سوال ، جواب

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اگست 2013

ج : صالحین نماز جنازہ پڑھنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ نہیں کہ نماز جنازہ نہیں ہو گی۔ نماز جنازہ ہر مسلمان کی پڑھ لینی چاہیے ۔ احناف کے خیال میں اگر عمومی شہرت کی بنیاد پر مسلمان ہے تو جنازہ عمومی دعا کے ساتھ پڑھ لینا چاہیے۔ احناف جو دعا پڑھتے ہیں وہ براہ راست میت کی مغفرت کی دعا نہیں ہے بلکہ عمومی دعا ہے یعنی اللھم اغفرلحیّنا…… بس یہ پڑھ لیجیے اور اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیجیے ، نہ ہونے کا مسلہ نہیں لیکن البتہ صالحین اس سے اجتناب کریں تو کوئی حرج نہیں ۔ حضورﷺ ایسا کرتے تھے کہ بعض مجرموں یا ایسے لوگوں کا جنازہ پڑھنے سے آپﷺ خود اجتناب کر لیتے تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : تقسیم کرنے سے مراد کیا ہے ، اگر آپ نے واقعی دے دیا ہے تو مسئلہ ختم ہو گیا لیکن اگر تقسیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ویسے توتقسیم کر کے رکھ دیا لیکن خود پہن لیا تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ دھوکہ بازی ہے ، اس سے آدمی کو پناہ مانگنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس وہم کودور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالکل بے پروا ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں ۔اللہ کے پیغمبر نے اس کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ، وہم کی بیماری آدمی کو دین سے دور لے جاتی ہے اور بالکل ایک ایسا آدمی بنا دیتی ہے جس سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں ، اس لیے آپ بالکل بے پروا ہو جائیں ۔ اس بات کو بالکل نہ سوچیں ، نماز پڑھیں ، جب آپ اس طرح بے پروا ہو جائیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کا وہم بھی ختم ہو جائے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: ہماری خواتین کی تربیت ایسی ہے کہ وہ بالکل اس کو برداشت نہیں کرتیں اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ جب تک کوئی بہت ناگزیر صورت نہ ہو یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کا بڑھاپا بالکل رسوا ہو کر رہ جائے گا۔ اصولاً اجازت کی ضرورت نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: طالب علمانہ رویے سے مراد ہے کہ آدمی ہر وقت بات سمجھنے کے لیے تیار ہو ، ہمدردی کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو ، اس پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہو ۔اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ کی مخلوق سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ آپ کو اپنی ماں سے ، باپ سے ، بھائیوں سے ، بچوں سے ، بنی نوع انسان سے محبت ہوتی ہے تو یہ محبت اللہ نے خود فطرت میں رکھی ہے اوراس پر دنیا کی معاشرت قائم ہے ، اس وجہ سے اگر آپ اس محبت کو اپنے اندر نہیں پاتے ہیں تو یہ خلاف فطرت بات ہے ۔ہاں ہر محبت ا للہ کی محبت کے تابع ہونی چاہیے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ بڑے حادثے کی بات ہے ۔ اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ یہ صورت کسی بیٹے کی باپ کے ساتھ نہ ہو ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کاہے اور قرآن تو کہتا ہے کہ تم والدین کے مقابلے میں اف تک نہیں کر سکتے تو اسکے لیے ہم دعا ہی کر سکتے ہیں۔ باقی آپ بچے کے اچھے دوستوں سے کہیے کہ اسے سمجھانے کی کوشش کریں ، براہ راست بات کرنے کے بجائے اسے صالحین کے پاس اچھی محافل میں بیٹھنے کے مواقع دیں کہ اللہ اس کا دل نرم کر دے تو یہ طریقے اختیار کریں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ معاش کی جیسی بھی جدوجہد کر رہے ہیں بہرحال کچھ نہ کچھ وقت تو بچتا ہو گا ، جو وقت آپ تفریح وغیر ہ میں صرف کرتے ہوں گے ۔