ٹیکسی والے کی نصیحت

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2013

ٹیکسی والے کی نصیحت

ایک صاحب سناتے ہیں کہ: میں ٹیکسی میں ایئرپورٹ جانے کیلئے سوار ہوا، ٹیکسی ڈرائیور ماہر آدمی تھا اور اپنی لین میں سیدھا چل رہا تھا۔ اچانک ایک پارکنگ لاٹ سے بیک کرتی ہوئی گاڑی باہر نکلی۔ میرے ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک لگا کر اور تھوڑا سا دوسری لین میں ڈال کر بمشکل ہی ٹیکسی کو حادثے سے بچایا۔ ٹیکسی انچوں کے فاصلے سے ٹکرانے سے بچی۔ دوسری لین میں پیچھے سے آتا ایک کار والا کھڑکی سے منہ باہر نکال کر ہمیں ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا نکل گیا۔ میرے ڈرائیور نے نہ صرف مسکرانے پر اکتفا کیا بلکہ معذرت خواہانہ انداز میں اپنا ہاتھ ماتھے تک بھی لایا۔میں بڑا حیران ہوا کہ ہم ایئرپورٹ کی بجائے ہسپتال جانے سے بال بال بچے ہیں۔ ہمارا کوئی قصور بھی نہیں تھا، اْلٹا گالیاں بھی ہم نے کھائی ہیں۔ میں نے ڈرائیور سے کہا تم عجیب آدمی ہو، گالیاں کھا کر ہنستے ہو،حالانکہ تم اس معاملے میں مظلوم تھے۔ ٹیکسی والے نے جس طرح سے مجھے جواب دیا، مجھے اس سے ایک اچھا سبق ملا۔ بعد میں، میں نے اس سبق کوکوڑے والے ٹرک کی اصلیت کا نام دیا۔ ڈرائیور نے مجھے کہا تھا کہ؛ اس دنیا میں بہت سے لوگ گندگی اور کچرہ اْٹھانے والے کوڑے کے ٹرک کی طرح ہر دم غصے، جہالت، ناکامی اور مایوسی کے بوجھ کو اْٹھائے لدے پھندے گھومتے رہتے ہیں، جب اْن کے اندر اس گندگی کا ڈھیر اور اْسکا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو اْن سے جہاں بن پڑے گرانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ کس طرح ایسے لوگوں کو اپنے اوپر گند پھینکنے کا موقع نہ دیں۔

