسائل کو اپنے وسائل کی مدد سے حل نہیں کر سکتی لیکن ان کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کی بناوٹ میں مذہب کی قبولیت کا مادہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تہذیبیں مذہبی ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہیں۔ وہ معاشرے جنھیں ہم ترقی یافتہ معاشرے سمجھتے ہیں وہاں حقیقی مذہب ہو یا نہ ہو توہم پرستی اور عامل ٹائپ لوگوں کا وجود انسانی شعور کی اس سرگرمی کا واضح ثبوت ہے۔

میں نے اپنے جواب میں دو نکات بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ معراج کا واقعہ ہمارے دریافت کردہ طبیعیاتی قوانین سے ماورا ہے لہذا ان قوانین سے اس کی حقیقت سمجھ میں

 نہیں آ سکتی۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے واقعات کے ماننے کی بنیاد خبر دینے والے پر ہمارا اعتماد ہے۔پھر میں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ اعتماد اندھا بہرا نہیں ہے۔ ہم اپنے شعور سے انھیں سمجھنے اور ماننے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ خدا قادر مطلق ہے اور معراج اس کی قدرت کا ایک اظہار ہے۔    

(مولانا طالب محسن)

ج : اجماع کا لفظ دو معنی میں بولا جاتا ہے۔ ایک اجماع امت ہے اور ایک اجماع فقہا ہے۔ اجماع امت کا مطلب یہ ہے کہ امت کسی چیز کو دین کے طور پر حضور سے منسوب کرنے میں اپنے ہر زمانے میں بالکل متفق ہو۔ یہ رائے کا اتفاق نہیں ہے بلکہ حضور سے دین کو نقل کرنے پر اتفاق ہے۔ یہی اجماع دین کا ماخذ ہے اور اس سے اختلاف جائز نہیں۔ دوسرا اجماع رائے پر اجماع ہے یہ اصل میں نصوص سے استنباط پر علما کا متفق ہونا ہے۔ اگرچہ یہ اجماع محض دعوی ہے لیکن لوگ بہت سی دینی آرا پر اجماع کا دعوی کرتے ہیں۔ اس طرح کے اجماع سے اختلاف میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ یہ رائے سے اختلاف ہے۔ یہ دین کے کسی جزو سے اختلاف نہیں ہے۔ علمی آرا میں غلط اور صحیح کا معاملہ ہوتا ہے حق اور باطل کا معاملہ نہیں ہوتا۔ علمی آرا میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرا گمراہ ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی رائے ٹھیک نہیں ہے۔ وہ اپنی رائے پر عمل کریں تو دین پر عمل کر رہے ہیں اور ان سے اختلاف کرنے والا اپنی رائے پر عمل کرے تو وہ دین پر عمل کر رہا ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاق کے معاملے میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ تین طلاق ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ایک طلاق ہے۔ جس کی جو بھی رائے ہے وہ اس پر عمل کرنے میں گناہ گار نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اصل میں احناف کا نقطہ نظر جس بنا پر قائم ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ نمازنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے سامنے اور روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی ہے اور جو عمل سب کے سامنے ہوا ہو اس کے بارے میں خبر واحد سے فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح پانچ نمازوں کے معاملے میں خبر واحد کی کوئی حیثیت نہیں ہیپر اسی طرح نماز کے ظاہری اعمال میں بھی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ احناف عین صحابہ سے متصل زمانے میں عمل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر رفع یدین نماز کا معمول بہ حصہ ہوتا تو احناف اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ آج بھی احناف سے اس معاملے میں اختلاف کرنے والے عمل متواتر اور جاری نماز کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ اخبار آحاد پیش کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں وہی نتیجہ نکلتا ہے جو آپ نے غامدی صاحب کے حوالے سے بیان کیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

