کرشن نگر کابیدی ، اسلام پورہ کالطیف

مصنف : عارف شمیم

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : ستمبر 2013

( تقسیم ہند )

(تقسیم کے بارے میں اس سیریز کا خیال بہت دنوں سے میرے من میں مچلتا تھا۔ اس کی وجہ وہ چند خطوط تھے جو چوہدری محمد لطیف کو لکھے گئے تھے اور میرے ہاتھ آگئے۔ میں ان خطوط کے جواب میں لکھے جانے والے خطوط پڑھنا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے مجھے وہ خط تو نہ ملے لیکن ان کی کہانی اور ایک خط آپ کی نذر ہے۔)

‘1947-12-30

جناب مولوی صاحب

تسلیم۔ میں آپ کی خدمت میں یہ خط بطور ایک انسان کے لکھ رہا ہوں۔ امید ہے آپ یہ خیال نہ کریں گے کہ ایک ہندو آپ کو خط لکھ رہا ہے۔ ہم پہلے انسان ہیں اور ہندو اور مسلمان بعد میں۔ مجھے امیدِ واثق ہے کہ آپ انسانی ناطے سے میرے اس خط کا جواب ضرور دے کر مشکور فرمائیں گے۔۔۔

آپکا خیر اندیش
ہرکشن داس بیدی بی اے۔ بی ٹی
معرفت پنجاب کتاب گھر، گیٹ مائی ہیراں جالندھر شہر۔

تقریباً گزشتہ بیس سال سے یہ خط لکھنے والا ہرکشن داس بیدی میرے ساتھ ہے۔ ہرکشن داس کون ہے؟ لیں اس کی ہی زبانی سن لیں۔ ‘میں سناتن دھرم ہائی سکول لاہور میں سینیئر ٹیچر آف انگلش اور حساب کا کام کرتا تھا۔ میرے شاگرد ہندو، مسلمان اور سکھ سب تھے۔ اور میری آنکھوں میں ہندو اور مسلم میں کسی قسم کا فرق نہ تھا۔ آپ چوہدری سراج دین سے پوچھ لیں میں نے اور دینا ناتھ نے اس کے مکان کی ہر طرح سے حفاظت کی۔۔۔’

میں اسے کیسے جانتا ہوں؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ میں بچپن میں اس کے گھر میں کھیلا کرتا تھا۔ 32 پانڈو سٹریٹ کرشن نگر وہ گھر تھا جو میری والدہ کے خالو چوہدری محمد لطیف کو تقسیم کے بعد لاہور میں الاٹ ہوا تھا۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر امرتسر سے لاہور آئے تھے۔ 1982 میں چوہدری لطیف کی وفات کے بعد ایک روز میری خالہ کو ان کی الماری سے یہ خط ملے اور تب سے یہ میرے پاس ہیں۔ جب بھی میں ان خطوط کو دیکھتا ہوں تو ہرکشن داس کے متعلق سوچنا شروع کر دیتا ہوں۔ وہ کیسا شخص تھا۔ اس نے اپنے لٹے ہوئے گھر میں خط لکھنے کی ہمت کیسے کی اور وہ بھی اس زمانے میں جب لاکھوں لوگ مذہب کے نام پر قتل کر دیے گئے تھے۔ ہندو مسلمان پر اعتبار نہ کرتا تھا اور نہ کوئی مسلمان ہندو یا سکھ پر۔ ہو سکتا ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں بیدی اور بھی ہوں جو فسادات میں انسان ہی رہے ہوں اور یقیناً ہوں گے بھی لیکن پھر بھی بیدی مجھے سب سے الگ ہی نظر آتا ہے۔