مال ِمفت کی بے قدری

جنوری 2007 کے اوائل کی ایک ٹھٹھرتی صبح کو واشنگٹن ڈی سی کے ایک میٹرو ٹرین اسٹیشن پر، ایک آدمی نے ڈبے سے اپنا وائلن نکال کر مشہور زمانہ موسیقار بیتھوون کے ترتیب دیئے ہوئے موسیقی کے کچھ ٹکڑے بجانا شروع کیئے۔ اس آدمی کو وہاں وائلن بجاتے بجاتے پنتالیس منٹ گزر گئے، اس دوران میں ہزاروں لوگوں کا ادھر سے گزر ہوا۔ پھر کوئی تین منٹ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک پچاس سالہ ادھیڑ عمر شخص نے اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے اپنی چلنے کی رفتار آہستہ کی اور پھر محض چند لمحوں کیلئے رک کر اسے دیکھا ور اس کا وائلن بجتا سنا، اور پھر اپنی راہ لے کر چلتا بنا۔پھر ایک منٹ کے بعد اس کے وائلن کے ڈبے میں ایک بڑھیا نے پہلا ڈالر پھینکا مگر رکے بغیر اپنی راہ لیئے چلتی رہی۔ اس کے چند منٹ بعد ایک آدمی اس وائلن بجانے والے شخص کے ساتھ دیوار پر ٹیک لگا کر اسے سنتا اور دیکھتا رہا مگر اچانک ہی کچھ یاد آیا تو گھڑی دیکھی اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے دوبارہ چل دیا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا یہ چند لمحات ٹھہرنا بھی اس کے کام میں تاخیر کا سبب بن سکتا تھا۔اس دوران جس ذی روح نے اس شخص پر سب سے زیادہ اپنی توجہ مرکوز کی تھی وہ ایک تین سالہ معصوم بچہ تھا جو اپنی ماں کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ سامنے سے گزر جانے کے باوجود بھی وہ دور جاتے ہوئے مڑ مڑ کر اس شخص کو وائلن بجاتے دیکھتا رہا اور چلتا رہا۔ یہ بچہ اکیلا نہیں تھا جس نے اس وائلن نواز کو اتنی توجہ اور دلچسپی سے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا تھا اور بھی کئی ایک چھوٹے بچوں نے ایسا کیا تھا اور والدین اپنے بچوں کو ذرا ٹھہرنے کی ضد کرنے کے باوجود بھی انہیں مجبور کر کے اپنی راہ چلتے رہے۔ اسی طرح پنتالیس منٹ اور بھی گزرے، اب تک صرف چھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اس شخص کو کچھ دیر کیلئے رک کر سنا یا دیکھا تھا۔ تقریبا بیس لوگوں نے اس کے سامنے پیسے ڈالے تھے اور پھر اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلتے بنے تھے۔ اب تک اس آدمی کے پاس بتیس ڈالر اکٹھے ہوئے تھے جب اس نے وائلن بجانا بند کر کے واپس اسے ڈبے میں ڈالا۔ نہ کسی نے اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور نہ ہی کسی نے اس کیلئے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والا کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آدمی دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے مشہور موسیقار جوشوا بیل ہے۔اوریہ موسیقار کسی عام سے نہیں بلکہ ایک تاریخی وائلن سے جس کی قیمت پینتیس لاکھ ڈالر تھی پر ایک مشکل ترین سر بجا کر ان لوگوں کو سنا رہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صرف دو دن پہلے اسی موسیقار نے واشنگٹن ڈی سی میں ہی اپنا ایک شو کیا تھا جس میں داخلہ ٹکٹ کی قیمت ایک سو ڈالر تھی اور شائقین کیلئے ٹکٹ تھوڑے پڑ گئے تھے۔

جوشوا بیل نے میٹرو اسٹیشن پر بھیس بدل کر وائلن بجانے کا یہ تجربہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کہنے پر کیا تھا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے ذوق اور پسند، لوگوں کی ترجیحات اور لوگوں کے معاشرتی احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر لوگوں کے پاس فن کی تاریخ کے سب سے قیمتی فن پارے سے بجائے جانے والے موسیقی کے عظیم مقطع کو سننے کا وقت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ان سے کئی ایسی چیزیں چوک جاتی ہونگی جن کو دیکھنے، سننے یا محسوس کرنے کی حسرت لئے لوگ کوچ کر جاتے ہونگے؟دیکھئے زندگی کے جھمیلے، بھاگ دوڑ، رش اور مصروفیات اپنی جگہ، مگر ایسا بھی کیا کہ ہم زندگی کے حسن کو دیکھنے اور اس کی رعنائیوں سے محظوظ ہونے کیلئے بھی وقت نہ نکال پائیں؟ کیا ہمارے اندر ایسا کوئی شعور اور احساس ہے کہ کسی غیر متوقع جگہ پر ملنے یا پائے جانے والے ہنر مند کو پہچان سکیں؟ کہیں ہماری حسیات مرتی تو نہیں جا رہیں کہ اب ہمیں خوبصورت اور بد صورت کا ادراک اپنے آپ نہیں ہو پاتا؟ اب ایسا بھی کیا کہ مال خرچ کریں تو ہمیں چیز کے اچھے برے ہونے کا احساس ہو ورنہ نہیں!

زندگی خامیوں کے ساتھ

کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکے کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔ ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔ گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نہ ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نہ پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔جی ہاں، ہم سب میں کوئی نا کوئی عیب ہے، پھر کیوں نا ہم اپنے ان عیبوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر اپنی اپنی زندگیوں سے بھر پور لطف اٹھائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا ہے کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہوں۔

٭٭٭