ج : اللہ تعالی کے نظام تکوین میں کچھ ہستیاں شریک ہیں۔ یہ تصور بالعموم دو صورتوں میں سامنے آتا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ہستیوں کو خود سے کچھ کاموں میں شریک کر رکھا ہے یا وہ شریک ہی کی حیثیت سے ہمیشہ سے موجود ہیں۔ یہ شرک کی وہ صورت ہے جو تمام مشرکانہ مذاہب میں بیان کے فرق کے ساتھ موجود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں عبادت و ریاضت سے اپنے آپ کو مقبول بارگاہ بنا لیتی ہیں اور اس طرح اللہ تعالی ان کو کچھ امور کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ دونوں طرح کے شرک زیر بحث آئے ہیں اور ان پر ایک ہی تنقید کی ہے کہ ان کے پاس کوئی سلطان (authority) نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات وحی کے سوا کسی طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی کہ اللہ نے کچھ شرکا بنا رکھے ہیں یا امور تکوینی تک رسائی کا کوئی قاعدہ بنا رکھا ہے۔ چونکہ خدا کی کسی کتاب میں نہ صرف یہ کہ اس طرح کی کسی بات کی طرف اشارہ بھی موجود نہیں ہے بلکہ صریح الفاظ میں ان کی تردید ہوئی ہے اس لیے ان کے باطل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ بھی اس تصور پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ان تک پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ بات دو پہلوؤں سے ناقابل قبول ہے۔ ایک یہ کہ کچھ ریاضتوں سے انسان مخاطبہ الہی کا اہل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اوپر والی بات ہی کی طرح بے بنیاد ہے۔ دوسرا یہ کہ ختم نبوت کا تصور اس کے نتیجے میں باطل ہو جاتا ہے اور نبوت کی حقیقت یہی ہے کہ کسی انسان کو مخاطبہ الہی کا مقام حاصل ہو جائے۔ قطب و ابدال جیسے تصورات درحقیقت اسی بنیاد پر باطل ہیں اور ان کے ماننے سے خدائی میں شرکت کا تصور پیدا ہوتا ہے اور ان تصورات کو ماننے والوں کے ہاں اس کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔آپ نے ستاروں کے اثرات کے ماننے کے شرک ہونے پر بھی تعجب ظاہر کیا ہے۔ قرآن مجید نے جبت کو جرم قرار دیا ہے۔ جبت کا مطلب یہ ہے کہ اوقات اور اشیا کے ماورائی اثرات مانے جائیں۔ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے اور اس تصور کی بھی الہامی لٹریچر سے کوئی بنیاد نہیں ملتی۔ یہ بھی انسانوں ہی کے بنائے ہوئے تصورات ہیں اور انسان کو سعی وجہد کرنے والا اور خدا پر بھروسا کرنے والا بنانے کے بجائے توہم پرست بناتے ہیں۔ قرآن مجید نے جبت کو گناہ قرار دیا ہے اور ستاروں کے اثرات ماننا جبت ہی کے تحت آتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

س : میں ایک حدیث سے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ "پیغمبر نوح علیہ السلام نے بھی بیت اللہ کا حج کیا"۔ یہ ایک حدیث میں بتایا گیا ہے جو کہ عروہ بن زبیر سے مروی ہے۔" ہود اور صالح علیہما السلام کے علاوہ تمام پیغمبروں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ پیغمبر نوح نے بیت اللہ شریف کا دورہ کیا۔ پھر جب سیلاب نے زمین کو ڈبو دیا اور بیت المقدس پانی کے نیچے ڈوب گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو صحیح راستے کی طرف لائیں۔ حضرت ہود تبلیغ کے کاموں میں اتنے مصروف رہے کہ وہ بیت المقدس کا حج نہ کر سکے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ والی پاک جگہ دکھائی گئی تو انہوں نے بھی وہاں کا حج کیا، اور اس طرح ان کے بعد تمام پیغمبروں نے جو کہ آپ کے بعد تشریف لائے"۔ (راوی۔ البیہقی، کتاب السنن) میں بیہقی کی ان احادیث کی نوعیت جاننا چاہتا ہوں۔ یہ کس درجے کی حدیث ہے، جب کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے کی۔

ج : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"

اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)