ہرکشن داس نے چوہدری لطیف کو اپنا پہلا خط تیس دسمبر 1947 کو لکھا تھا۔ اس وقت انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا گھر کسے الاٹ ہوا ہے۔ اس سے پہلے وہ لاہور آئے تھے لیکن اس میں رہنے والے سے نہیں مل سکے۔ اپنے خط میں جو انہوں نے To The Occupant کے نام تحریر کیا وہ لکھتے ہیں: ‘میں 17 ستمبر کو اپنے مکان نمبر 32 پانڈو سٹریٹ میں داخل ہوا۔ مجھے پتہ چلا کہ یہ مکان پہلے الاٹ ہو چکا ہے۔ اس لیے میں اپنے مکان سے کوئی چیز نہ لا سکا۔ میں نے بچوں کے کپڑوں والا چھوٹا ٹرنک لانا چاہا مگر سپاہی نے لانے نہ دیا۔ خیر ان باتوں کو رہنے دیجئے۔’

 بیدی ایک طرح سے خوش قسمت بھی تھے کہ ان کا گھر جس شخص کو الاٹ ہوا وہ بھی ایک خدا کا خوف رکھنے والے نیک آدمی تھے جو کہ بیدی ہی کی طرح اپنا سب گھر بار چھوڑ کر انڈین پنجاب سے آئے تھے۔ ہو سکتا ہے جب بیدی نے اپنا پہلا خط لکھا ہو انہیں یقین بھی نہ ہو کہ کوئی انہیں جواب بھی دے گا کیونکہ اس وقت جس طرح کے حالات تھے اس بات کے امکانات زیادہ تھے۔ لیکن دس دن بعد ہی بیدی کو جواب مل گیا اور ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کا اظہار بیدی اپنے دوسرے خط میں اس طرح کرتے ہیں۔

‘9.1.1948

مکرمی مسٹر محمد لطیف صاحب

آداب عرض۔ آپ کا نوازش نامہ ملا۔ میں نے آپکے خط کو دو تین دفعہ پڑھا۔ اور پڑھ کر یہ محسوس کیا کہ یہ خط مجھے ایک سچے رفیق کی طرف سے ملا ہے۔ میں نے آپکے لکھے ہوئے خط کو پڑھ کر کئی دوستوں کو سنایا اور سب نے فتویٰ دیا کہ اگر سب ہندو اور مسلمانوں کے جذبات ایسے ہوتے جیسے آپ نے اپنے خط میں ظاہر کیے ہیں تو ہندوستان میں یہ خون کی ہولی کبھی نہ ہوتی۔ اور ہم ہندوستان اور پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے اپنے وطن کو اونچے آسمان پر پہنچا دیتے۔ مگر پرماتما کو یہ منظور نہ تھا۔ جب مجھے ان حالات کا خیال آتا ہے جو کچھ ہندوؤں اور مسلمانوں نے اپنے ہم وطنوں سے کیا تو میرا جسم لرزنے لگتا ہے اور میں سچے دل سے چاہتا ہوں کہ کاش ان واقعات کے ہونے سے پہلے میں اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لیتا۔ تاکہ میں آنے والی نسلوں کو ان واقعات کا ذکر تک نہ کر سکتا۔ خیر جو کچھ ہوا اس کے لیے ہم جیسے شریف ہندو اور مسلمان رتی بھر ذمہ دار نہیں۔ یہ ایک پاگلانہ جنون تھا جس نے ہندو اور مسلمان دونوں کی آنکھیں بند کر دیں۔ اور سب سے بری بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مذہب اور دھرم کے لیے ہوا۔ کوئی مذہب یا دھرم اس خونی ہولی کی اجازت نہیں دیتا۔ شاید قدرت نے ہمارا امتحان کرنا تھا مگر ہم اس امتحان میں بری طرح فیل ہوئے ہیں اور دنیا کے لوگوں کے سامنے منہ نہیں دکھا سکتے۔ خیر میری دعا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں امن ہو۔ اور ہم پھر پہلے کی طرح آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا آ سکیں۔ یہ جو کچھ ہوا پور پالیٹکس کی وجہ سے ہوا اور ایک سادھو انسان کی اس میں قربانی دی گئی ہے۔’

