سانپ کا انتقام

مصنف : احمد اصغر

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : ستمبر 2013

میں محکمہ انہار میں سب انجینئر بھرتی ہوا اس وقت میں بنگلہ نہر قبول شاہ میں’ جو تحصیل فاضلکا ضلع فیروزپور میں ہے’ تعینات تھا’ ایک صبح محمددین میٹ کے ہمراہ سائیکل پر سوار راجباہ بانڈی والا کی ٹیل چیک کرنے گیا۔ جب ہم راجباہ کے پانچ میل طے کرچکے تو میٹ کا سائیکل پنکچر ہوگیا۔ ٹیل صرف ڈیڑھ میل پر تھا میں نے میٹ سے کہاکہ تم پنکچر لگالو’ میں ٹیل دیکھ آتا ہوں۔ میں ٹیل سے فقط سوگز کے فاصلے پر تھا جب میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا اژدہا راجباہ کی پٹری پر ایک کبوتر منہ میں دبائے ہوئے ہے۔ سانپ میں نے پہلے بھی دیکھے تھے اور خود مارے بھی تھے اس لیے بغیر تردد کے دو ڈھیلے مٹی کے اٹھائے اور اس پر پھینکے تاکہ وہ بھاگ جائے اور میرا راستہ صاف ہوجائے مگر وہ پھن پھیلا کر ڈیڑھ فٹ اونچا ہوگیا۔ میں نے آٹھ دس ڈھیلے اور پھینکے وہ ہر ڈھیلے سے پھن کو ادھر ادھر کرکے بچ جاتا۔پھر وہ میری طرف بڑھنا شروع ہوا اور ہمارے درمیان فاصلہ صرف چھ فٹ رہ گیا’ میں خوفزدہ ہوا اور سائیکل پر سوار ہوکر واپس ہولیا’ سائیکل پر سوگز دورجاکر پیچھے دیکھا تو وہ اژدہا اْسی چھ فٹ کے فاصلے پر میرا تعاقب کررہا تھا۔ میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اسی طرح میرا سانس پھول گیا۔ اس لمحے قدرت نے میری مدد کی راجباہ کا ایک موگہ آگیا جو اکھیڑ کر تازہ بنایاگیا تھا اس کی تعمیر پکی اینٹوں سے ہوئی تھی اور اینٹوں کا ڈھیر پاس ہی پڑا تھا۔ میں نے سائیکل پھینکا اور اس ڈھیر پر چڑھ کر اژدہے کو اینٹیں مارنے لگا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک اینٹ اس کے پھن پر زور سے لگی اور وہ پٹڑی سے اتر کر کھیتوں کی جانب بھاگنے لگا میں نے تین چار اینٹ اور مارے تو وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا تھا۔ پانچ منٹ بعد ہوش آیا تو میں اینٹوں اور روڑوں کے ڈھیر پر بیٹھا تھا اور اژدہا مجھ سے آٹھ فٹ فاصلہ پر مردہ پڑا تھا۔ اسی دوران میٹ بھی پہنچ گیا اور بولا ‘‘ملک صاحب خیریت ہے نا؟’’ پھر اس نے میرے بدن کا بغور مشاہدہ کیا میں نے کہا کہ اللہ نے میری جان بچالی ہے۔

میں تمام دن رات آرام کرتا رہا اور رات چھت کے اوپر چارپائی پر سوگیا۔ مستری رحمت دین نے چار آدمیوں کی ڈیوٹی لگائی کہ کوارٹر کے اردگرد رات کو لالٹین جلا کر پھرتے رہنا۔ اگر کوئی سانپ نظر آئے تو اسے مار دینا۔ اس نے سب کو ہدایت کی کہ یہ بات ملک صاحب کو مت بتانا۔ میں اگلے دن بھی خوفزدہ رہا۔تین دن بعد فاضلکا جانے کا پروگرام بنایا۔ مستری رحمت ہمراہ تھا لیکن وہ سائیکل پر آٹھ فٹ پیچھے رہا۔ جب ہم بنگلے کا ریمپ ختم کرکے پٹڑی پر چڑھے تو مستری رحمت زور سے چلایا کہ ملک صاحب’ سائیکل دوڑا کر چلے جاؤ’ سانپ تمہارا پیچھا کررہا ہے’ میں بھاگا’ سوگز پیچھے جاکر دیکھا تو رحمت دین سانپ پر ڈھیلے پھینک رہا تھا۔ میں لوٹا تو اس نے کہا کہ باری باری ڈھیلے مارتے ہیں’ چنانچہ جب وہ ڈھیلے پکڑنے لگتا تو میں اژدہا کو مارتا اور جب میں ڈھیلے پکڑنے لگتا تو وہ اس کو مارتا۔ آخر رحمت دین اسے مارنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے چار فٹ گہرا گڑھا کھودا اور اس میں اس اژدھے کو دبادیا۔ پھر ہم واپس آگئے اور سفر ملتوی کردیا۔رحمت دین نے بتایا کہ آپ نے اور محمددین نے پہلے اژدہے کو ویسے ہی چھوڑ دیا تھا دفن نہیں کیا تھا اس لیے مجھے ڈر تھا کہ اس کا جوڑا آئے گا’ مردہ ساتھی کی آنکھوں میں دیکھے گا’ پھر خوشبو لیے آپ سے بدلہ لینے کیلئے آئے گا۔ اس نے کہا کہ میں نے چھ آدمیوں کی دن رات ڈیوٹی لگائی تھی کہ نگرانی کریں’ سانپ رات کو آتا’ کوارٹر کے گرد گھومتا اور آپ تک پہنچنا چاہتا تھا مگر آدمیوں کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا۔ آخر میں نے آپ کو فاضلکا چلنے کیلئے کہا۔ مجھے علم تھا کہ وہ آپ کا پیچھا کرے گا اور میں اسے موت سے ہمکنار کروں گا۔ سو میری تدبیر اللہ نے کارگر فرمائی اور ہم نے موذی اژدھے سے نجات پائی۔ رحمت دین نے کہا کہ ایسے اژدھے جوڑا ہوتے ہیں۔ اگر ایک کو مار کر دفن نہ کیا جائے تو قدرت نے انہیں یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ خوشبو سے’ اپنے شکار کو پالیتے ہیں۔ دفن کرنے سے پہلے رحمت دین مستری نے فیتے سے اس کی لمبائی بھی ماپی تھی تو تیرہ فٹ دو انچ تھی۔ عام آدمی تو اسے دیکھ کر ہی اپنے حواس گم کردیتا۔