اسی میں اگر ہفتے میں پون گھنٹہ نکال سکیں کہ اللہ کے دین کو سمجھ لیں تو آہستہ آہستہ آپ کے اندر شوق پیدا ہو جائے گااور وہی وقت جو آپ کو بہت تنگ لگتا ہے وہ بہت زیادہ لگنے لگے گا ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن میں جب یہ الفاظ اکٹھے آتے ہیں تو کتاب قانون کے لیے آتا ہے اور حکمت ایمانیات کے لیے آتا ہے یعنی دین میں جو باتیں عقیدے کے طور پر ماننے کی ہیں وہ دین کا فلسفہ ہیں تو حکمت کا لفظ اس کے لیے آتا ہے اور کتاب کا لفظ شریعت اور قانون کے لیے آتا ہے اور جو چیزیں دین کے فلسفے میں شا مل ہیں یعنی حکمت کی رو سے اس میں اللہ پر ایمان ہے ، توحید کا تصور ہے ، آخرت پر ایمان ہے ، رسالت اور نبوت کا صحیح تصور ہے اور اس پر ایمان کے تقاضے ہیں ، اس طرح خیر وشر ، سنن الٰہیہ کا بیان ہے ، یہ چیزیں حکمت میں شامل ہیں اور شریعت میں سیاست ، معیشت ، معاشرت ، حدود ، تعزیرات ، جہاد اس طرح کی بہت سی چیزوں کے بارے میں ا حکام ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اللہ تعالی سے بہت زیادہ معافی اور توبہ کرنی چاہیے ، اللہ کے بعد سب سے بڑا حق والدین کا ہے ، اگر وہ تلف کیا ہے تو یہ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ، معافی مانگے لیکن یہ حقوق العباد کی چیز ہے تو قیامت کے دن معاملہ پیش ہو جائے گا ، اگر والد معاف کر دیں تو اللہ بھی معاف کر دے گا اور اگر معاف نہیں کریں گے تو پھر اپنی نیکیاں دے کے اور ان کی برائیاں لیکر ہی جان چھڑانی پڑے گی۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: صحابہ کرامؓ کوئی شک نہیں آپس میں رحمدل تھے اور کفار کے مقابلے میں اس کے معنی سخت نہیں بلکہ ایسے جری تھے کہ انہیں کوئی رام نہیں کر سکتا تھا ، شدید کا مطلب یہ ہے ، جنگ صفین جوہوئی وہ حق کے لیے ہوئی یعنی دونوں گروں سمجھتے تھے کہ وہ حق کے لیے لڑ رہے ہیں ، حق کے معاملے میں وہ ہمیشہ سخت رہے ، رحمدلی کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ چور کا ہاتھ کاٹنے سے انکار کر دیں ، آپ زانی کو سنگسار کرنے سے انکار کر دیں یعنی نبیﷺ نے بھی مجرموں کو سزائیں دی ہیں اور حق کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں حالانکہ آپ رحمت اللعالمین تھے ، رحمدل ہونے سے مراد ہے کہ آپس میں ان میں محبت کے تعلقات تھے اور اگر کسی موقع پر حق کے لیے آپس میں اختلاف ہوا ہے تو انہیں سخت ہونا چاہیے تھا اور وہ ہوئے ، دونوں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اسی لیے لڑ گئے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: زکوۃ ریاست جبراً وصول کر سکتی ہے ، اسلامی ریاست میں اس کی نوعیت ٹیکس کی ہے ، یہ لازماً آپ کو دینا پڑے گی ورنہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی طرح حکومت بھی تلوار اٹھا سکتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پہلی بات یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کو بہرحال اس دنیا میں زندگی بسر کرنی ہے اور اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے آپ کو اپنے لیے معاش کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تلاش کرنا ہوتا ہے ، یہ خدا کا بنایا ہوا قانون ہے ، والدین جب آپ سے کہتے ہیں کہ ایسی تعلیم حاصل کیجیے کہ جس سے آپ اپنے آپ کو معاشی لحاظ سے کسی بہتر جگہ پر کھڑا کر سکیں تو آپ کی بھلائی میں کہتے ہیں ، آپ اس کو یوں دیکھیے کہ آپ جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آپ کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے کوئی مشکلات کا باعث تو نہیں بن جاتی ۔ اس کے ساتھ دین بھی سیکھیے ۔ حفظ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کیجیے اور اگر آپ سمجھیں کہ یہ معاملہ موخر کیا جا سکتا ہے اس سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہو گا تو سال دوسال موخر کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا لیجیے اور اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ کام بعد میں ہو سکتا ہے تو بعد میں کر لیں لیکن یہ کوئی دو متضاد چیزوں کا معاملہ نہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے ، آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آپ نے دنیا میں رہنا ہے اس کی تیاری بھی ضروری ہے اور آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے ، توازن ہی کو اختیار کرنے سے صحیح زندگی وجود میں آتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: بالکل ٹھیک ہے ، خدا کے پیغمبر کے ہوتے ہوئے کوئی اور امامت کی کیسے جسارت کر سکتاہے البتہ ایسا ضرور ہوا کہ حضورﷺ کو کوئی معذوری لاحق ہو گئی یا آپ کو آنے میں تاخیر ہو گئی ، آپ وضو کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے یا کہیں اور مجلس میں شریک تھے تو اس میں نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا تو کسی صحابی نے کھڑے ہو کر جماعت کرادی اور جب حضورﷺ کی آہٹ بھی سنی تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی ، اگر کبھی اس طرح نماز شروع ہو گئی تو آپ نے ا شارے سے کہا کہ نہیں ایسے ہی مکمل کر لو تو حضور کے ہوتے ہوئے کوئی جسارت نہیں کر سکتالیکن اگر حضورﷺ موجود نہیں اور نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے تو جماعت ہو جائے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ نصیب کوسمجھ لینا چاہیے ، اللہ تعالی کی طرف سے جو چیزیں ملتی ہیں توان کے بارے میں یہ طے ہوتا کہ فلاں فلاں محنت کے بغیر مل جائے گی اور فلاں فلاں چیز محنت کے بغیر نہیں ملے گی تو اس وجہ سے اللہ کا قانون یہی ہے کہ آپ کو جدوجہد کرنی ہے ، عین ممکن ہے کہ جو چیز آپ سمجھ رہے ہوں کہ آپ کو حاصل ہو سکتی ہے وہ اللہ تعالی نے اس محنت سے مشروط کی ہو تو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ نصیب کے معنی یہ ہیں، یہی معاملہ رزق کے ساتھ بھی ہے ، رزق کا کچھ حصہ آپ کو محنت کے بغیر ملے گا اور کچھ حصہ محنت کے ساتھ مشروط ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت لوطؑ رسول تھے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس میں دو باتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ جن کاتعلق قرآن کی تعبیر ، تحقیق سے ہے ، اس میں جس کی بات آپ کو زیادہ معقول لگے ، (آپ تفاسیر بھی دیکھ سکتے ہیں) اور جو بات آپ کو معقول نظر آئے اسے آپ اختیار کر سکتے ہیں ، دوسرا پہلو اس کا مسئلے مسائل کا پہلو ہے جس کے بارے میں پوچھا گیا تھا کہ یہ بدعتیں جوعام طور پر ایجاد ہو جاتی ہیں تو ان میں پڑنے کا کوئی امکان نہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ پوچھیے اس کا ماخذ کیا ہے تو بدعت کا کبھی ماخذ نہیں ہوتا ، اس میں کوئی تاویل کا اختلاف نہیں ہوتا ،تاویل کے اختلاف میں آپ کو پورا حق ہے کہ آپ جس کی رائے کو زیادہ بہتر سمجھیں اسے قبول کر لیں لیکن بدعت میں پڑنے کا اندیشہ ختم ہوجاتا ہے اگر آپ یہ اصرار کریں کہ ہم وہی بات مانیں گے عمل کے معاملے میں جو اللہ کے پیغمبر سے ثابت ہو گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: سستی کوئی وجہ نہیں ہوتی کسی کام کی، آپ اگر معقولیت سے محسوس کرتے ہیں کہ پانی اتنی دور ہے کہ آپ کے لیے زحمت کا باعث بن جائے گا تو آپ تیمم یا مسح کر سکتے ہیں ،اصل اصول زحمت ہے ، دین میں کوئی خاص مسافت مقرر نہیں کی گئی اور یہ حالات کے لحاظ سے ہو بھی نہیں سکتی تھی ، مثال کے طور پر گاڑی چھوٹ رہی ہے اور آپ کو نماز پڑھنی ہے ، ہو سکتا ہے کہ پانی ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہو لیکن وہاں جانا اور وضو کرنا گاڑی چھوٹنے کا باعث بن جائے گا تواس وجہ سے اگر دین اس کی مسافت مقرر کرتا تو یہ حالات کے خلاف معاملہ ہو جاتا تو آپ اپنے طور پر اس کا فیصلہ کر لیجیے باقی اگر نیک نیتی سے آپ نے کوئی اجتہاد کیا ہے اور غلط بھی کیا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: شہادت کے بارے میں اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب آدمی کسی حق کے لیے جان دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان دے رہا ہے تو تبھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اگر وہ ماں کے بارے میں ، مال کے بارے میں یا کسی اور چیز کے بارے میں اسی جذبے سے میدان میں اترتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں اس کے اجر کا باعث بنے گا۔اس کا تعلق آدمی کی نیت پر ہے ، کسی خاص عمل پر نہیں ۔ اگر میدان جنگ میں بھی آدمی کی نیت خدا کی راہ میں جان دینی کی نہ ہو تو اس کا بھی کوئی اجر نہیں ۔تو اس نیت کے تحت آدمی جس چیز کے لیے بھی اترتا ہے وہ اس کے لیے یقینا شہادت بن جاتی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: اس سے تو کسی بھی چیز کی حرمت نہیں نکلتی ، اس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ایک طرف اللہ کا پیغمبر ہے جو دین کی دعوت دے رہا ہے اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو لھو ولعب کی مجلس سجا کر بیٹھ گئے ہیں تو جب یہ چیزیں پیغمبر کے مقابلے میں ہونگی تو وہ خدا کے مقابلے میں بڑی سرکشی بن جائے گی ، اس میں حرمت کا کیا سوال ہے ۔ آپ یہ دیکھیے کہ جمعے کے خطبے کے موقع پر جب لوگ اسی طرح مال تجارت کی طرف چلے گئے تھے ، مال تجارت میں جا کر سودا خریدنا کوئی بری چیز تو نہیں لیکن اللہ تعالی نے اس پر تنبیہہ کی ، موقعے موقعے کی بات ہوتی ہے