بیدی نے اپنے خطوں میں اپنی مصیبتوں، بے سرو سامانی اور غریب الوطنی کا ذکر کیا ہے اور ان خطوط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی چیزوں مثلاً کتابوں، پنسلوں اور کاغذوں کے رولز کی کس قدر یاد آتی تھی اور جن کتابوں کے مسودوں پر وہ کام کر رہے تھے ان کے کھو جانے کا انہیں کتنا غم تھا۔ چوہدری لطیف نے اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن کوشش کی کہ بیدی کی چیزیں انہیں بھیج دی جائیں اور بیدی کے خطوط سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چوہدری لطیف کے ان ‘احسانات’ کے کس قدر مشکور تھے۔

میرے پاس بیدی کے تو چند ایک خطوط ہیں لیکن چوہدری لطیف کے لکھے ہوئے خطوط کو میں دیکھنا چاہتا تھا اور اس کے لیے بیدی کا ڈھونڈنا ضروری تھا۔ اس کے لیے میں نے انڈیا جانے کا ارادہ کیا اور واہگہ کے ذریعے وہ راستہ اختیار کیا جو غالباً بیدی نے کیا ہو گا۔ میرے پاس صرف بیدی کا ایک ہی سراغ تھا اور وہ تھا ان کے خطوط پر لکھا ہوا پتہ جس پر وہ خط واپس منگواتے تھے۔ یہ پتہ جالندھر کی ایک کتابوں کی دوکان کا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پنجاب کتاب گھر اس وقت ہے بھی کہ نہیں۔ تاہم گیٹ مائی ہیراں ضرور موجود پایا۔ جب کھوج شروع کی تو پنجاب کتاب گھر بھی ملا لیکن اس کا مالک ایک نوجوان لڑکا نکلا جس کے دادا امین چند سوری نے یہ پبلشنگ ہاؤس اور کتاب گھر جالندھر میں قائم کیا تھا۔ اسی سے پنجاب کتاب گھر کے نام سے ان کا پبلشنگ ہاؤس لاہور میں بھی تھا۔ اسے بیدی کا معلوم نہیں تھا۔ تاہم اس نے بتایا کہ اس کے ایک چچا دلی میں ہیں جو کہ تقسیم کے وقت پانچ چھ سال کے تھے ہو سکتا ہے انہیں معلوم ہو۔ میں بلدیو متر سوری سے دلی میں ان کے صاحبزادے کے ہمراہ ملا اور اس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے بتایا کہ وہ ہرکشن داس بیدی کو جانتے ہیں۔ میں جب بیدی کے خط پڑھ کر انہیں سنا رہا تھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور جیسے وہ ماضی میں چلے گئے تھے۔ لیکن بیدی، ان کے خاندان اور چوہدری لطیف کے خطوط ڈھونڈنے کی امیدوں پر اس وقت پانی پڑ گیا جب بلدیو نے بتایا کہ بیدی کا ساٹھ کی دیہائی میں انتقال ہو گیا تھا اور ان کا اب بیدی خاندان سے کوئی رابطہ نہیں۔ اور شاید ان کے بچے ملک چھوڑ کر کہیں اور جا چکے ہیں۔ شاید برطانیہ میں۔

میں بیدی کو نہیں مل سکا مگر میرے سامنے چوہدری لطیف کی تصویر واضح ہے۔ جب بلدیو مجھے بتا رہے تھے کہ بیدی صاحب کس قسم کے آدمی تھے، ان کی شخصیت کیسی تھی، وہ کیسے کپڑے پہنتے تھے اور وہ کیسے لگتے تھے تو میں ساتھ ساتھ حیران ہو رہا تھا کہ یہ تو چوہدری لطیف کی بات کر رہا ہے۔ دونوں اشخاص میں حیران کن مشابہت تھی۔

٭٭٭