ویلما ، ایک بہادر لڑکی

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : ستمبر 2013

پیارے بچو! آپ نے بہت سے بہادر بچوں کی کہانیاں سْنی ہوں گی، ان کہانیوں کو سن کردل چاہتا ہے کہ ہم بھی ہمت اور بہادری کو کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیں کہ دْنیا والے ہمیں بھی ہمیشہ یاد رکھیں اور ہمارے والدین ہم پر فخر محسوس کرسکیں۔

آئیے آج ہم ایک بہادر بچی کی کہانی سْنتے ہیں!

یہ اْنیس سو چوالیس کی بات ہے۔ امریکہ کی ریاست ٹینسس میں ایک غریب قْلی کے یہاں ایک بچی پیدا ہوئی اْس بچی کے والدین نے اْس کانام "ویلما روڈلف" ! رکھا۔

ویلما بچپن میں ایک عام سی بچی تھی اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔ جب ویلما چار سال کی تھی کہ ایک دن اْسے اپنی ٹانگوں میں بہت درد محسوس ہوا، درد کی شدت سے ویلما زور زور سے رونے لگی ویلما کو روتا دیکھ کر اْس کی امی پریشان ہوگئیں اور اْسے قریبی ہسپتال لے گئیں۔ ہسپتال جا کر معلوم ہوا کہ ویلما کو "پولیو" کا موذی مرض ہوگیا ہے اور اْس کی ٹانگیں کمزور ہوگئی ہیں۔ڈاکٹر نے ولما کی والدہ سے کہا کہ وہ ویلما کی ٹانگوں کی روزانہ مالش کیا کریں۔ اب روزانہ ویلما کی والدہ یا اْس کے بھائی ویلما کی ٹانگوں کی مالش کیا کرتے۔ کچھ عرصے بعد ڈاکٹر نے ویلما کی ٹانگوں کو سہارا دینے کے لیئے لکڑی کا "براس" بھی ویلما کی ٹانگوں پر لگا دیا۔ ویلما کو چلنے پھرنے میں مشکل ہونے لگی کیونکہ اْسے ہر وقت اس مصنوعی سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔

ویلما کو بچپن ہی سے "باسکٹ بال"کھیلنے کا شوق تھامگر اب اْس کے لیئے چلنا پھرنا ہی مْحال تھا۔ دوسرے بچوں کودوڑتا، پھرتا اور کھیلتا دیکھ کر ویلما کی کھیلنے کی خواہش شدید ہوجاتی۔جب وہ پانچ سال کی ہوئی تو ایک دن اْس نے اپنے ٹانگوں پر لگے مصنوعی سہاروں کو ہٹا دیا اورازخود کھڑے ہوکر چلنے کی کوشش کی ۔درد کی ایک شدید لہر اْس کی ٹانگوں سے اْٹھی اور پورے جسم میں پھیل گئی مگر ویلما نے ہمت نہیں ہاری اور چلنے کی مشق کرتی رہی چند ہی ہفتوں میں وہ بنا کسی سہارے کے چلنے پھرنے کے قابل ہوچکی تھی۔

ویلما نے اپنے دل میں عہد کیا کے وہ اپنی کمزور ٹانگوں کے باوجود اپنے کھیلنے اور دوڑنے کے شوق کو ضرور پورا کرے گی۔ اْس نے اپنے شہر کے کلب میں ایک ریس میں حصہ لیا۔ بدقسمتی سے ویلما وہ ریس ہار گئی۔ وہاں پر موجود ایک کوچ "ایڈ ٹیمپل" ویلما کے ارادوں کی مضبوطی سے بہت متاثر ہوا اور اْس نے ویلما کو ٹریننگ دینے کی پیش کش کی۔ویلما "ایڈ" کی زیر نگرانی دوڑنے کی پریکٹس کرنے لگی۔ وہ دیوانوں کی طرح پریکٹس کرتی اور اْس کے جذبے اور شوق کو دیکھ کر کلب کے دوسرے کھلاڑی بھی بہت متاثر ہوتے تھے۔ اْنیس سو اٹھاون میں ویلما نے "ٹینسس اسٹیٹ یونی ورسٹی" میں داخلہ لیا۔ وہ دن بھر پڑھتی اور شام کو ایک جگہ نوکری کرتی تاکہ یونی ورسٹی کی فیس ادا کرسکے۔ ویلما کے "دوڑنے" کے شوق اور محنت کو دیکھتے ہوئے یونی ورسٹی نے ویلما کو اسکالر شپ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے نے ویلما کے شوق اور ارادوں کو اور بھی زیادہ مضبوط کردیا۔16 سال کی عمر میں ویلما کو اْنیس سو چھپن کے اولمپک میں شریک ہونے کا موقع ملا ، اس ریس میں ویلما نے کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ ویلما کی اس پہلی بڑی کامیابی نے ویلما کے اساتذہ اور دوستوں سمیت پورے ملک کو خوش کردیا۔مگر ویلما کی منزل یہ نہیں تھی، اْس کی نظر آنے والے اولمپک پر تھی اور بالاخر اْس نے اْنیس سو ساٹھ کے "روم اْولمپک" میں تین مختلف ریسوں میں حصہ لیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کے ویلما نے 100 میٹر، 200 میٹر اور 400 میٹر کی تینوں ریسوں میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ویلما پہلی امریکی لڑکی تھی جس نے ایک ساتھ تین اولمپک گولڈ میڈلز حاصل کئے۔ تین سال بعد ویلما نے اپنے گریجویشن بھی مکمل کرلی۔

ویلما کو بہت سے دیگر اعزازات اور میڈلز سے بھی نوازاگیا۔

بارہ نومبر سن اْنیس سو چورانوے کو 54 سال کی عمر میں اس بہادر لڑکی کو انتقال ہوا۔ ویلما کے انتقال کے 9 سال کے بعد امریکی حکومت نے اْسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اْس کی یاد میں 23 سینٹ کا ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔

ویلما نے ٹانگوں کی بیماری کے باوجود اپنے ارادوں اور ہمت سے ناممکن کو ممکن کردکھایا اور ثابت کردیا کہ اگر آپ اپنے ارادوں پر مضبوطی سے قائم رہیں اور اپنی منزل کو حاصل کرنے کے لیئے کوششیں کرتے رہیں تو پھر بالاخر کامیابی آپ کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہے۔

٭٭٭