(جاوید احمد غامدی)

ج: سرزد ہو جاتا ہے ،ان الفاظ پر غو رکیجیے ، یعنی جذبات کے غلبے میں آدمی خود پر قابو نہیں پاسکا ، خدا سے ڈرتا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو لیکن پھسل گیا ، یہ سرکشی نہیں ہے ، اس کے بعد ایسا آدمی نادم ہو گا اور فورا رب کی طرف رجوع کرے گا ، معافی مانگے گا ، اور اللہ تعالی نے قرآن میں کہا ہے کہ جب کوئی آدمی اس طرح جذبات کے غلبے میں آکر کوئی گنا ہ کر لیتا ہے اور فورا معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ نے لازم کر رکھاہے کہ اس کی توبہ کو قبول کرے ، یہ خدا کی بڑی رحمت اور بڑا کرم ہے لیکن آدمی اگر منصوبہ بندی کر رہاہو کہ گناہ کر کے معافی مانگ لوں گا تو یہ بڑی سرکشی کی بات ہے ، ایک چیز ہے انسان سے ہو گئی اور ایک چیز وہ کرنے پر مصر ہو گیا تو ان دونوں میں بڑا فرق ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو اجتناب کر سکتے ہیں لیکن رد عمل میں کوئی بری بات نہ کہیے ، بس اعراض کر کے چلے جائیے ، دینا آپ پر لازم نہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نماز جمعہ کی کوئی قضا نہیں ہوتی ، بس آپ ظہر کی نماز پڑھ لیجیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: یہ کوئی بسم اللہ نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اللہ کا نام لینا چاہیے جیسے لینے کا حق ہے ، اس طرح کی علامتیں بہت سی گمراہیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

786

ج: یہ کوئی بسم اللہ نہیں ، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، اللہ کا نام لینا چاہیے جیسے لینے کا حق ہے ، اس طرح کی علامتیں بہت سی گمراہیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

786

ج: دین او رمذہب تو ہمارے ہاں ارد و میں بالکل مترادف بولے جاتے ہیں اور ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ، شریعت اللہ کے نازل کردہ قانون کو کہتے ہیں ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: عورتوں کے اس طرح کے معاملات میں چند اصولی باتیں جان لینی چاہیےں جس کے بعد آپ کو بہت سی چیزوں کا خود ہی جواب مل جائے گا، ایک تو وہ چیزیں ہیں جن میں دوسروں کو دھوکا دیاجاتاجیسے خواتین دوسروں کے بال ساتھ ملا کر اپنے بال لمبے کر لیتی ہیں ، حضورﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا یعنی اللہ نے انسان کو جو ہئیت دی ہے اس میں کسی کمزوری یا کمی کا علاج کرنا ایک چیز ہے اور اس میں نمائش کا پہلو پیدا کر کے اسے دوسروں کے لیے فریب کا ذریعہ بناد ینا اس کو پسند نہیں فرمایا ، اسی طرح بعض بد ہئیتی کی چیزیں عورتیں بناؤ سنگھار میں اختیار کرلیتی ہیں جیسے جسم پر بعض نام کھدوا لیتے ہیں ، طرح طرح کے نقش و نگار بنا لیتے ہیں تو اس کو حضورﷺ نے ناپسند فرمایا ، باقی بناؤ سنگھار کی چھوٹی موٹی چیزیں جو خواتین کرتی ہیں اس کے بارے میں کوئی حرج نہیں ۔ 

(جاوید احمد غامدی)